تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-11-2016

آنے والا کل

انسانوں کے خالق کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ ایک بات مگر ہم جانتے ہیں کہ قدرت کے قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ 
نابھہ جیل سے فرار ہونے والے خالصتان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہرمندر سنگھ ایک دن بعد ہی گرفتار کر لئے گئے۔ تری پورہ‘ آسام اور جھاڑکھنڈ سمیت علیحدگی کی پندرہ تحریکیں ہندوستان میں سرگرم ہیں۔ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد نے اس عروج کو چھو لیا ہے کہ دنیا کی ہمدردی اور توجہ حاصل ہو سکے تو دیکھتے ہی دیکھتے منزل سے ہمکنار ہو جائے۔ آزادی انسان کے خمیر اور سرشت میں ہے، بالکل اس طرح جیسے غلبے کی جبلت۔ آدمی کی پوری تاریخ زنجیریں پہنا نے اور زنجیریں کاٹنے کی سرگزشت ہے۔ کارل مارکس نے محنت کشوں سے کہا تھا : کھونے کے لیے تمہارے پاس زنجیروں کے سوا کیا ہے؟
سیدنا فاروق اعظمؓ نے جناب عمرو بن العاص ؓسے کہا تھا: انسانوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا، کب سے تم انہیں غلام بنانے لگے۔ ان کے فرزند نے ایک نوجوان کی توہین کی تھی۔ حج کے موقع پر‘ ہر سال گورنر جمع ہوا کرتے‘ ابن عمرو کو آپؓ نے سزا دی اور وہ جملہ کہا‘ جو دائم جگمگاتا رہے گا۔ 
مغربی اقوام حرّیت کی علمبردار ہیں۔ فرد کو جیسی آزادی‘ آج وہاں حاصل ہے‘ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مغرب آزادی کی حقیقی روح کو مگر کبھی نہ پا سکا۔ میرے محترم سیاہ فام دوست‘ اسلامک پارٹی نارتھ امریکہ کے سربراہ مصطفی کا کہنا تو یہ تھا : امریکہ کی سرشت میں غلامی‘ خونخواری اور الحاد ہے۔ عرض کیا : خونخواری اور الحاد تو قابل فہم ‘ مگر غلامی کیسے؟ بولے : دوسروں کو غلام بنانے کا پاگل پن۔اِس براعظم پر قبضہ جمانے کے لیے کم از کم پانچ کروڑ مکینوں کو قتل کیا گیا۔ افریقہ سے کروڑوں کو وہ اغوا کر کے لائے‘ جن میں سے 70 فیصد بحری جہازوں میں مر گئے۔ اب وہ دنیا بھر کی اقوام کو پست و پامال کرنے میں لگے ہیں۔ 1977ء میں پہلی بار مصطفی پاکستان آئے تو اہل لاہور کو انہوں نے چونکا دیا۔
عالی جاہ محمد کے سیاہ فام پیروکارمسلمان کہلاتے مگر اپنے لیڈر کو پیغمبر مانتے تھے۔ عالی جاہ کے فرزند وارث دین محمد نے بعد میں عقائد کی تطہیر کی۔ مصطفی اس وقت بھی کھرے مسلمان تھے۔ لیاقت بلوچ ان سے ملے تو کہا: فکر و خیال کی ایسی یکسوئی خال دیکھی ہے۔ 
طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ کہا: خواہ مخواہ پاکستان میں مذہبی لوگ سوشلزم کے خلاف تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔ اسلام کا اصل دشمن امریکہ ہے۔ پاکستان میں سوشلزم کے 90 فیصد ماننے والوں نے امریکہ کو جب والدہ ماجدہ تسلیم کر لیا۔ ایک کے بعد دوسرے مسلمان ملک میں انکل سام نے خانہ جنگی کو ہوا دی تو اندازہ ہوا کہ ایک مسلمان کا وجدان کس قدر شفاف اور کس قدر رفیع ہو سکتا ہے۔ قول و فعل میں مطابقت پیدا ہو جائے تو وہ زمان و مکاں کی ساری قوتیں بھی اس کے مقابل ہیچ ہو جاتی ہیں ؎ 
کار آفریں‘ کارکشا‘ کارساز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
عصر رواں کے عارف کا کہنا ہے کہ اللہ کو کسی ہجوم کی ضرورت نہیں، بس ایک آدمی اسے درکار ہوتا ہے۔ کبھی وہ شاعری کیا کرتے ‘اس زمانے کا ایک شعر یہ ہے ؎
جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا
ہرمندر سنگھ کا ذکر تھا۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
جموں کے ماسٹر کرن سنگھ یاد آئے۔ غالباً 1988ء میں بھارت سے ایک طیارہ اغوا کر کے لاہور لائے تھے۔ 1990ء میں جب ان سے رابطہ ہوا تو وہ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں پڑے تھے۔ ان سے ملنے گیا تو پوچھا : کئی برس سے جاری کشمیریوں کی تحریک آزادی کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں۔ کہا : کامیابی مشکل ہے‘ قربانیاں بہت دینی پڑتی ہیں۔ لہجے میں ایک افتخار تھا‘ قدرے سرپرستی کا انداز۔ وہ جو انقلابیوں میں ہوتا ہے۔ خیال و خواب کی دنیا ئیں بسانے والوں میں ۔ اپنی تحریک سے پوری طرح وہ مخلص تھے۔ بعدازاں ان کے گرامی قدر والد سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں اسلام آباد میں تھا۔ جب بھی تشریف لاتے‘ ایک مسئلہ انہیں درپیش ہوتا‘ ویزے میں توسیع کا۔ اس سرزمین سے‘ انہیں محبت ہو گئی تھی‘ جہاں ان کا فرزند مقیم تھا‘ خواہ زنداں ہی میں۔
سابق بیورو کریٹ تھے۔ ایک ممتاز معالج بھی ‘ گھوڑوں کی آنکھوںکے آپریشن کا عالمی ریکارڈ رکھتے تھے۔ کم گو‘ شائستہ‘ مرتب اور مہذب آدمی۔ حسن ابدال کے گوردوارے چلے جاتے۔ دیر تک عبادت میں مگن رہا کرتے۔ ایک بار مجھ سے کہا : میرا دوسرا بیٹا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور نور نظر بھی‘ مگر مجھے اپنے اِس بیٹے پہ فخرہے۔ اس دن احساس ہوا کہ آزادی کی متاع کس قدر گراںبہاہے۔ مایوسی پھیلانے والے مولویوں اور ملحدوں کے زیراثر‘ کس قدر کفران نعمت کے ہم مرتکب ہیں۔
ہرمندر سنگھ والے واقعہ کی خبر آئی تو تین عشرے پہلے کا مشرقی پنجاب ذہن میں ابھرا۔ بھنڈرانوالہ نے، سکھ جسے اب شہید بھنڈرانوالہ کہتے ہیں‘ امرتسر میں الائو بھڑکا دیا تھا۔ ایسا کہ اندرا گاندھی کو فوج اتارنا پڑی۔ بھنڈرانوالہ قتل ہوا تو سینکڑوں سکھ فوجی اپنی یونٹوں سے فرار ہو گئے۔
ایسی ولولہ انگیز تحریک کیسے بجھ گئی؟ حمایت ان کی غیر معمولی تھی۔سکھ جانبازوں نے مگر سیاسی پہلو پہ توجہ نہ دی۔ فقط عسکریت کے بل پر برہمن کو لتاڑ دینا چاہا۔ اپنے سیاسی ہمنوائوں کو وہ ناپسند کرتے تھے۔ درجنوں نہیں‘ ان میں سے سینکڑوں کو قتل کر ڈالا۔ یہ ایک تباہ کن غلطی تھی۔ انقلابات میں مگر ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ایسی حرارت لہو میں بھڑک اٹھتی ہے کہ دانش و تدبر رخصت ہوتے ہیں۔ سکھوں کے مختلف دھڑے وجود میں آئے اور باہم متصادم ہو گئے۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور دہلی سے انہیں ہمدردی تھی۔ بھارت نے فائدہ اٹھایا اور مسلح تحریک کو کچل ڈالا۔ پنجاب کے سکھ آئی جی نے کہا تھا: جون 1995ء سے جنوری 1996ء تک‘ کراچی میں ڈاکٹر شعیب سڈل کے تجربے سے رہنمائی حاصل کر کے۔ جنرل نصیراللہ بابر‘ خود وزیراعظم بینظیر اور جنرل کاکڑ جن کی پشت پر کھڑے رہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک اس لیے کامیاب ہے کہ اس کا سیاسی شعبہ‘ عسکری سے کم متحرک نہ رہا۔ رائے عامہ کو ان کے رہنما ہموار کرتے رہے۔ دلوں اور دماغوں کی جنگ انہوں نے جیتی۔ یاسین ملک‘ شبیر شاہ‘ میرواعظ اور ان سب سے بڑھ کر سید علی گیلانی‘ جو شاید کشمیر کی تاریخ کے سب سے بڑے ہیرو ہیں۔ ممکن ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان کے بھی ہو جائیں۔ قائداعظمؒ کے بعد شاید سب سے بڑے پاکستانی‘ کارآفریں‘ کارساز۔ اپنے لیڈر کو کشمیریوں نے پہچانا اور اس کی پیروی کی۔
وحشت کا شکار اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں نے‘ مسلمانوں کی راہ میں کانٹے نہ بوئے ہوتے۔ کسی نے اگر انہیں سکھایا ہوتا کہ جہاد کی شرائط ہیں اور دانش سے محرومی‘ منزل سے محروم ہوا کرتی ہے تو کشمیر شاید آزاد ہو چکا ہوتا۔ نائن الیون کا واقعہ اگر نہ ہوا ہوتا۔ پاکستان اگر اس قابل ہوتا کہ آج اپنی افواج مقبوضہ کشمیر کی سرحدوں پر متعین کر سکتا۔ فقط متعین ہی کر سکتا۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میںتحریک آزادی￿ کشمیر سے انحراف کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ آج تک وہ جاری ہے۔
سکھوں کی تحریک مری نہیں۔ بھنڈرانوالہ کے یوم شہادت پر مشرقی پنجاب کے بیشتر گھروں پر سیاہ پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ جن نوجوانوں کا لہو زیادہ جوش مارتا ہے‘ اس کی تصاویر والی شرٹس پہنتے اور گرفتارہوتے ہیں۔ 
پاکستان کے‘ تاریخی حرکیات سے ناآشنا حکمران اور نیم پاگل نریندر مودی جو بات نہیں جانتے‘ وہ یہ ہے کہ عوامی تحریکیں کبھی نہیں مرا کرتیں۔ سبرامنیم سوامی ایسے احمقوں کی مان کر بھارت نے اگر پاکستان کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو وہ خود بکھر جائے گا۔ کشمیر ہی آزاد نہ ہو گا‘ خالصتان بھی بنے گا۔ ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔
اس ملک پر ایک اقلیت حکمران ہے‘ برہمن! تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اقلیت‘ اکثریت پہ تادیر حکومت نہیں کیا کرتی۔انسانوں کے خالق کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ ایک بات مگر ہم جانتے ہیں کہ قدرت کے قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved