اگلے روز قمر رضا شہزاد اور ناز بٹ آ دھمکے۔ دھمکے کا لفظ ناز بٹ کے حوالے سے ہے کہ آپ شاعرہ ‘ پینٹر‘ ڈیزائنر اور خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ خاصی صحت مند بھی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ناز اوکاڑوی بھی ہیں۔ ہمارے دوست مسعود احمد بھی پہلے مسعود اوکاڑوی کہلاتے تھے لیکن ہمارے سمجھانے بجھانے پر یہ لاحقہ بصد مشکل ترک کیا۔ شہروں سے نسبت ہمارے ہاں پہلے بھی رائج ہے مثلاً اوکاڑہ ہی میں ہمارے ایک برخوردار آذر ہشیار پوری ہیں جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ شہر کے نمبردار بھی ہیں اور ہماری طرف سے بُلبلِ اوکاڑہ کے خطاب یافتہ بھی۔ منیر نیازی بھی ہشیار پوری تھے لیکن انہوں نے یہ لاحقہ کبھی استعمال نہیں کیا۔ اسی شہر میں کبھی حفیظ ہشیار پوری اور شاد امرتسری ہوا کرتے تھے جبکہ دہلوی، رام پوری‘ ستیا پوری اور الہ آبادی وغیرہ برصغیر میں اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
تخلص میں نام کی تکرار بھی ایک وتیرہ رہا ہے۔ ہمارے مرحوم دوست شہزاداحمد پہلے اپنے آپ کو شہزاد احمد شہزاد لکھا کرتے تھے‘حتیٰ کہ ان کا پہلا مجموعۂ کلام بھی اسی نام سے شائع ہوا۔ ذات کا لاحقہ اس کے علاوہ ہے جیسے خوبصورت شاعر افضل گوہر پہلے رائو افضل گوہر کہلایا کرتے‘ حتیٰ کہ ان کے دو تین شعری مجموعے بھی اسی نام سے شائع ہوئے۔ میں نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر آپ نے اپنے نام کے ساتھ رائو لکھنا ترک نہ کیا تو میں بھی اپنے آپ کو میاں ظفر اقبال بلکہ میاں ظفر اقبال ارائیں لکھنا شروع کردوں گا، جس پر وہ کہیں جا کر باز آئے۔ ذات کا حوالہ بھی ہمارے ہاں عام ہے مثلاً نام کے ساتھ بٹ‘ شیخ اور تارڑ لکھنا وغیرہ ... ہمارے بے حد عزیز دوست اپنا پورا نام یعنی میاں جاوید اقبال ارائیں (ایڈووکیٹ) لکھا کرتے ہیں۔ بہرحال‘ دونوں کے ساتھ خاصی گپ شپ رہی‘ میری فرمائش پر انہوں نے اپنا اپنا تازہ کلام بھی سنایا۔ ناز بٹ جب سُنا رہی تھیں تو بتایا کہ آپ کے سامنے شعر پڑھتے ہوئے میں پسینو پسینی ہو رہی ہوں؛ حالانکہ اس وقت پسینو پسینی مجھے ہونا چاہیے تھا۔ جاتے وقت ان سے پھر آنے کا وعدہ لیا‘ اس شرط کے ساتھ کہ وہ کھانے پینے کی کوئی چیز قطعاً ہمراہ نہیں لائیں گے۔ اب ان کے کلام کے کچھ نمونے اور پہلے ناز بٹ:
چھپائیں کس طرح آنکھیں چمک محبّت کی
ان آئنوں میں ہے ہر دم جھلک محبّت کی
دھڑک رہی ہے کوئی یاد سُرخ پھولوں میں
جھپک رہی ہے دلوں میں پلک محبّت کی
عجیب رنگ کسی کی نظر سے چھلکے ہیں
بدن میں پھیل رہی ہے دھنک محبّت کی
دکھائی دیتا ہے اک عکس چاند تاروں میں
سجاتا رہتا ہے راہیں فلک محبّت کی
ہر ایک شاخ پہ کھلنے لگے بہار میں پُھول
ہر ایک دل میں اُٹھی ہے کسک محبّت کی
کئی دنوں سے مجھے نازؔ ایسا لگتا ہے
قرار لے گئی جیسے لپک محبّت کی
اور اب قمر رضا شہزاد:
یہ عشق دل میں ہُوا خود مقیم ورنہ میں
بلا کو دشتِ بلا کی طرف نہیں لایا
سب اپنی اپنی طرف کھینچنے میں تھے مصروف
مجھے کوئی بھی خدا کی طرف نہیں لایا
یہ جو میں حشر بپا کرتا ہوں
اے خدا تیرا پتا کرتا ہوں
روز ہو جاتی ہے دنیا میلی
روز میں اس کو نیا کرتا ہوں
چھین لیتا ہے وہی تخت مرا
میں جسے تیغ عطا کرتا ہوں
بیٹھ جاتا ہوں سر راہگزار
آتے جاتے کو دُعا کرتا ہوں
صرف زندوں سے نہیں میرا خطاب
رفتگاں کو بھی صدا کرتا ہوں
میں فقیری کی طرح لوگوں کو
بادشاہی بھی عطا کرتا ہوں
صرف ہے ایک اجازت درکار
پھر مجھے دیکھیے کیا کرتا ہوں
زمین آسان تھی اور مختصر بھی ‘ میرے ہاتھوں میں بھی کھجلی ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا:
یہ جو مصروف رہا کرتا ہوں
خود نہیں جانتا کیا کرتا ہوں
کبھی کرتا ہوں بڑے کو چھوٹا
اور چھوٹے کو بڑا کرتا ہوں
بچ نکلتا ہوں اگر دشمن سے
اپنے پیچھے ہی چُھپا کرتا ہوں
کبھی رکھتا نہیں میں اس کا حساب
جو لیا اور دیا کرتا ہوں
دل کے پنجرے میں پھر آ جاتے ہیں
جن پرندوں کو رہا کرتا ہوں
زخم ہونے لگے اچھا جس دم
خود ہی میں اس کو ہرا کرتا ہوں
بس کیے جاتا ہوں اپنی دُھن میں
کوئی اچھا نہ برا کرتا ہوں
کوئی سُنتا نہیں لیکن ہر رات
ایک باجا سا بجا کرتا ہوں
میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں ظفرؔ
یہ بھی اک فرض ادا کرتا ہوں
آج کا مطلع
شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا، کوئی ہے بھی کہ نہیں