بدھ کے روز کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت کی اندھادھند بمباری شدید ہو کر بھاری توپ خانوں کے استعمال اور گولہ باری تک پہنچ گئی‘ آزاد کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک مسافر بس جس کا نشانہ بنی‘ جس سے دس شہری جاں بحق اور 21 شدید زخمی ہو گئے۔ تین فوجی بھی شہید ہوئے۔ مقامی انتظامی اہلکار سردار وحید نے رپورٹروں کو بتایا کہ دوطرفہ فائرنگ سے ایمبولینسوں کو جائے حادثہ پر پہنچنے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ بدھ کی گولہ باری ہندوستان کے اس دعوے کے بعد ہوئی کہ اس کے تین سپاہی پاکستانی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے‘ اور اس نے بدلہ لینے کی دھمکی دی۔ 18 ستمبر کو بھارتی آرمی بیس پر حملے کے بعد دونوں جانب سے کراس فائرنگ کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ہندوستان نے انتہا پسندوں پر اس حملے کی ذمہ داری ڈالی اور پاکستانی ریاستی ایجنسیوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔
برصغیر کی 1947ء میں تقسیم کے وقت سے پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات پہلے ہی اس خطے کے محکوم عوام پر تین جنگیں مسلط کر چکے ہیں۔ دونوں ریاستوں کی طرف سے عوام کے لیے جاری ہونے والے بیانات مبالغہ آرائی، جذباتی نعرے بازیوں، جنگی جنوں اور وطن پرستی کو ہوا دینے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ یہ اشتعال انگیزی زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکتی اور ایک تباہ کن جنگ کی طرف جا سکتی ہے۔
جھڑپوں میں اس خطرناک اضافے کے بعد بالآخر لائن آف کنٹرول پر دونوں حریف فوجی کمانڈروں کے درمیان غیرمعمولی رابطہ ہوا۔ طرفین کی جانب سے تحمل کی بات سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں اطراف کے فوجی کمانڈرز مکمل جنگ کی طرف جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس عارضی پسپائی سے ثابت ہوتا ہے کہ خطے کے بدعنوان اور مکمل نااہل حکمران طبقات نہ تو مکمل جنگ کی طرف جا سکتے ہیں اور نہ ہی جنوب ایشیائی برصغیر میں بسنے والے محروم اور برباد عوام کے لیے پائیدار امن اور خوشحالی قائم کر سکتے ہیں۔
موجودہ اشتعال انگیزی کی فوری وجہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی ابھرنے والی تحریک کو کچلنے میں بھارتی ریاست کی ناکامی ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے بیرونی دہشت گردوں کی مداخلت کے دعوے نئی بات نہیں۔ ہندوستا ن کی جانب سے یہ دعوے پچھلی سات دہائی سے چل رہے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی مداخلت کشمیر کی تحریک کو صرف کمزور کرتی ہے۔ میرے خیال میں اس طرح کی مداخلت نہ صرف بھارتی ریاست کو مزید جبر اور خونخواری کا موقع فراہم کرتی ہے بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کے اندر اور باہر کے یہ رجعتی رجحانات جدوجہد کو تقسیم کرتے ہیں اور بالآخر اسے کمزور کرکے ختم کر دیتے ہیں۔ یہ صورتحال خطے کے حکمران طبقات کے رجعتی کردار کو واضح کرتی ہے‘ جو یہاں ابھرنے والی ہر تحریک پر قدغن لگاتے ہیں‘ اور مختلف مذہبی نظریات کی حامل تنظیموں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
کشمیر میں نوجوانوں اور طلبا کی قیادت میں جاری تحریک سماجی، معاشی، قومی اور ثقافتی آزادی کی ایک حقیقی جدوجہد ہے۔ تحریک کا آغاز 1987ء میں طبقاتی بنیادوں پر ہوا اور ایجنسیوں کے مجرمانہ کردار، مسلم مخالف ہندوتوا تنظیموں آر ایس ایس اور شیو سینا کی سرگرمیوں، پاکستان اور ہندوستان کے رجعتی میڈیا کی جانب سے تحریک پر متعصبانہ پردہ ڈالنے کی وارداتوں کے باوجود یہ تحریک آج بھی کسی مذہبی تعصب کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر استوار ہے۔ حتیٰ کہ دائیں بازو کے حریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے بغاوت کے مذہبی کردار کے پروپیگنڈے کو مسترد کیا‘ اور اسے میڈیا کی جانب سے تحریک کے خلاف ایک جھوٹی مہم قرار دیا۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ یہ دونوں متحارب سرمایہ دارانہ ریاستیں کشمیر اور برصغیر کی دوسری قومیتوں اور محکوم طبقات کے لیے نوآبادیاتی آقائوں کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ بلاشبہ اس وقت کشمیر خطے کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی جدوجہد سب سے آگے ہے۔
پورے ہندوستان میں کشمیریوں پر جبر کے خلاف بہت سے احتجاج اور مہمیں چلی ہیں۔ آرٹسٹ، لکھاری، ادبی شخصیات، بائیں بازو کی جماعتیں، طلبا، مزدور تنظیموں، ترقی پسند دانشوروں اور سماج کی دوسری پرتوں نے کشمیر کی وادی میں بھارتی ریاست کی بربریت کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ان میں سب سے درخشاں تحریک جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کی طلبا یونین کی کمیونسٹ قیادت کی جانب سے چلائی گئی تحریک تھی۔ اس نے اسٹیبلشمنٹ اور مودی سرکار کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس سے متاثر ہو کر پورے ہندوستان میں حکومت کے خلاف کم از کم اٹھارہ یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں اسی طرح کے احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی چونکہ ایک مشہور و معروف ادارہ ہے اس لیے میڈیا کو مجبوراً اس تحریک کو کوریج دینا پڑی۔
ہندوستانی دانشور پنکج مشرا نے 2010ء میں لکھا تھا، ''ایک زمانہ تھا جب کشمیر کی وادی اپنے غیر معمولی حُسن کی وجہ سے مشہور تھی، آج یہ دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے خونیں اور سب سے گمنام فوجی محاصرے کی جگہ ہے۔ ہندوستان مخالف تحریک میں اب تک اسی ہزار لوگ مر چکے ہیں۔ کشمیر کا مقتل فلسطین اور تبت کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔‘‘ بھارتی ریاست، نظام اور حکومت کی وحشت کو الجزیرہ میں گولڈی اوشری کے مضمون میں واضح کیا گیا، ''قبضہ کب قبضہ نہیں کہلاتا؟ اس وقت جب اسے دنیا کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک لاگو کر رہی ہو؟ قصائی کب قصائی نہیں کہلاتا؟ اس وقت جب وہ وزیر اعظم ہو یا جب وہ ایک اتحادی ہو؟ ہم ایک ایسے وقت میں رہتے ہیں جب قومی ریاستیں کھلم کھلا جنگی جرائم کرتی ہیں اور خون کے پیاسے اکثریت پرستی زدہ شہری ان جرائم کے ارتکاب پر بغلیں بجاتے ہیں‘ اور مجرم بری ہوتے ہیں۔ عالمی رہنمائوں کی جانب سے جمہوریت کی رٹ دراصل ایک دھوکہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان وحشی قومی ریاستوں کے سامنے بے بس ہیں جو جمہوریت کو کچلتی ہیں اور اگر لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے تو ان کی اصلاح کرنی ہو گی‘‘۔
بیشتر کشمیری قوم پرست پارٹیاں کمزور ہوئی ہیں‘ لیکن آج بھی کشمیر میں اقتصادی مسائل اور سماجی ذلتوں سے نجات کے لیے جدوجہد جاری ہے۔ میڈیا میں نظر انداز کر دینے سے نوجوانوں میں جڑیں رکھنے والی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں۔ یہ ماضی کے تعصب سے بالاتر ہو کر کشمیر کے محنت کشوں کی اس تنظیم نے سب سے پہلے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی نوجوان تحریک کی حمایت میں آواز بلند کی ۔ اس کا واضح ثبوت کلگام سے منتخب ہونے والے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے ممبر کشمیر اسمبلی یوسف تاریگامی نے ان کے ''آزادی کارواں‘‘ میں بھرپور اظہارِ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اگر ہندوستان کی وحشی ریاست کشمیر میں جبر کر رہی تو پھر یہاں اس تحریک سے جڑت اور یکجہتی رکھنے والی بائیں بازو کی تنظیم‘ جس کی مارکسی قیادت اس جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑنے کی کاوش کر رہی، کے خلاف برہمی اور اس کی آواز دبانے کا کیا جواز بنتا ہے؟
بڑھتا ہوا جنگی جنون اور کراس فائرنگ دراصل برصغیر کی ان دو ریاستوں میںگہرے ہوتے ہوئے سماجی اور معاشی بحران کی غمازی کرتی ہے جو دونوں متحارب حکمران طبقات کو پریشان کر رہی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بوسیدہ کردار اور سماجی سیاسی نظام کی متروکیت کا عکاس ہیں‘ جو سماج کو آگے لے جانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی جدوجہد نے نہ صرف ہندوستان کے طلبا اور نوجوانوں کو امید اور مزاحمت کا نور بخشا ہے بلکہ یہاں کے طلبا اور نوجوانوں کو بھی اس امید اور مزاحمت سے منور کر گیا ہے۔