میرے بوڑھے چچا‘ بہادر کی آنکھوں میں مسلسل آنسو تھے۔ ان آنکھوں میں‘ جن کی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ وہ صرف سن سکتے تھے۔ میں ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے‘ بیٹھا‘ ان کے آنسوئوں کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چچی چند دن پہلے فوت ہو گئی تھیں۔ میں اسلام آباد سے اپنے گائوں آیا ہوا تھا کہ بوڑھے چچا اور اپنے کزنز سے تعزیت کر سکوں۔ تیس برس پہلے بابا، پھر چچا محمود اور کچھ دن پہلے چچا حیدر فوت ہوئے تھے۔ اب یہ آخری چچا بہادر بچ گئے تھے۔
جب چچا کے کمرے میں داخل ہوا اور سلام کیا تو اندازہ نہ تھا کہ وہ اتنے بوڑھے ہو گئے ہوں گے۔ میری کزن نے پوچھا: بابا! پہچانا؟ بولے: اپنے مرحوم بھائی کے بیٹوں کو بھی نہیں پہچانوں گا! وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ میری آواز سن کر اٹھنے کی کوشش کی۔ میں نے انہیں گلے سے لگایا اور ان کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انہوں نے اس عمر میں بھی شیو کرا رکھی تھی‘ جس سے ان کا چہرہ تازہ لگ رہا تھا۔ وقت نے کیا ستم کیا تھا۔ اب ان کے لیے اٹھنا بھی مشکل ہو رہا تھا اور کبھی اس علاقے میں کوئی میلہ ٹھیلہ میرے اس چچا کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ چچا کی جوانی یاد آئی۔
پُرانی باتیں ہیں۔ گائوں کی عورتیں اگر جھگڑا کر رہی ہوتیں اور وہ چچا کو دور سے آتے دیکھتیں تو وہ سب لڑائی چھوڑ کر گھر بھاگ جاتیں۔ انہیں پتہ تھا کہ وہ غصے کے تیز ہیں اور بغیر کسی کا لحاظ کیے سب کو سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے گائوں کا پہلا کنواں کھودا۔ اسی کے پانی سے وہ اپنے کھیتوں کو پانی دیتے۔ بیلوں کی جوڑی صبح صبح منہ اندھیرے چلنا شروع کرتیں۔ بیلوں کے گلے میں بجتی گھنٹوں سے پورے گائوں کی خواتین کو پتہ چل جاتا کہ آج کنواں چل رہا ہے۔ سورج کی روپہلی کرن کے ساتھ ہی گائوں
کے لوگ اس کنویں پر اکٹھا ہو جاتے۔ کوئی کپڑے دھوتا‘ تو کوئی گھڑے میں پانی بھرتا۔ بچے اس کے ٹھنڈے شفاف پانی میں نہانا شروع کر دیتے۔ مجھے سمجھ نہ آتی کہ بیلوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں ایک ہی دائرے میں چلنے کے لیے کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے؟ پٹی آنکھوں پر کیوں؟ میں خود سے ہی سوالات کرتا رہتا۔ بے چارے بیل سارا دن ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ وہ تھکتے یا بور نہیں ہوتے؟ یہ ہماری آوازیں سن سکتے ہیں لیکن یہ ہمیں دیکھ نہیں سکتے۔ یہ اس گائوں کے کتنے رازوں کے امین ہیں۔ میں سوچتا: کتنا خوبصورت دن نکلا ہوا ہے، پورا گائوں کنویں سے نکالے ہوئے پانی سے اپنی گندگی صاف کر رہا ہے، سب ہنس رہے ہیں، عورتیں گلے شکووں میں مصروف ہیں۔ ساس بہو کی لڑائیاں عروج پر ہیں۔ کبھی کبھار کنویں پر لڑائی بھی ہو جاتی۔ گائوں کے لوگ زیادہ تر ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہیں‘ لہٰذا شریکا کام دکھاتا ہے اور گلے جھگڑوں میں بدل جاتے۔ لیکن ایک بات کا خیال سب خواتین رکھتی تھیں کہ گائوں کا کوئی مرد اگر کنویں پر موجود ہوتا تو پھر سب اچھی اچھی باتیں کرتیں۔ اگر کبھی دو خواتین کی لڑائی بڑھ جاتی تو گائوں کے بچے بھاگے بھاگے ان خواتین کے گھر جاتے اور مردوں کو بتاتے۔ وہ دوڑے دوڑے آتے اور اپنے اپنے گھر کی خاتون کو برا بھلا کہتے گھر لے جاتے۔ کبھی ایک دوسرے سے نہ لڑتے کیونکہ وہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی چچا کنویں پر اس رش سے تنگ بھی آ جاتے‘ لیکن وہ بے چارے کیا کرتے؟ کوئی بھائی کی بیوی تو کوئی بہو ہے، تو کوئی بھانجی ہے تو کوئی بھتیجی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سب کو مسکرا کر ملتے۔
وہ کنواں پورے گائوں کی سماجی اور کلچرل ایکٹیوٹیز کا محور تھا۔ بچوں کے رشتے وہیں طے ہوتے، لڑائیاں وہیں ہوتیں، دور چارپائیوں پر برزگ بیٹھے حقہ وہیں پیتے۔ سب سے زیادہ مزہ اس کنویں پر اس دن آتا جب کسی کی شادی ہوتی۔ گھر سے اسے کنویں پر نہلانے اور نئے کپڑے پہنانے کے لیے لے جایا جاتا۔ دولہا آگے چل رہا ہوتا اور باراتی پیچھے۔ گائوں کا نائی دولہا کی کئی دنوں کی بڑھی ہوئی شیو بنایا۔ اسے کچھ روپے دیے جاتے تو انکاری ہو جاتا کہ اتنے کم‘ زیادہ دو‘ مہر صاحب کے بیٹے کی شادی پر بھی کنجوسی؟ سب باراتیوں کو پھر کچھ نہ کچھ پیسے نکال کر چاچا کالو نائی کو دینا پڑتے۔ گائوں کا ڈھولچی یہ سب غور سے دیکھ رہا ہوتا۔ اس کے بعد نائی دولہا کو وہیں کنویں کے پانی سے نہلاتا۔ اس کی جوانی کا امتحان لینے کے لیے پانی کا گھڑا بھی دولہا سے اٹھوایا جاتا اور یہ دیکھ کر سب نعرے لگاتے۔ اگر وہ نہ اٹھا پاتا تو زیادہ نعرے لگتے۔ پھر نئے کپڑے پہنائے جاتے‘ سر پر پگڑی باندھی جاتی۔ جوانی کا ایک اور امتحان باقی ہوتا۔ نئے جوتے پہنا کر اس کے آگے مٹی کی ٹوٹی الٹی کرکے رکھی جاتی کہ اسے توڑو۔ اکثر شہ بالا توڑ دیتا تاکہ دولہا کی بے عزتی نہ ہو۔ ڈھولچی ڈھول بجا رہا ہوتا اور سب کو علم ہوتا اب نائی اور میراثی میں لڑائی ہو گی کہ اب جو ویلیں ملیں گی‘ وہ کون لے گا۔ اکثر نائی اور ڈھولچی لڑ پڑتے کہ اب ویلیوں کا حق اس کا بنتا ہے۔ نائی کا خیال ہوتا کہ اس نے نہلایا دھلایا‘ اب گبھرو کے سر پر جو بھی پیسے رکھے جائیں گے‘ ان پر اس کا حق ہے۔ ڈھولچی سوچتا کہ اس نے شیو کرنے کے بعد پوری برادری سے ویل لے لی تھی‘ اب اس کی باری ہے کیونکہ وہ مسلسل ڈھول پیٹ رہا ہے۔ گائوں کے سیانے اکثر دونوں کو علیحدہ علیحدہ پیسے دیتے؛ تاہم یہ لڑائی شادی ختم ہونے تک چلتی رہتی۔ اس کے بعد ہم بچوں کا کام شروع ہوتا کیونکہ دولہا کے رشتہ داروں نے وہیں چچا کے کنویں پر کھڑا ہو کر اس کے گلے میں نوٹوں کے ہار ڈالنا ہوتے تھے۔ ہم بچوں کی کوشش ہوتی کہ کہیں سے کوئی ایک آدھ روپیہ ہی ان ہاروں سے توڑ لیں۔ ہمیں اس کام سے باز رکھنے کے لیے ایک شہ بالا دولہا کے ساتھ ہوتا۔ شہ بالا تیز آنکھوں سے ہر ایک کو دیکھ رہا ہوتا کہ کون سا بچہ کس کی ٹانگوں سے گزر کر ہاروں کے نوٹ توڑنے کی فکر میں ہے۔ یہ ایک الگ ہی نوعیت کا شغل ہوتا تھا۔ ایک طرح سے یہ شہ بالا اور بچوں کی جنگ ہوتی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ نوٹ توڑنے کی کوشش کرنے والے بچوں کو شہ بالا گردن سے پکڑ لیتا اور جب اس کا منہ اوپر کرتا تو پتہ چلتا کہ وہ اس کا اپنا چھوٹا بھائی ہے یا پھر کوئی بھانجا بھتیجا۔ اب شہ بالا کیا کرے؟ اسے ایک طرف دھکا دے کر کہتا: شرم کرو۔ دولہا سے زیادہ شان شہ بالا کی ہوتی۔
چچا بہادر کے کنویں پر صبح سے شام تک رونق ہوتی۔ شام کو ہمارا کزن صدیق‘ جو چچا کا بڑا بیٹا تھا‘ بھیڑ بکریوں کے لیے کھجور کے کچے گچھے لاتا۔ بھیڑ بکریوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی وہ کچی کھجوریں کھاتے۔ صدیق کو بنٹے کھیلنے کا شوق تھا۔ اپنے بنٹوں کو چوری سے بچانے کے لیے وہ انہیں کنویں کے پانی میں رکھ دیتا۔ صدیق کنویں میں اتر کر مٹی کے پکے برتن میں وہ بنٹے رکھ آتا۔پھر چچا کو شوق ہوا کہ صدیق اب وہاں دیہات کے کھیلوں میں نام پیدا کرے۔ صدیق کے لیے خالص دودھ شروع ہو گیا۔ چچا خود میلوں ٹھیلوں کے شوقین تھے۔ انہیں شوق تھا کہ صدیق ان کا نام روشن کرے۔ وہ بھی فخر سے بتائیں کہ فلاں پہلوان ان کا بیٹا ہے۔ چچا کئی کئی دن تک گھر سے باہر پورا علاقہ پھرتے رہتے تھے۔ بیل دوڑ کے مقابلے ان کے بغیر ممکن ہی نہ تھے۔بلاشہ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔
وقت بیت گیا تھا۔ وہ کنواں کب کا بند ہو چکا۔ کھیت اب پیٹر انجن سیراب کرتے ہیں۔ بیل بک گئے تھے۔ جہاں کنواں ہوتا تھا اور پوری بستی جمع ہوتی تھی وہاں اب گھر بن گیا تھا۔ بستی بے ڈھنگے انداز میں پھیل گئی تھی۔ گائوں کا ماحول‘ جو کبھی صاف ستھرا ہوتا تھا‘ آبادی بڑھنے کے بعد آلودہ ہو گیا تھا۔ جس کا جہاں جی چاہا‘ کچے پکے کمرے ڈال کر اپنے بچوں کی شادی کر دی تھی۔ مجھے خود گائوں کا راستہ اب نہیں ملتا۔میں بوڑھے چچا کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے ان کا لمس محسوس کرکے ماضی میں کھویا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا: چاچا! جب پاکستان بنا تو آپ کی عمر کیا تھی؟ بولے: اچھا خاصا بڑا لڑکا تھا۔ میں نے پوچھا: ہندو بھی تو ہمارے گائوں میں رہتے تھے؟ بولے: ہاں... اچھے تھے‘ چلے گئے۔ میں نے پوچھا: کوئی ہنگامہ، کوئی لڑائی، کوئی خون خرابہ؟ ان کی آواز میں حیرانی ابھری اور بولے: وہ کیوں‘ کیوں خون خرابہ ہوتا‘ ہم سب اکٹھے ہی رہتے تھے‘ کیوں ایک دوسرے کو مارتے؟
میں کافی دیر تک ان کے ماضی کو کریدتا رہا۔ خاصا وقت گزر گیا تھا۔مجھے محسوس ہوا کہ وہ نہیں چاہتے کہ میں جائوں... میرے بابا کی باتیں مجھے بتاتے رہے۔ ہم دونوں کی آنکھیں بار بار بھیگ جاتی تھیں۔اچانک بولے: یار اب تھک گیا ہوں... ساری رات نیند نہیں آتی... یادیں سونے نہیں دیتیں۔ مجھے اندازہ تھا۔ پہلے باپ، پھر تین بھائی اور اب بیوی... پیچھے کیا رہ گیا تھا۔ تنہا بوڑھا انسان، نہ ختم ہونے والی یادیں اور طویل راتیں۔ مجھ پر ایک عجیب سی اداسی طاری ہو گئی۔ کبھی بستی کا طاقتور ترین انسان‘ اب سہارے کے بغیر قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ وقت نے انہیں بھی جھکا دیا تھا۔ بوڑھے چچا میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے رہے۔ پھر بولے: مزید نہیں بیٹھا جاتا۔ میں نے سہارا دے کر انہیں لٹا دیا۔ پتہ نہیں کتنا وقت گزر گیا تھا۔ انہوں نے مضبوطی سے میرے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔ مشکل سے اپنے ہاتھوں اور ان کی یادوں کو چھڑایا اور بھاری قدموں سے باہر نکل آیا۔ میری پرانی بستی کا ایک اور خوبصورت کردار ایک صدی کے سفر کے بعد دھیرے دھیرے ختم ہو رہا تھا۔