ہمیں کچھ خرچ کیے بغیر اتنی نعمتیں میسر ہیں کہ ''گھر کی مرغی دال برابر‘‘ جان کر ہم اُن پر متوجہ ہی نہیں ہوتے۔ جب تک کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو، مفت ملنے والی سہولت کی اہمیت اور قدر و قیمت کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ اللہ نے ہمیں بالکل صحیح، سلامت ہاتھ پاؤں عطا کیے ہیں۔ جب اِن میں سے کسی میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے یا کسی حادثے میں ہڈی ٹوٹ جاتی ہے تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جو چیز مفت ملی ہے اُسے دوبارہ کارآمد بنانا کتنا مہنگا اور دقت طلب ہے۔ ایک طرف تو اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے اور دوسری طرف کئی ماہ بلکہ سال سال بھر تکلیف بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔
قدرت کے بخشے ہوئے دانت ہمارے لیے کتنی بڑی نعمت ہیں اس کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب کسی دانت میں تکلیف ہو یا بڑھاپے میں تمام دانت جھڑ جائیں اور مصنوعی بتیسی پر گزارا کرنا پڑے۔
پیٹ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمارے پورے وجود کا استحکام معدے کے استحکام سے وابستہ ہے۔ معدے کی خرابی مزاج کو بھی خرابی سے دوچار کرتی ہے۔ بہت سے لوگ محض اپنے معدے کی کجی کے باعث مزاج میں بھی کجی رکھتے ہیں۔
ہم جو کچھ کھاتے اور پیتے ہیں وہ معدے ہی کے ذریعے انہضام کے عمل سے گزر کر یعنی ہمارے جسم کو مطلوب توانائی اور فرحت بخشنے کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے یعنی فضلے میں تبدیل ہوتا ہے۔ ہاضمہ کتنی بڑی نعمت ہے یہ بات اُن سے پوچھیے جن کا ہاضمہ درست نہیں رہتا یا عمر ڈھلنے کے باعث بہتر انداز سے کام نہیں کر پاتا۔
بات معدے سے شروع ہوکر ہاضمے کی منزل تک تو آئے اور پھر حوائجِ ضروریہ سے فراغت تک نہ پہنچے، ایسا نہیں ہوسکتا۔ حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونا ہماری یومیہ اور انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ ہم روزانہ بیدار ہونے کے بعد ''فطرت کی پکار‘‘ پر ٹوائلیٹ کی طرف لپکتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والوں کے لیے معاملہ سنگین ہے نہ گمبھیر۔ یعنی بستر سے اٹھے اور کمرے کے کونے ہی میں یا کمرے کے باہر بنے ہوئے ٹوائلیٹ میں گھس گئے۔ دیہات میں معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہاں فطرت کی پکار پر آگے بڑھنا اور آنتوں میں پائی جانے والی عِلّت سے گلو خلاصی ایسا آسان نہیں۔ دیہات کے بہت سے گھروں میں ٹوائلیٹ نہیں ہوتے اس لیے کھیتوں، کھلیانوں کا خلاء پُر کرنا پڑتا ہے!
دیہی ماحول میں اگر صبح آنکھ کھلنے پر کسی کا معدہ ''شدتِ جذبات‘‘ سے مغلوب ہو جائے تو گھر سے کھیت تک کا ذرا سا فاصلہ بھی قیامت ڈھانے لگتا ہے۔ بقول اسلمؔ کولسری مرحوم ؎
یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی
لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا!
فطرت کی پکار پر ''گوشۂ عافیت‘‘ تلاش کرکے بھرپور ''دل جمعی‘‘ سے فارغ ہونا اِنسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ ٹوائلیٹ میں داخل ہوتے وقت باہر کے لوگوں کو خاموشی کی زبان میں تاکید کرتے ہیں ؎
دھڑکن سے کہو خاموش رہے، دنیا سے کہو آواز نہ دے!
اور پھر وہ دنیا و مافیہا سے یکسر بے پروا ہوکر ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں صرف اور صرف اُن کی ذات ہوتی ہے۔ فطرت کی پکار کا جواب یہ لوگ اتنے سکون سے دیتے ہیں کہ ''سماں وہ خواب سا سماں‘‘ والا گیت یاد آئے بغیر نہیں رہتا! ؎
زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے!
اور اگر ایسے میں کوئی ناہنجار ''دخل در معقولات‘‘ کا ارتکاب کر بیٹھے تو؟ جی میں آتا ہے کہ اُسے قتل کردیجیے! مگر صاحب، اِن ''نزاکتوں‘‘ کو عام آدمی کہاں سمجھتا ہے۔ اہل خانہ بھی بار بار صدا بلند کرتے رہتے ہیں ع
''نکل بھی‘‘ آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے!
فطرت کی پکار پر لوٹا تھام کر چل دینے کا معاملہ پاکستان میں بھی الجھا ہوا ہے مگر بھارت میں کچھ زیادہ الجھا ہوا ہے۔ کولکتہ، دِلّی، چنئی (مدراس) اور ممبئی جیسے کروڑوں کی آبادی والے شہروں میں یہ معاملہ غیر معمولی حد تک خون کے آنسو رُلا دینے والا ہے۔ ممبئی کا کیس یہ ہے کہ وہاں بیشتر کچی آبادیوں اور شہر کے پرانے باضابطہ علاقوں میں مکانات اتنے چھوٹے ہیں کہ لوگ گھر میں بیت الخلاء بنواسکتے ہیں نہ باتھ روم۔ وہ روز صبح ہاتھ میں لوٹا یا ڈبا تھام کر پبلک ٹوائلیٹ کے سامنے قطار بند ہوجاتے ہیں۔ اِس قطار میں کھڑے کھڑے ہی وہ دانت بھی مانجھ لیتے ہیں اور اِن میں جو ''بابو لوگ‘‘ ہوتے ہیں وہ اخبار بھی پڑھ لیتے ہیں! اور چونکہ قطار طویل ہوتی ہے اس لیے کوئی بیت الخلاء میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا ورنہ باہر ''عالمِ خلائ‘‘ میں کھڑے ہوئے لوگ شور مچانے لگتے ہیں! یہ شور کچھ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ اندر ''ہاٹ سیٹ‘‘ پر بیٹھا ہوا شخص زمانے کی بے مروّتی پر کڑھتے ہوئے سوچتا ہی رہ جاتا ہے ع
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو!
لوٹا تھام کر پبلک ٹوائلیٹ میں داخل ہونے والے کو سکون کے چند لمحات بھی مشکل سے میسّر آتے ہیں۔ پبلک ڈیمانڈ کے تحت غیر معمولی تیزی دکھانا پڑتی ہے۔ اور اِس دوران جسم و جاں پر قیامت سی گزر جاتی ہے۔ ؎
کچھ ہم ہی جانتے ہیں جتن ہم نے جو کیے
کس کس طرح سے پیٹ کا ایک ایک بَل گیا!
مجبوری کا نام شکریہ کے مصداق لوگوں کا شور و غوغا سن کر معاملات تیزی سے نمٹاتے ہوئے عوامی بیت الخلاء سے باہر آنا پڑتا ہے۔ گویا ع
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے!
مودی سرکار نے چند ایک دیرینہ مسائل پر خاطر خواہ توجہ دے کر ایک طرف تو ''باشعور‘‘ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور دوسری طرف عوام کو بھی دھندے سے لگا رکھا ہے۔ اور دھندے سے کیا، ٹرک کی بَتّی کے پیچھے لگایا ہوا ہے! ملک بھر میں جو لوگ گھر کی حدود میں ٹوائلیٹ بنوانے کے متحمل نہیں ہوسکتے وہ صبح کے اوقات میں لوٹے تھام کر گوشہ ہائے عافیت تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو لوگ کھیتوں کا رخ کرنے کے عادی ہیں مگر شہروں میں معاملہ سنگین شکل اختیار کرتا رہا ہے۔ بہت سے کھلے مقامات پر اور بالخصوصی نالوں یا ریلوے ٹریک کے نزدیک لوگ فطرت کی پکار پر یوں لبیک کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہاں سے گزرنے والوں کو اپنے آپ سے شرم آنے لگتی ہے! اور پھر صبح کے اوقات کی ''کارکردگی‘‘ سے ماحول دن بھر ''مہکتا‘‘ رہتا ہے! ''صاف ستھرا بھارت‘‘ کے نام سے چلائی جانے والی مہم کے تحت عوام پر زور دیا جارہا ہے کہ کہیں باہر جانے کے بجائے فطرت کی پکار کا گلا گھر کے اندر ہی گھونٹ دیا کریں!
ایسی خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ کسی این جی او کی طرف سے تحریک ملنے پر کسی لڑکی نے ہونے والے سُسرال کے سامنے شرط رکھی کہ رُخصتی اُسی وقت ہوگی جب ٹوائلیٹ گھر کے اندر ہوگا! ایسی بات کرنے والیوں میں چند ایک سنجیدہ بھی ہوں گی تاہم بہت سی لڑکیوں نے تو محض میڈیا کی توجہ پانے یا سوشل میڈیا میں نام تھوڑا چمکانے کی خاطر اِس نوعیت کی شرائط منوائیں! ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!
مدھیہ پردیش کے ایک ضلع میں کسی این جی او کی مدد سے بچہ فورس تیار کی گئی ہے۔ دس بارہ سال کی عمر کے چار ہزار سے زائد بچوں کو رجسٹر کرکے اُنہیں مخصوص کیپ، جیکٹ اور وِسل دی گئی ہے۔ اِن رضا کاروں کی ذمہ داری یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی کو کھلی جگہ لوٹا تھام کر ''فارغ‘‘ ہوتا دیکھیں، سیٹی بجاکر لوگوں کو جمع کرلیں اور کھلے میں فارغ ہونے والے کو تماشا بنا ڈالیں! کئی مقامات پر ہنگامہ برپا ہوچکا ہے۔ رضا کاروں کا ''ہدف‘‘ بننے والا بے چارہ کہتا ہی رہ جاتا ہے ؎
جمع کرتے ہوں کیوں رقیبوں کو
اِک تماشا ہوا، گِلہ نہ ہوا!
مودی سرکار پتا نہیں کیا چاہتی ہے۔ پہلے تو ٹوائلیٹ کی قطار میں لگنے والوں کو بینکوں کے آگے قطار بند ہونے پر مجبور کیا اور اب ان پر ''فراغت‘‘ کے دروازے بھی بند کیے جارہے ہیں! ؎
راستے بند کیے دیتے ہوئے دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
جو عمل بھرپور سُکون کا طالب ہے اُس کے دوران اگر سیٹی بج جانے کا خوف لاحق رہے تو سارا مزا کِرکِرا ہو جاتا ہے! نریندر مودی اگر کچھ دے نہیں سکتے تو خیر کوئی بات نہیں مگر عام آدمی سے صبح کے ٹھنڈے ماحول سے عطا ہونے والے سکون کے چند لمحات تو نہ چھینیں! کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے ہی اقدامات کی پاداش میں اُنہیں عوام کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے اور اُن کے لیے بھی سیٹی بج جائے!