وادی کشمیر کے تجارتی اور سیاسی لحاظ سے اہم قصبہ سوپور میں برلبِ جہلم میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ میں، خطبہ جمعہ سے قبل، دورانِ وعظ، شمالی کشمیر کے مفتی اعظم مولوی غلام حسن مسلم امت میں خلفشار اور تفرقے کا ذکر کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمیں کے لئے رقت آمیزدعا کرواتے تھے۔ مگر فوراً ہی ان کا ٹریک تبدیل ہو جاتا۔ وحدت کا درس دینے کے چند ہی منٹ بعد وہ جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ایرانی انقلاب وغیرہ کو ہدف تنقید بناتے اور ان کی طرف سے اسلام کو زک پہچانے کی کوششوں کا ایسا نقشہ کھینچتے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ بچپن سے لے کر کالج سے فراغت تک آبائی قصبہ سوپور میں قیام کے دوران، راقم بیشتر جمعہ کی نمازادا کرنے کے لئے خانقاہ میں ہی حاضری کو ترجیح دیتا تھا۔ ایک دہائی پہلے حکومتی عتاب کا شکار ہوکر دہلی کی تہاڑ جیل میں ایامِ اسیر ی گزارنے سے قبل، دہلی پولیس کے سپشل سیل کے انٹیروگیشن روم میں ایک دن خفیہ ادارے کا ایک بزرگ اہلکار راقم سے ملنے آیا۔ یہ اہلکار ریٹائرمنٹ کے قریب تھا، مجھ سے سوپور کا حال احوال پوچھنے لگا۔ میں اس کے استفسار کو انٹیروگیشن کا ہی حصہ سمجھ رہا تھا، مگر اس نے جلد ہی وضاحت کی کہ وہ کافی عرصہ سوپور میں ڈیوٹی دے چکا ہے اور وہاں کے گلی کوچوں اور مقتدر افراد سے واقفیت کی یاد تازہ کرنے کے لئے ملنے آیا ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے مفتی صاحب کا بھی ذکر چھیڑا کہ کس طرح 1975ء میں شیخ محمد عبداللہ کو دامِ حکومت میں پھنسا کر رہے سہے جذبۂ آزادی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے جماعت اسلامی اور دیگر ایسی تنظیموں کا نظریاتی توڑ کرنے کی خاطر مقامی پیروں اور مولویوں کو آلہ کار بنایا گیا۔ سادگی میں اعتقادی اور بد اعتقادی کا ہَوّا کھڑا کرکے جماعت کے چند افراد نے بھی اس کا بھر پور جواز فراہم کر دیا تھا۔ ہندو ہونے کے باوجود یہ اہلکار اسلام پر بھرپور عبور رکھتا تھا۔ سبھی فرقوں کے عقائد اس کو ازبر تھے۔ شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیزکے فرمودات اور ان کے مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ اختلافات پر، جن کا راقم کو بھی ادراک نہیں تھا، سیر حاصل لیکچر سن کر میں اس کی اسلام سے متعلق معلومات کا قائل ہوگیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جب کشمیر میں عسکری دور کا آغاز ہوا تو بارہمولہ میں بھارتی فوج کی 19ویں ڈویژن کے کمانڈر جوگندر جسونت سنگھ نے جو بعد میں آرمی چیف بھی بنے، سب سے پہلے مولویوں اور مساجد کے اماموں کو ہی تختہ مشق بنایا۔ سوپورکی خانقاہ کے اس معروف 70سالہ واعظ کو بھی طلب کیا گیا اور ان کے جھریوں زدہ ہاتھوں پرگرم استری پھیر دی گئی۔ کانگریس کے ریاستی یونٹ کے صدر غلام رسول کارکی کاوشوں سے جب ان کو رہائی ملی اور راقم ان سے ملنے گیا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں کی جلد جھلس چکی ہے، چربی اور گوشت کی تہیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ مولوی صاحب مرحوم کو اللہ کروٹ کروٹ جنت عطا کرے۔۔۔آمین!
قصہ مختصر، دنیا بھر کی ایجنسیاں مسلکی منافرت کو ہوا دینے اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے عرصۂ دراز سے سرگرم ہیں۔ کئی سال قبل اتر پردیش کے شہرکانپور کی ایک مسجد کے باہر راقم نے ایک بورڈ آویزاں دیکھا‘ لکھا تھا: مسجد میں دیوبندیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسی طرح مغربی اتر پردیش کا دورہ کرتے ہوئے بستی اور سدھارتھ نگر میںکئی مساجد میں لکھا دیکھا کہ بدعتی(ان کے مطابق بریلوی) حضرات اس مسجد سے دور رہیں۔ اہل حدیث حضرات نے بھی اپنی الگ مساجد بنا کر ایک طرح کا کلٹ (cult)کھڑا کر دیا ہے۔ پچھلے سال دہلی میں کتابوں کے میلے کے دوران ایک سٹال پر انگریزی میں بینر آویزاں تھا کہ ''شیعہ اسلام ہی امن کا پیامبر ہے‘‘۔ جب میں نے سٹال کے مالک کی توجہ اس طرف مبذول کروا کے استدعا کی کہ اس بینر کو ٹھیک کریںکیونکہ غیر مسلموں پر اس کا اثر ٹھیک نہیں پڑتا تو وہ مرنے مارنے پر تل گئے۔ میں نے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر بھارت کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے۔ آج بھی دلت یا پسماندہ طبقہ انہیں اپنا رہنما سمجھتا ہے۔ انہوں نے دنیاکے بڑے مذاہب کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کی جانب تھا مگر ان کے بڑھتے قدم رک گئے، جس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا تھا جو ان کے لئے پائوںکی زنجیر بن گیا۔ انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریر میں کہا: ''میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا‘‘۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بار وہ دہلی کے ایک بہت بڑے عالم اور مصنف سے ملاقات کے لئے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے مرید انہیں غسل خانے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں تولیہ ہے، کسی کے ہاتھ میں تہبند اور بنیان ہے اورکوئی ہاتھ میں صابن اور مسواک لئے ہوئے ہے۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ جس مذہب نے اپنے کام خود کرنے کی تلقین کی ہے، اسی مذہب کے عالم دین کا ہاتھ خالی ہے اور اس کا سارا بوجھ دوسروں کے سر پر ہے۔ جب عالم دین غسل سے فارغ ہوکر ڈاکٹرامبیدکرکے پاس آئے تو انہوں نے اسلام کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کیں۔ ڈاکٹر امبیدکر سنتے رہے۔ جب عالم دین خاموش ہوئے تو امبیدکر نے کہا:''اسلام کی باتیں تو سو فیصد سچائی اور صداقت پر مبنی ہیں مگر آپ کا سماج اسلام سے دور ہٹا ہوا ہے۔ اگر میں اسلام قبول کرلیتا ہوں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہاں بھی برہمنواد ہے اور یہاں بھی برہمنواد! ایک برہمن کو چھوڑکر آئوںگا تو دوسرے برہمن سے مقابلہ درپیش ہوگا‘‘۔
بھارت میں جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے ہیں، ان کی حکومت نے ایک نیا تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں میں شدت پسند رجحانات کو روکنے اور اس کے سد باب کے لئے ایک خاص طبقے کو صوفی ازم کے فروغ کے نام پر دیگر مسلکوں کے خلاف صف آرا کیا جانے کا منظم کام شروع ہوگیا ہے۔ مگر جب مودی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں مسلم پرسنل لاء میں طلاق ثلاثہ میں ترمیم کرنے کا حلف نامہ دائر کیا تو سبھی صوفی و شیوخ مودی حکومت سے خائف ہوگئے اور انہیں اب فسطائیت کے سائے نظر آنے لگے ہیں۔ ایسے میں جمعیت علماء ہند (محمود مدنی گروپ ) نے پہل کرکے اجمیر میں اپنا 33واں اجلاس عام منعقد کر کے حکمران جماعت اور اس کی ہمنوا تنظیموں کے علاوہ مسلمانوں میں مسلک کے نام پر تفرقہ پھیلانے والے اور خدا بیزار عناصر کو یہ واضح پیغام دینے کی کوشش کی کہ تحفظ شریعت کے معاملے میں مسلمان متحد اور متفق ہیں اور وہ اپنے مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریںگے۔ اجمیر کے کائید وشرام استھلی میں، جہاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے سالانہ عرس کے موقع پر بیرونی زائرین کو ٹھہرایا جاتا ہے، منعقدہ دو روزہ اجلاس عام کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ رہی کہ اس میں غالباً پہلی مرتبہ بریلوی مکتب فکر کے علماء اور سجادہ نشینوںکو بڑے پیمانے پر ساتھ لانے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش اس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ نائن الیون کے بعد سے امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں نے اسلامی دنیا میں اپنے مخصوص مفادات کے لئے مسلکی اختلافات کو ہوا دینے اور مخصوص صوفی ازم کو بڑھاوا دینے کی حکمت عملی پر عمل شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں کئی مسلم ملکوں میں خون خرابہ اور برادرکُشی کا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری پشت پناہی حاصل کرنے والے ٹولے نے جمعیت کے اجمیر میں اجلاس منعقد کرنے کی بھی سخت مخالفت کی تھی اورکہا تھا کہ اب خواجہ صاحب کی سر زمین کو بھی یہ ''دیوبندی‘‘ ناپاک کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں'خفت‘ اٹھانا پڑی۔ خود درگاہ خواجہ صاحب سے وابستہ خدام نے جمعیت کے اجلاس کے انعقاد میں تعاون کیا۔ اجلاس عام میں سجادگان کی بڑی تعداد کے علاوہ اجمیر شہرکی ایک بڑی آبادی نے شرکت کی۔ یہی وجہ تھی کہ اجلاس عام کے آخری دن جلسے میں دو لاکھ سے زیادہ افراد شریک تھے۔
اس موقع پر مسلکی اختلافات مٹانے اور قومی و ملی معاملات میں مسلکی تحفظات سے اوپر اُٹھ کر متحدہ جدوجہد کرنے کے سلسلے میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں یہ بھی درج تھا کہ ''۔۔۔۔اپنے مسلکی اختلافات کے باوجود، مشترک قومی و ملی معاملات میں ہر طرح کی جارحیت کو ترک کرکے اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ جب مختلف سیاسی پارٹیاں، تاجروں کے گروپ اور ممالک اختلافات کے باوجود اپنے مشترک مفادات کے لیے متحد ہوکر کام کرسکتے ہیں تو مختلف مسلم مسالک و مکاتب فکر والے اپنے مشترک مسائل و مفادات کے حصول کے لیے کیوں ایک ساتھ نہیں آسکتے؟‘‘ بریلوی مکتب فکر کے رہنما مولانا توقیر رضا خان نے کہا کہ اتحاد ملت وقت کی بڑی ضر ورت ہے، یہ شریعت کے تحفظ اور بے گناہ بچوںکو جیلوں سے آزاد کرانے، ملک کی جمہوریت کی بقا کا واحد راستہ ہے۔ انھوں نے دیوبند اور جمعیت کے علمائکو بریلی شریف آنے کی بھی دعوت دی۔ جمعیت نے بھارت میں امید کی جوکرن جگا دی ہے، دعا ہے کہ یہ دیگر ممالک خصوصاً پاکستان کو بھی منورکرے۔ مسلمان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالیں اور مسلکی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنے سے گریزکریں۔