تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     27-11-2016

قصّہ ختم۔۔۔!

اگلے روز شفیق مرزا صاحب کی رحلت کی خبر سنی‘ جو کئی روز کوما میں رہ کر عدم کو سدھار گئے۔ لوگ انہیں صحافتی دانشور، صوفی منش انسان‘ خالص اور جینوئن اہل علم کی حیثیت سے یاد کر رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ وہ قادیانی گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن اُن کے دل کو اللہ نے ایمان کی روشنی سے منور کر دیا اور وہ ختم نبوت پر ایمان لا کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ یہ اُن کی زندگی کا بہت بڑا مرحلہ تھا‘ بہت بڑا سنگ میل تھا۔ انہوں نے قادیانیت کے حوالے سے ایک کتاب ''شہر سدّوم‘‘ بھی لکھی۔ ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہوئے مجھے اُن کے حوالے سے ان تمام باتوں کی خبر نہ ہوئی مگر ایک روز میری ایک جاننے والی خاتون سے جو غالباً قادیانی تھیں‘ مجھ سے پوچھا کہ میں ''شہر سدّوم‘‘ کے مصنف سے ملنے کے لیے آنا چاہتی ہوں‘ سنا ہے شفیق مرزا صاحب آپ ہی کے دفتر میں ہوتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ اچھا میں مرزا صاحب سے وقت لے لوں تو آپ آ جائیے گا۔ اگلے روز میں نے شفیق مرزا سے ''شہر سدّوم‘‘ کی بابت پوچھا تو اُن کے سرخ و سفید خوبصورت چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور بولے، آپ کو کیسے پتا چلا ؟ میں نے اس خاتون کے بارے میں بتایا کہ وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں اور شاید کچھ روشنی کی طلب گار ہیں۔ 
مرزا صاحب بہت ہی کم آمیز انسان تھے مگر انہوں نے فوراً اگلے روز کا وقت دے دیا۔ وہ خاتون اگلے روز آئیں اور مرزا صاحب سے تفصیلی ملاقات کی۔ وہ کتاب کی طلب گار تھیں مگر پتا چلا کہ کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے اور مرزا صاحب کے پاس بھی شاید اس کی ایک ہی کاپی رہ گئی تھی۔ مرزا صاحب کا یہ حوالہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ ہارون الرشید صاحب نے کل اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا۔
شفیق مرزا جس اخبار کے شعبہ ادارت سے وابستہ تھے‘ وہاں کے نامور کالم نگار انہیں یاد کرتے ہوئے اس بات کا ماتم کر رہے ہیں کہ وہ شخص جو علم و دانش کی ایک اعلیٰ علامت تھا‘ سڑک کنارے رکشے کے انتظار میں تھے کہ موٹر سائیکل کی ٹکر لگنے سے گرا اور پھر کبھی اُٹھ نہ سکا۔ اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اُن کے مالی حالات کیا تھے اور وہ جس بڑے میڈیا گروپ سے برسوں سے وابستہ رہے، وہاں اہل علم و دانش کی کتنی قدر کی جاتی ہے۔ وہ عربی‘ فارسی‘ اردو اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ ایسے اہل علم اب صحافتی میدان میں نایاب نہیں تو ان کی قلت ضرور ہے۔ اب تو صحافت اینکر پرسنز اور میڈیا پرسنز کے نرغے میں ہے۔ علم‘ سوچ اور فکر کے دروازے میڈیا پر کب کے بند ہو چکے۔ ایسے میں شفیق مرزا اپنے تمام تر علم‘ صحافتی دانش اور ذاتی شرافت و نجابت کے ساتھ ایک اجنبی تھے ؎
بولتے شہر میں اک چُپ کی طرح گہرے گہرے
اب کہاں شہر میں وہ لوگ جو ہم جیسے ہیں
میں نے کالم لکھنے کا آغاز کیا تو میری تمام تحریریں شفیق مرزا صاحب کی نظر ثانی سے گزر کر چھپتیں۔ انہوں نے سراہا بھی اور سکھایا بھی۔ وہ اعلیٰ انسان تھے۔ ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے۔ دھیمے مزاج کے‘ ہر وقت مسکرانے والے‘ لوگوں کو معاف کرنے والے۔ نیوز روم کے پاس دفتر کی ایک راہداری میں ان کا چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اردگرد شور شرابے والا ماحول تھا‘ اس کا حل وہ یہ نکالتے کہ جب اداریہ لکھنے بیٹھتے تو شیشے کے دروازے پر اخبار چپکا دیتے تاکہ آنے جانے والے ان کے ذہنی ارتکاز کو متاثر نہ کریں۔ وہ اس ماحول میں بھی بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ کام کرنا جانتے تھے۔ اُن کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ وہ دوسروں کو بھی سکون منتقل کرتے رہتے۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار کی دیگر ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کبھی کالم لکھنے اور مقررہ وقت پر کمپوزنگ کے لیے دینے میں مجھ سے تاخیر ہو جاتی۔ ایسے میں شفیق مرزا صاحب اپنے شفیق لہجے میں کہتے، کوئی بات نہیں، آپ آرام سے لکھ لیں، کمپوز ہو جائے گا۔ میرے پاس اُن کی ایک تحریر موجود ہے جو انہوں نے میری شاعری کے حوالے سے لکھی۔ شاعری کی کتاب چھپوانے کے لیے وہ ہمیشہ مجھے تحریک دیتے۔ میری شاعری پر اُن کی رائے میرے لیے آج بھی اعزاز کا درجہ رکھتی ہے۔ پھر جب دنیا میں میرے کالم چھپنے لگے تو وہ کبھی کبھار میسج کر کے کسی کالم کی تعریف کر دیتے۔ جواب میں مَیں انہیں شکریے کی کال ضرور کرتی۔
افسوس کہ مرزا صاحب جیسے انمول لوگ زندگی میں بے وقعت رہتے اور موت کے بعد سراہے جاتے ہیں۔ اُن کے اخبار سے وابستہ بڑے عہدوں پر فائز لوگ ان کی زندگی میں خاموش رہے مگر آج اپنی تحریروں میں ان کی بے قدری کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ مرزا صاحب تو دنیا سے چلے گئے‘ الحمد للہ وہ حُسنِ عمل کا توشہ ہمراہ لے گئے ہیں۔ انہوں نے اندھیرے سے اجالے تک کا سفر طے کیا۔ اُن کا دل عشق رسولﷺ سے روشن تھا۔ انہیں اب ہماری ان تحریروں کی کیا ضرورت!
یقین کریں، آج بھی اخباری صحافت میں ایسے پڑھے لکھے خاموش طبع اہل علم موجود ہیں جن کی وجہ سے پریس میڈیا کا بھرم قائم ہے۔ زبان اور مواد دونوں لحاظ سے صحافتی دانش سے مالا مال یہ لوگ قلیل معاوضے پر قانع رہتے ہیں۔ وہ اپنی معاشی مشکلات کے باوجود خاموشی سے کام کر رہے ہیں۔ جب سے صحافت پر الیکٹرانک میڈیا کی یلغار ہوئی ہے‘ زبان و بیان کا کوئی معیار ہی نہیں رہا۔ گلیمرس صحافت کا حصہ بننے والے اینکرز غلط سلط زبان بول کر بھاری بھرکم تنخواہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب مرزا شفیق جیسے اعلیٰ صحافتی دانشور سڑک کنارے رکشے کے انتظار میں کھڑے تیزرفتار موٹر سائیکل کی ٹکر لگنے سے جاں بحق ہو جاتے ہیں...قصّہ ختم!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved