تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     28-11-2016

سری لنکا میں بہتر امکانات کا تناسب

سری لنکا میں سات ماہ بعد واپسی ہوئی ، جس ساحل کے قریب میں رہتا ہوں، وہاں کچھ بھی نہیں تبدیل ہوا ہے۔ ایک ہوٹل چین نے قریب ہی کچھ پراپرٹی خریدی ہے لیکن ہمارے گھر سے ایک میل تک پھیلا ہوا ریتلا ساحل اتنا ہی پرسکون اور خوبصورت ہے جتنا کبھی تھا۔ اس سکون کو صرف سمندر کی جھاگ اُڑاتی لہریں ہی گاہے گاہے برہم کرتی ہیں۔ لیکن ماحول کا پرسکون سکوت ایک طرف، میں نے جس شخص سے بھی بات کی وہ پریشان دکھائی دیا۔ 2014 ء کے صدارتی انتخابات کے بعد تبدیلی کا جوش سرد پڑ چکا۔ یادہے کہ انتخابات کی اگلی صبح جب ہم نیند سے بیدار ہوئے تھے تو فضا میں آتش بازی کے بکھرتے رنگ اور ڈرموں کی دھمک متھری پالا سری سینا کی فتح کا اعلان کررہی تھی۔ مسٹر سری سینا نے سابق حکمران مہندا راجاپاکسے کو شکست سے دوچار کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ 
سابق دور کو اگر اقربا پروری کی حکومت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاکیونکہ راجا پاکسے کے چار بھائی اور ایک بیٹا اہم سیاسی عہدوں پر فائز تھے ، اور ان سب پر بدعنوانی کے سنگین الزامات تھے۔ چنانچہ انتخابات میں انہیں ہونے والی شکست کے بعد سری لنکا کے عوام نے سکون کا سانس لیا۔ دوسری طرف سری سینا راجا پاکسے کی نسبت بالکل مختلف، نرم مزاج ، دھیمے لہجے میں بات کرنے والے اور ذاتی طور پر صاف ستھرے کردار کے مالک تھے۔ مہند راجا پاکسے بڑی حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح منہ پھٹ اور بے لحاظ تھے ۔ وزیر ِاعظم رانیل وکرم سنگھے کئی عشروں سے سیاست میں فعال ہیں ، اور وہ یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں جو سری سینا کی فریڈیم پارٹی کے ساتھ شراکت ِ اقتدار رکھتی ہے ۔ یہ دونوں جماعتیں باری باری سری لنکا کی آزادی کے وقت سے اب تک باری باری حکومت کرچکی ہیں، لیکن آج کل دونوں کے درمیان شراکت ِ اقتدار پائی جاتی ہے ۔ اس طرح انہیںکسی اپوزیشن کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے ۔ ''The SLFP‘‘کے دوحصے ہوچکے ہیں ۔ ایک دھڑا حکومت میں شریک ہے جبکہ دوسرے دھڑے کی قیادت سابق صدر کررہے ہیں۔ حکومت سے ناراض بہت سے ارکان ان کے گرد جمع ہوچکے ہیں۔ 
اب جبکہ حکمران کولیشن کی بے اطمینانی میں اضافہ دکھائی دیتا ہے ، یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ اگلے انتخابات کے لیے راجا پاکسے نئی سیاسی جماعت تشکیل دے رہے ہیں۔ تاہم سری لنکن آئین تیسری مدت کے لیے صدربننے کی اجازت نہیں دیتا ، اس لیے اب راجا پاکسے اب وزیر ِ اعظم اور اُن کے ایک بھائی صدارتی عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے ۔ درحقیقت راجا پاکسے نے اپنے دور میں تیسری مدت کے لیے صدر بننے پر پابندی کے آئین میں ترمیم کردی تھی لیکن موجودہ حکومت نے وہ ترمیم معطل کرتے ہوئے پابندی بحال کر دی۔ اس کے علاوہ حکومت گزشتہ دوسال کے دوران کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اس وقت عوام حکومت سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ قیمتوں میں اضافے اور سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان نمایاں ، جبکہ ڈالر کے مقابلے میں سری لنکا کی کرنسی 128 روپے سے کم ہوکر 150 تک آ چکی ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ راجا پاکسے کم از کم سڑکیں تو تعمیر کررہے تھے ، یہ حکومت تو کچھ بھی نہیں کررہی ۔ 
میرے بینک مینیجرکا خیال ہے کہ سری لنکن معیشت کے سامنے فی الحال کوئی روشن مستقبل نہیں ۔ اس کے نزدیک سری لنکن روپے پر دبائو کی وجہ وہ قرضے ہیں جو راجا پاکسے حکومت نے اپنے تعمیراتی منصوبوںکے لیے حاصل کیے تھے ۔ ان میں سے کئی ایک منصوبے محض سفید ہاتھی ثابت ہوئے ۔راجا پاکسے کے انتخابی حلقے، ہمبن توتا(Hambantota)میں ایک بندرگاہ اور ائیرپورٹ چینیوں نے تعمیر کیے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ اب چینی ہی اُنہیں خرید یا لیز پر حاصل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں چینی سفارت کارنے ایک پریس کانفرنس میں غیر سفارتی لب ولہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا سری لنکن فنانس منسٹر پر تنقید کی کیونکہ فنانس منسٹر نے چین پر بے کار منصوبوں کے لیے مہنگے داموں قرض دینے کا الزام لگایا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انہی وزیر صاحب نے چین سے مزید قرضہ بھی مانگ لیا تاکہ سابق قرضوں کی قسط ادا کر سکیں۔ 
اس دوران سابق حکمران خاندان کی بدعنوانی کی تحقیقات کا تاحال کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے ۔ درحقیقت انتخابات کے دوران سری سینا اور وکرم سنگھے نے راجا پاکسے کے خلاف سب سے پرزور یہی موقف اختیار کیاتھا ۔ اُنھوںنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ حکمران خاندان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے ۔ ان کے خلاف درجنوں کہانیاں سامنے آئیں لیکن دوسال گزرنے کے باوجود سری لنکن حکام کو ئی پیش رفت نہیں کرسکے ۔ راجاپاکسے کی حمایت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ لوگوں کی بڑھتی ہوئی حمایت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر راجا پاکسے اور ان کے بھائیوں کو 2019ء تک نااہل نہ قرار دے دیا گیا تو وہ ایک مرتبہ پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وکرم سنگھے نے راجاپاکسے خاندان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا کہ اگروہ انتقال ِ اقتدار میں رکاوٹ نہ ڈالیں تو اُن کے خلاف مقدمات آگے نہیں بڑھیں گے ۔ 
شاید حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے تامل آبادی کو شمال اور شمال مشرق میں مرکزی سماجی دھارے میں لانے کی کوشش نہیں کی ۔ یہ اقلیت طویل خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہے۔ جافنا اور اس کے گردونواح میں بڑی تعداد میں فوجی دستے تعینات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دستے کاروبار پر اپنی اجارہ داری رکھتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ بدھ راہبوں کی تبلیغ کی وجہ سے سنہالی قوم پرست اقلیتوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ایک اہم خلیجی ریاست کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سری لنکا میں مخصوص مسلک کو فنڈز بھیج رہی ہے ۔ گزشتہ کئی برسوںسے یہاں کے مقامی مسلمان عربی لباس میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں جبکہ خواتین خود کو مکمل طور پر ڈھانپا شروع ہوگئی ہیں۔ مذہبی شناخت کو نمایاں کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان سنہالی قوم پرستوںکو پریشان کررہا ہے ۔حالیہ دنوں ایک اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں مقیم مسلمان خاندان کمسن لڑکیوں کی شادی پر اصرار کرتے ہیں۔ بہت سے کیسز میں ان لڑکیوں کے شوہر معمر افراد ہوتے ہیں۔ اس طرح سری لنکن معاشرے میں خانہ جنگی کے بعد ایک طرف بنیاد پرستی تو دوسری قوم پرستی کے جذبات ابھررہے ہیں۔ یہ اس خوبصورت ملک کے لیے بری خبر ہے ۔ 
اچھی خبر یہ ہے کہ تمام ترناکامیوں کے باوجوداقتدار بہرحال ایسے شریف افراد کے پاس ہے جو اپنے پیش رو کے برعکس جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ رات کے وقت ایسی سفید گاڑیاں دکھائی نہیں دیتیں جن میں صحافیوں کو اٹھا لیا جاتا تھا اور نہ ہی اپوزیشن ممبران کا تعاقب کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ سری لنکا میں گلاس نصف بھرا ہوا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved