ہمارے کرم فرما مختلف مزاج کے حامل ہیں ۔بعض کہتے ہیں کہ سیاست پر لکھنے والے بہت ہیں ،بلکہ بد ہضمی ہورہی ہے ،جب کہ لکھنے والے اس یقین کے ساتھ لکھتے ہیں کہ سارے انقلاباتِ عالَم ان کی نوکِ قلم کے مرہونِ مَنّت ہیں یا ان کے جوہر دانش سے کشید کیے جاتے ہیں، وہ رکیں تو کائنات کی نبض رک جائے۔ اس کے برعکس بعض دیگر کرم فرمائوں کا اصرار ہے کہ سیاست پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھا کریں تاکہ متبادل بیانیہ بھی سامنے آتا رہے ۔اسی سبب سے گزشتہ چند کالم عام روش سے ہٹ کر لکھے ، کچھ اَسفار کا بیان ہوگیا۔ آج منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے چند متفرقات پر گفتگو کرتے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخاب:26اکتوبر تا12نومبر بیرون ملک سفر پر رہا۔اس دوران امریکی صدارتی انتخاب کی مہم عروج پر تھی، اس لیے احباب کی محفل میں یہ موضوع ناگزیر طور پر زیر بحث آجاتا تھا ۔میں انہیں کہتا کہ آزادیِ نسواں اور مرد وزَن کی مساوات کے تمام تر دعووں کے باوجود اہل امریکہ نے اپنی دو سو چالیس سالہ تاریخ میں ایک بار بھی عورت کو صدر منتخب کرنے کا تجربہ نہیں کیایا یوں کہیے کہ خطرہ مول نہیں لیا۔ سو میری چھٹی حِس کہتی ہے کہ وہ اس بار بھی یہ روایت نہیںتوڑیں گے ،کیونکہ امریکی صدر کو عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور تاحال اس کی تمام تر داخلی کمزوریوں ، بین الاقوامی توازنِ تجارت میں منفی اشاریوں(Indicators) کے باوجود کوئی بڑا چیلنج اس کے سامنے نہیں ہے ۔یورپ ،جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور وغیرہ اس سے بغاوت پر آمادہ نہیں ہیں۔ روس ولادیمیر پیوٹن کے زیرِ قیادت عالمی سیاست میں اپنا ماضی کا سوویت یونین والا مقام حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے ،لیکن معاشی عدمِ استحکام و کرپشن کے سبب اور اعلیٰ معیار کی سپر ٹیکنالوجی کے بغیر اس منزل کا حصول اتنا آسان نہیں ہے ۔شاید اس کے لیے اسے ایک عرصے تک انتظار کرنا پڑے گا، سوائے اس کے کہ امریکاخود اپنے داخلی اسباب کی وجہ سے افتراق وانتشار اور ضُعف واِضمحلال سے دوچار ہوجائے۔
چین کے لیے بھی دو رکاوٹیں ہیں، ایک جدید ترین حساس اور سپر ٹیکنالوجی میں امریکہ کا ہمسر نہ ہونا اور دوسری یہ کہ اس کی معیشت کا انحصار امریکہ اور اہلِ مغرب پر ہے ،کیونکہ مغرب کی مارکیٹیں اور ویرہائوسز اس کے سامانِ ضرورت ، آسائش اور تعیش سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکہ بھارت کے ذریعے اس کے لیے تحدید وتوازن کا سامان کر رہا ہے اور بحر چین پر اس کی اجارہ داری کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کر رہا ہے۔ دوسری جانب بحیرۂ عرب کی بالادست فوجی قوت بننے میں وہ بھارت کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے ،جو ہمارے لیے الارمنگ ہے ۔ افغانستان، ایران اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے ہمارے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں اور دنیا کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہماری داخلہ وخارجہ پالیسی کی سَمت اور ترجیحات کون طے کر رہا ہے۔ 2008ء سے سیاسی حکومتیں نظامِ اختیارات میں سمٹی اور سہمی ہوئی چل رہی ہیں ،ایک افتاد ختم نہیں ہوتی کہ کوئی نئی افتاد اُن کے استقبال کے لیے تیارہوتی ہے ۔پھر ہمارا ''مُحِبِّ وطن‘‘ میڈیا ایسا سماں باندھتا ہے گویا آج گئے کہ کل گئے۔اس پر مستزاد پسِ پردہ کارفرماکاہنوں کی جانب سے اُن پر غیبی خبروں کا نزول ہوتا رہتا ہے اور ان کا کام کمالِ اعتماد کے ساتھ نیا نازل شدہ ہینڈ آئوٹ سنانا ہوتا ہے۔
صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بظاہر غیر سنجیدہ بن کر سفید فام اکثریت کے ذہنوں میں مستقبل قریب یا بعید میں اقلیت میں تبدیل ہونے کا نفسیاتی خوف پیدا کیا، وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ تارکینِ وطن اور اسپینش لوگ،جنہیں میکسیکن بھی کہتے ہیں، ان کے روزگار پر قابض ہورہے ہیں، الغرض اس خوف کوبڑھا چڑھاکر انہوں نے اپنے مفاد میں استعمال کیا۔وہ اس حکمت عملی میں کامیاب رہے اورعوامی مقبولیت میں ہیلیری کلنٹن کی لاکھوں ووٹوںکی برتری کے باوجود وہ الیکٹرول ووٹ کے بل پرواضح اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ لوگوں کو خدشات تو یقینا بہت ہیں اور خود امریکہ میں عوامی مظاہرے اس کا واضح ثبوت ہیں ، لیکن غالب امکان یہ ہے کہ کانگریس اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ انہیں مل کر چلنا ہوگا اور مکمل نہیں تو مناسب حد تک انہیں توازن قائم رکھنا پڑے گا۔وہ یقینا اپنے انتخابی منشور پر بھی کسی حد تک عمل کرنے کی کوشش کریں گے، مگر شاید اس حد تک نہیں کہ امریکی معاشرہ ایک بڑی شکست وریخت سے دوچارہوجائے۔
''ماورائے بحر الکاہل شراکت داری(TPP)‘‘کو انہوں نے اپنی صدارت کے پہلے دن ہی ختم کرنے کا اعلان کردیاہے، یعنی ''امریکی مفاد سب پر مقدم ‘‘اصل الاصول قرار پائے گااور اِسی بناپر انہوں نے ماحول کی آلودگی کے بارے میںعالمی کوششوں کا ساتھ دینے کی بجائے کوئلے اورسستے ایندھن سے بجلی گھر اور صنعتیں لگانے کا اعلان کیا ہے، الغرض ٹرمپ اپنے قومی مفاد کی قیمت پربقیہ دنیا کاروگ پالنے کے روادار نہیں ہیں۔اس سے پہلے صدر اوباما اپنے ایک ''اسٹیٹ آف دا یونین ایڈریس‘‘میں کہہ چکے تھے :''ہمیں صنعت کو واپس لانا ہوگا‘‘، لیکن وہ بے اثر ہونے کے سبب اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ کافی عرصے بعد ریپبلکن پارٹی کو کانگریس کے دونوں ایوانوں اور وائٹ ہائوس پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا ہے ،سو اب ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور بہرحال انہیں کچھ کر کے دکھانا ہوگا۔ بارک اوباما ایک ناکام صدر ثابت ہوئے ،کمزور طبقات کو وہ اپنے وعدوں کے باوجود مناسب ریلیف نہ دے سکے اورتارکینِ وطن کو قانونی حیثیت دینے کا وعدہ بھی پورا نہ کرپائے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ کانگریس پر ریپبلکن پارٹی کا غلبہ تھا اور انہوں نے ان کے ہاتھ پائوں باندھے رکھے یا شاید ایک سیاہ فام صدر کو انہوں نے دل سے قبول نہ کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی میں ارتعاش:پاکستان پیپلز پارٹی نے سنٹرل پنجاب میں قیادت تبدیل کردی ہے اور عربی زبان کے قمر اور پنجابی زبان کے چن کا حسین امتزاج ہوگیا ہے ۔یہ دونوں حضرات ہمارے سیاسی اثاثے میں قدرے سلجھے ہوئے لوگ ہیں،دونوں متانت سے بات کرتے ہیں اور لب ولہجہ بھی شریفانہ ہے۔اخلاق وکردار اور روایات کے اعتبار سے تنزّل کے اس دور میں بڑی سیاسی جماعتوں میں چند شُرَفَاء کا وجود بھی غنیمت ہے۔
ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہ گزشتہ کافی عرصے سے منفی نعروں پر پروان چڑھ رہی ہے ،چنانچہ بلاول بھٹو زرداری کو ستّر کی دہائی کے ڈھلتی ہوئی عمر کے انکلز چٹکلے، لطیفے بازیاں، جُگَت بازی اور اپنے سیاسی مخالفین پر طنز وتعریض کے نشتر چلانا سکھارہے ہیں۔ سیاست میںجناب عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے جو طرزِ تخاطُب متعارف کرایا تھا، وہ اب خوداُن پربیک فائر ہورہا ہے۔مسائل پر مبنی سیاست ہمارا شعار نہیں بن پارہی، یعنی یہ کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے محض تخیُّلاتی نہیں بلکہ دستیاب وسائل کے اندر حقیقت پسندانہ متبادل حکمت عملی پیش کی جائے۔ پاکستان کی سیاست میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اپنا منشور متنازع ہونے کے باوجود ایک نیا ویژن لے کر آئے ،انہوں نے نئے نعرے دیئے ، عوام میں اپنے حقوق کے بارے میں آگہی پیدا کی اور ایک نیا شعور دیا، بلکہ ان کے اندر امید کی ایک نئی شمع روشن کی، ایک نئی جَوت جگائی۔پھر اس پر عمل کرتے ہوئے بعض بڑی صنعتوں، بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا ۔اس کی قیمت ملک نے صنعتی اعتبار سے ترقیِ معکوس ،تعلیمی معیار کے زوال اوراداروں کی بربادی کی صورت میں چکائی۔ مگر اب فکری تنزل کا عالم یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما تعلیم تو آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی میں حاصل کرتے ہیں ،مگر قوم کو درپیش مسائل کے لیے کوئی نئی آدرش، نیا ویژن ، نئی حقیقت پسندانہ حکمت عملی دینے کی بجائے ستر کے عشرے کے متروک نعرے دہرانے لگ جاتے ہیں ، جوموجودہ دور میں غیر متعلق اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ جو نسل 1970ء اور اس کے بعد پروان چڑھی، اس کے لیے یہ سب کچھ غیر متعلق ہے، اس لیے ہمیں قومی مسائل کے حل پر مبنی سیاسی منشور اور سنجیدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بعض اہلِ دانش کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو اپنے والد کے آسیب سے نکل آئیں، یہ خواہش خوبصورت ہونے کے باوجود حقیقت پسندانہ نہیں ہے،وہ زرداری صاحب کاواحد اثاثہ ہیں ، انہیں وہ حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ بھٹو خاندان کی تاریخ اَلَمیوں سے بھری پڑی ہے۔
صحافتی اقدار:ہم پیشہ ورانہ اقدار سے محروم صحافتی دور سے گزر رہے ہیں، بے سروپا دعوے، خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن کر فیصلے صادر کرنا ہماری صحافت کے شہسواروںکا شعار بن گیا ہے۔ کل کی بات جھوٹ بھی ثابت ہوجائے ،اگلے دن تازہ غا زہ مل کر اور بن سنور کر اس انداز سے بیٹھیں گے کہ جیسے کل کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ دھڑلے سے کہیں گے کہ فلاں بھاگ گیا ہے، اب وہ کبھی نہیں آئے گا اور اگلے دن وہ کہہ دے:''میں آگیا ہوں، تیرا کیا بنے گا کالیا‘‘،تو اس پر نہ کوئی جھینپ محسوس کرے گا ، نہ شرمساری ،نہ اعتذار ،اسی کو بے حیائی اورڈھٹائی کہتے ہیں۔ مگر ہماری موجودہ صحافت کا موٹو یہ ہے : ''اس یقین کے ساتھ جھوٹ بولو کہ مخاطب اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائے‘‘، اگرچہ اُس سچ کی حیاتِ مستعار ایک دن کی ہو۔
اس موضوع کا خیال میرے ذہن میں اس لیے آیا کہ امریکی میڈیا صدارتی انتخاب کی بابت اپنے مختلف تجزیوں اور جائزوں میں ہیلیری کلنٹن کی برتری دکھاتا رہا ،مگر حقیقی نتائج اس کے بالکل برعکس آئے۔ سو معتبر امریکی اخبار ''نیو یارک ٹائمز‘‘ نے اعتذار نامہ شائع کر کے اپنے قارئین سے معذرت کی کہ وہ صحیح جائزے پیش کرنے میں ناکام رہے اور اپنے قارئین کو انتخابی امیدواروں کی مقبولیت کی صحیح تصویر پیش نہ کرسکے ۔ہیلیری کلنٹن کی برتری کی پیش گوئیوںکے باوجودڈونلڈ ٹرمپ الیکٹرول کالج میں واضح برتری حاصل کر کے کامیاب ہوئے۔ ادارے نے کسی حیل وحجت اور تاویل کا سہارا نہیں لیا، کیونکہ اُن کے لیے سب سے مقدم اپنے اخبار کی ساکھ اور اعتبار ہے ،ہمارے ہاں ایسی روایت مفقود ہے اور ایسا شِعار موجود ہی نہیں۔ بعض ماہرین نے یہ تاویل کی ہے کہ سفید فام اکثریت نے اپنی رائے کو سروے کے دوران پوشیدہ رکھا اور دل کی بات نہیں بتائی۔ میں پہلے بھی لکھا چکا ہوں کہ یہ سوچ سفید فام اکثریت کے ذہنوں میں یورپ میں بھی موجود ہے، یہ الگ بات ہے کہ کہیں اس کا اظہار ہوجاتا ہے اور کہیں اس کی لہریں زیرِ سطح گردش کر رہی ہیں ۔امریکہ درحقیقت تارکین وطن ہی کا ملک ہے ،سفید فام لوگ خود یورپ کے مختلف ممالک سے ترک وطن کر کے بہتر مواقع کی تلاش میں امریکہ گئے ہیں۔ یہی صورت حال کینیڈا،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی ہے، اسی طرح ماریشس ہندوستانی تارکینِ وطن کا ملک ہے۔