تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-11-2016

عادت

افتاد طبع نہ بدلے تو تقدیر نہیں بدلتی۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے ‘مگر عادت آسانی سے نہیں۔
میاں محمد نوازشریف سے غلطی سرزد ہوگئی۔ انشاء اللہ کوئی نقصان ملک کو نہیں پہنچے گا۔ وہ خود بھی مامون رہ سکتے ہیں‘ ماضی کی غلطیوں کا اگر اعادہ نہ کریں۔کیا یہ ممکن ہے؟
ماتحت کی حیثیت سے‘ ایک آدمی برتر کے بارے میں جو رویّہ اختیار کرتا ہے‘ زیادہ اختیار پا لینے پر‘ اسی کی اُمید ماتحتوں سے رکھتا ہے۔ جو بات ان کی سمجھ میں نہ آ سکی وہ یہ ہے کہ پاک فوج کا سربراہ ہر اعتبار سے وزیراعظم کا ماتحت نہیں ہوتا۔ وہ ایک سرکاری عہدیدار ہے اور منتخب وزیراعظم کے احکامات کا پابند۔ فرق یہ ہے کہ وہ پنجاب پولیس کا انسپکٹر جنرل یا نیب کا سربراہ نہیں۔ اپنا عہدہ وہ کماتا ہے‘ تیس پینتیس برس کی ریاضت سے۔ 
افسروں کا انتخاب وزیراعظم اپنی پسند ناپسند سے کرتے ہیں۔ اشارہ ٔ ابرو کوئی حرکت میں نہ آئے تو عتاب کا شکار ہو گا۔ ان کی ذاتی ترجیحات کے مطابق کاروبار حکومت چلانے والا عنایات کا مستحق۔چیف آف آرمی سٹاف مگر چیف جسٹس کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نظام کے تحت وہ ابھرتا اور اپنے مقام تک پہنچتا ہے۔ وزیراعظم کو یہ حق ضرور ہے کہ کسی ایک جنرل کو وہ چن سکتے ہیں‘ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک تو وہ پیہم جدوجہد سے پہنچتا ہے۔ ہر قدم پر چھلنی سے وہ گزرتا ہے۔ کٹھالی میں ڈالا جاتاہے‘ ہر بار اپنا استحقاق اسے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ صلاحیت بڑھانی پڑتی ہے۔ 
پاک فوج ایک جدید ادارہ ہے۔ یہ دوسرے محکموں کی مانند نہیں۔ فوجی افسر انہی دیہات‘ قصبات اور شہروں سے آتے ہیں‘ جہاں سے سیاست دان اور بیورو کریٹ ۔غلطیاں وہ بھی کرتے ہیں جو بااختیار ہیں‘ کبھی کبھی پہاڑ جیسی حماقتوں کا ارتکاب بھی انہوں نے کیا ہے۔ وہ مگر ایک مختلف ماحول میں جیتے ہیں۔ ان کی تربیت مختلف ہو تی ہے۔ یہ باوردی لوگ شاذ ہی کسل مندی‘ لاابالی پن اورغیر ذمہ داری کا ارتکاب کر تے ہیں۔ پکڑے جائیں تو سزا سے کم ہی بچ پاتے ہیں۔ تلوار ہمیشہ سر پہ لٹکتی رہتی ہے کہ اِدھر پائوں پھسلا‘ اُدھر ترقی کے امکان سے وہ محروم ہوئے۔
ایک کور کمانڈر نے ایک بار مجھ سے کہا : ایک کپتان کا تبادلہ بھی‘ وجہ بتائے بغیر وہ نہیں کر سکتا۔ سول سروس اور پولیس کا حال کیا ہے؟ 2013ء کے موسم گرما میں‘ دوسری بار منتخب ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں‘ خیرپور میں‘ تین ماہ کی مدت میں نو ایس پی تبدیل ہوئے۔ مقامی ایم پی اے‘ ایم این اے‘ حکمران پارٹی کے کسی لیڈر کی خاطر۔ گوجر خاں کا ایم پی اے شوکت بھٹی ''نیک نام‘‘ آدمی ہے۔ درجن بھر مقدمات اس کے خلاف قائم ہیں۔ جعلی ڈگری پر سپریم کورٹ نے اس کی رکنیت معطل کر رکھی ہے۔ حنیف عباسی کی طرح‘ وزیراعظم کا وہ لاڈلا ہے۔ اس چھوٹے سے خوشحال شہر کے ڈی ایس پی سے‘ وہ یہ اُمید رکھتا ہے کہ ایک ڈرائیور اور سیکرٹری کی طرح اس کے احکامات کی وہ پابندی کرے۔ اپنے حامیوں کو اس نے کہا تھا: اس علاقے کا وزیراعلیٰ میں ہوں۔ جعلی ڈگری کے باوجود، وہ محفوظ ہے، معطل ہونے کے باوجود، ایک عام رکن اسمبلی سے کہیں زیادہ طاقتور ‘ حنیف عباسی کی طرح۔
اس طرح کے تماشے فوج میں نہیں ہوسکتے۔ طاقت گمراہ کرتی ہے اور فوجی افسر کم طاقتور نہیں ہوتے۔ انہیں مگر پوچھ گچھ کا اندیشہ رہتا ہے۔ پوچھ کچھ بھی ایسی کہ ٹال مٹول سے کام لیا نہیں جا سکتا۔ پچھلے برس جنرل راحیل شریف نے تین جنرلوں کے خلاف کارروائی کی۔ ان میں سے ایک ایف سی بلوچستان کے سربراہ تھے، جو صوبے کے سب سے طاقتور لوگوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ ایف سی کے لوگ بگڑتے جا رہے تھے۔ ایک کے بعد دوسرے سربراہ کے بارے میں شکایات ملتیں۔ جنرل شیرافگن کے تقرر اور ان صاحب کی باز پرس کے بعد‘ صورتِ حال بہترہوئی؛اگرچہ فوجی افسر اس معاشرے میں سے اٹھتا ہے۔ تربیت اور ماحول اسے مختلف بناتا ہے۔ عزت نفس کا احساس اس میں اجاگر کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تکریم اہل کردار کے لیے ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ حب وطن بجائے خود ایک اہم اخلاقی قدر ہے۔ یہی بات کیا سیاسی جماعتوں کے بارے میں، افسر شاہی سے متعلق کہی جا سکتی ہے؟ فوجی افسر اس شخص کی عزت نہیں کرتا، اصولوں اور ضابطوں کی جو پروانہ کرتا ہو۔
وزیراعظم بن جانے کے بعد میاں صاحب کی ہمیشہ یہ آرزو رہی کہ دوسرے سرکاری افسروں کی طرح افواج کے سربراہ ان کے احکامات بجا لائیں۔ اس کے لیے طریق بھی انہوں نے وہی اختیار کیا۔ نفسیاتی دبائو اور عنایات کے اشارے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ سے صدر غلام اسحاق خان نے وزیراعظم کو نجات دلائی۔ تین ماہ پہلے ہی نئے چیف کا اعلان کردیا۔پھر وہ جنرل آصف نواز جنجوعہ سے الجھ گئے۔ اب غلام اسحاق خان نے ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ کیوں وہ کرتے جب کہ شہباز شریف انہیں ''پٹواری‘‘ کہا کرتے۔ ڈیڑھ عشرے تک ملک کے ایٹمی پروگرام کی نگہبانی کرنے والا کیا پٹواری تھا؟ وہ آدمی کہ ملک کے ممتاز سائنس دان، باپ کی طرح جس کی عزت کیا کرتے۔ میاں محمد شریف مرحوم نے ایک بار یہی بات غلام اسحاق خان سے کہی تھی: یہ دونوں بھائی، میاں محمد نواز اور شہباز شریف، آپ کے فرزند وںکی مانند ہیں۔فرزندانِ گرامی بھی کیا اسی انداز میں سوچتے تھے؟
اسلم بیگ تو خیر، آصف نواز جنجوعہ کو بھی غلط مان لیجیے۔ یکے بعددیگرے کیا وہ سب کے سب ہی خطا کار تھے؟
جنرل راحیل شریف کو تو وہ بہت چائو سے لے کر آئے تھے۔ دونوں خاندانوں کے مراسم چلے آتے تھے۔ جنرل راحیل نے ان مراسم کی کچھ قیمت بھی ادا کی تھی۔ مزاجاً وہ ایسے آدمی ہیںکہ شخصی تصادم سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، ایک دن وہ وزیراعظم کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ اس لیے کہ عسکری قیادت اور ایک میڈیا گروپ کے تنازعے میں جو بھارت، برطانیہ اور امریکہ کی طرف جھکائو رکھتا ہے، وزیراعظم نے اپنا وزن ایک پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
اب بھی ان کا وزن اسی پلڑے میں ہے۔ بینکوں سے تین ارب روپے کے قرضے وہ اس گروپ کو دلوا چکے اور مزید ایک ارب کے لیے، ایوان وزیراعظم کا اصرارجاری ہے۔ انگریزی اخبار میں پاک فوج کے خلاف خبر شائع کرنے والوں سے بھی وزیراعظم کو ہمدردی ہے۔ اپنے ان ساتھیوں سے بھی جو اخبار سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ خارجہ پالیسی میں میاں صاحب کی ترجیحات، پاکستان کے دفاع کو زک پہنچانے والی ہیں۔
ایک بار پھر وزیراعظم کو موقع ملا ہے کہ مثالی سول عسکری تعلقات کی بنیاد رکھیں۔ ان کے مزاج اور افتاد طبع کو ملحوظ رکھا جائے تو امید کچھ زیادہ نہیں۔سپہ سالار سے پہلی باقاعدہ ملاقات میں، وہ خوب مسکرائے۔ نیا چیف مگر محتاط ہی رہا۔
بری فوج کا نیا سربراہ، بنیادی طور پر ایک حکمت کار ہے، ایک Strategist۔ اسی لئے دسویں کور کی قیادت اسے دی گئی تھی۔ بھارت کے بارے میں میاں صاحب کا رویہ بہت نرم ہے۔ باقی مسائل بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں وفاقی حکومت نے فوج کی کوئی مدد نہیں کی۔ اتنی بھی نہیں، جو آسانی سے کرسکتی تھی۔ آئندہ بھی کوئی خاص امید نہیں۔ بہت محدود پیمانے پر ہی سہی ‘برسوں تک‘ جنرل باجوہ بھارت سے جنگ لڑتے رہے۔ اب تو بھارت والے جارحیت ہی نہیں‘ بدتمیزی پربھی تلے ہیں۔ کیا ایسے وزیراعظم کے لیے عساکر کے دل میں احترام کے جذبات جنم لیں گے، یک طرفہ پسپائی سے جو امن کا آرزو مند ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے بہلانے پر ، جس کی اولاد اور اثاثے ملک سے باہر ہیں۔
میری معلومات کے مطابق وزیراعظم نے جنرل کو اس لیے منتخب کیا کہ وہ سرتاپا ایک خوش اخلاق آدمی ہے۔ بالکل بجا۔ خوش اخلاقی کا مطلب مگر یہ کیسے ہوا کہ وہ کمزورآدمی بھی ہے۔
افتاد طبع نہ بدلے تو تقدیر نہیں بدلتی۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے ‘مگر عادت آسانی سے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved