تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     27-11-2016

پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں!

یادیں باقی رہ جاتی ہیں اور پچھتاوے ۔آنے والے سیاسی موسموں کی خبر دینے والے ہمارے دوست کو شاید اس جہاں سے اپنی روانگی کی خبر بھی ہو گئی تھی‘ صبح گیا کہ شام گیا۔ اسی مہینے چار ‘ پانچ بار فون آیا‘ آواز میں نقاہت ہوتی۔ حالات حاضرہ پر ایک ڈیڑھ منٹ گفتگو اور پھر یہ خواہش‘کسی روز چلے آئو‘ بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ میں ہر بار وعدہ کر لیتا۔ ٹالنے یا اس کا دل رکھنے کے لیے نہیں‘ پوری نیک نیتی کے ساتھ کہ خود اپنے ہاں بھی یہ احساس بہت گہرا ہوتا کہ یارِ مہرباں سے ملے لمبا عرصہ ہو گیا ہے۔ لیکن کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آ جاتی۔ کسی نے کتنی اچھی بات کہی‘ مصروفیات وغیرہ کچھ نہیں ہوتیں‘ یہ دراصل ہماری ترجیحات ہوتی ہیں۔ اور جمعرات کی صبح ‘ میں یو سی پی کی ماس کمیونی کیشن کلاس میں تھا کہ سلمان کا فون آیا‘ انکل! ابّو اس دنیا میں نہیں رہے۔ تھوڑی دیر پہلے میرے سامنے‘ میری بانہوں میں دم توڑ دیا۔
ہمارا دانشور دوست ذوالقرنین‘ آئین کی کارفرمائی اور جمہوریت کی فرمانروائی اس کے سیاسی ایمانیات کا بنیادی عقیدہ تھی جس پر وہ کسی مفاہمت‘ کسی مداہنت ‘ کسی مصلحت یا مصالحت کا روادار نہ ہوتا‘ اس حوالے بحث میں اس کی جولانی طبع دیکھنے والی ہوتی۔اس نے ایوب خاں کا مارشل لاء دیکھا تھا۔1960ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں بارک اللہ خاں جیسے نڈر اور بے باک سٹوڈنٹ لیڈر کی زیر قیادت طلبہ تحریک میں وہ بھی شامل تھا۔ بارک اللہ خاں‘ اپنے دور کا جاوید ہاشمی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایسے بہادر اور جرات مند سٹوڈنٹ لیڈر کم کم ہی نکلے‘ جنہوں نے ملک کی سیاسی تاریخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تب مشرقی پاکستان(مرحوم) بھی پاکستان کا حصہ تھا اور لاہور سے اٹھنے والی بارک اللہ خاں کی آواز ڈھاکا یونیورسٹی تک سنائی دیتی ذوالقرنین راولپنڈی میں زیر تعلیم تھا۔ ملک میں پہلے مارشل لاء کی کتنی دہشت تھی اور وہ بھی راولپنڈی کے گیریژن سٹی میں۔ لیکن نوجوان خون وہاں بھی آمادۂ بغاوت رہتا۔ ایوب خاں کے خلاف1968-69ء کی تحریک جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء پر منتج ہوئی۔ دسمبر1971ء میں ملک ٹوٹ گیا۔ اب قائد اعظم کے پاکستان کی جگہ قائد عوام کا ''نیا پاکستان‘‘ تھا اور اس کی فسطائیت۔ پھر ضیاء الحق کا مارشل لاء۔ یہ جمہوریت پسند رائٹسٹوں کے لیے عجیب ذہنی کشمکش کا دور تھا۔ افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ اور اس کے خلاف افغان جہاد۔ ساری عمر فوجی اور سیاسی آمریتوں سے لڑنے والے رائٹسٹ اب کیا کریں؟ ضیاء الحق کے مارشل لاء کا تسلسل ان کے لیے پسندیدہ نہ تھا‘ لیکن افغان جہاد کی حمایت بھی ان کے خیال میں ضروری تھی۔ ان ہی دنوں ایک تقریب میں شامی صاحب اور حبیب جالب کا آمنا سامنا ہو گیا۔ جالب کا کہنا تھا‘ ضیاء الحق سے کہو‘ واپس بیرکوں میں چلا جائے۔ شامی صاحب کی تجویز تھی‘ ہم دونوں اخباری بیان جاری کرتے ہیں۔ تم روس کی کابل سے واپسی کا مطالبہ کرو‘ میں ضیاء الحق کی رخصتی کا مطالبہ کرتا ہوں۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہونے والے جمہوری نظام کی بساط اکتوبر1999ء میں پھر لپیٹ دی گئی۔ ذوالقرانین پھر جمہوریت کی وکالت کرنے لگا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد اس نے صحافت کو ذریعہ معاش بنایا تھا‘ جناب ہارون الرشید نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایڈیٹر‘ میگزین ایڈیٹر‘ چیف رپورٹر اور کالم نگار کو اخباری ادارے کے ستون قرار دیا(اس میں نیوز ایڈیٹر کو بھی شامل کر لیں) بلا شبہ یہی لوگ اخبار کا چہرہ ہوتے ہیں‘ لیکن وہ کارکن بھی تو ہوتے ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتے۔ اس''کاروبار‘‘ میں ان کی اہمیت بھی کم نہیں ہوی‘ ایک عظیم الشان عمارت کی بنیادی اینٹیں‘ ایڈیٹوریل سیکشن سے وابستہ لوگ بھی ان ہی میں آتے ہیں ذوالقرنین اپنی فعالیت کے آخری اڑھائی تین برس''نئی بات‘‘ کے ایڈیٹوریل سیکشن کے سربراہ تھے‘ اس سے پہلے شامی صاحب کے ''پاکستان‘‘ میں یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ بہت پہلے ''جسارت‘‘ کے لاہور میں بیورو چیف بھی رہے۔
دورِ طالب علمی میں جمعیت سے وابستہ رہے تھے چنانچہ عملی زندگی میں بھی جماعت اسلامی ان کی پسندیدہ رہی۔ سید منور حسن کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے۔ قاضی صاحب بھی ان کے قدر دان تھے لیکن ان کے ہاں اندھی عقیدت اور غیر مشروط وفاداری کسی کے ساتھ نہ تھی۔ جماعت کی کسی پالیسی سے اختلاف ہوتا تو کھل کر اظہار کرتے۔1993ء میں قاضی صاحب کے اسلامک فرنٹ کے تجربے سے بھی انہیں اختلاف تھا اور ان کی یہ رائے درست ثابت ہوئی کہ اس سے جماعت اسلامی اپنے پرانے ووٹروں سے بھی محروم ہو جائے گی۔
ڈیڑھ دو سال قبل پراسٹیٹ کاکینسر دریافت ہوا۔ شوکت خانم سے علاج کروایا اور اچھے بھلے ہو گئے یوں لگتا تھا‘ زندگی لوٹ آئی ہے کچھ عرصے بعد طبیعت پھر بگڑ گئی۔ اس نومبر میں شعبہ صحافت سے وابستہ کیسے کیسے دوست یکے بعد دیگرے جدائی کا صدمہ دے گئے۔ شفیق مرزا گھر سے پیدل نکلے تھے کہ سڑک پر بے ہوش پائے گئے۔ ڈاکٹروں نے بتایا‘ سر میں چوٹ آئی ہے۔ کوئی ہفتہ بھر کوما میں رہے اور پھر اگلے جہاں سدھار گئے۔''جنگ‘‘ کے ایڈیٹورل سیکشن میں تھے۔ نہایت عالم فاضل‘ یوں سمجھیں چلتی پھرتی لُغت تھی۔ جب بھی ملے ‘ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملے اور انہی دنوں اظہر جعفری‘ رخصت ہوئے۔ برسوں''ڈان‘‘ کے چیف فوٹو گرافر رہے۔ دراز قد جعفری اپنے پروفیشن میں بھی سب سے قدآور تھے۔ آمریتوں کے مختلف ادوار میں جمہوری تحریکوں کو کیمرے کی یادداشت میں محفوظ کرتے رہے۔ چند ہفتے قبل دل کا عارضہ ہوا‘ پھرگردے بھی فیل ہو گئے۔ غالب اپنے پیچھے چند تصاویر بتاں اور چند حسینوں کے خطوط چھوڑ گئے تھے۔ اظہر جعفری جمہوری تحریکوں کی نادر و نایاب تصاویر کا اثاثہ چھوڑ گئے ہیں۔رفتگاں کی لمبی فہرست ہے۔ صرف اس سال پر نظر ڈالتا ہوں تو اپنے ''ہم عمروں‘‘میں رفیق غوری یاد آتے ہیں‘ ڈاکٹر احسن اختر ناز اور ظہور بٹ بھی۔ جمعرات کی شب بے شمار غم زدگان کی موجودگی میں ذوالقرنین قبرستان میانی صاحب میں سپردِخاک ہوئے۔ وہ بہت اچھے ٹرانسلیٹر بھی تھے۔ انگریزی کو اردو کے قالب میں یوں ڈھالتے کہ اصل کا گماں ہوتا۔ چیف جسٹس مرحوم ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی''کچھ یادیں اور تاثرات‘‘ بھی ان کے ترجمے کا شاہکار تھی۔ اس میں ایک باب ڈاکٹر صاحب کے قریبی دوستوں پر بھی ہے۔ ان میں شیخ خورشید احمد بھی تھے‘ ایوب خاں کے وزیر قانون‘ جوانی ہی میں دوستوں کو داغ مفارقت دے گئے۔ اپنے پیارے دوست کو سپرد خاک کرنے کے بعد‘ قبرستان سے لوٹتے ہوئے نسیم حسن کو یاد آیا کہ وہ اپنی دلہن کو لے کر دوستوں سے رخصت ہو رہے تھے تو خورشید نے کہا تھا‘ نسیم ہماری نیک تمنائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ دوست تو بس یہیں تک آ سکتے تھے۔
نومبر اپنے ساتھ یادوں کی یلغار لاتا ہے۔ تین سال قبل نومبر کی پہلی شام تھی جب عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کرنے والی‘ مجھے چھوڑ گئی۔ فراز یاد آیا ؎
سامنے عمر پڑی ہے شبِ تنہائی کی
وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved