تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-11-2016

اس کے لیے، جس کا نام بھی معلوم نہیں

بحیثیت مسلمان خودکشی کو نہ تو کسی صورت جائز قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے گلیمرائز کیا جا سکتا ہے‘ لیکن بعض اوقات یہ ناپسندیدہ فعل بھی معاشرے کے مُنہ پر جوتا مارتا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے خالد بیگ نے واٹس ایپ پر ایک تصویر‘ دو چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپ‘ ایک خط اور تین سطری پیغام بھجوایا ہے۔ پہلے خط:
(سب سے اوپر ایک موبائل نمبر لکھا ہوا ہے)
ڈیئر نسرین! یہ میرا آخری خط ہے۔ اسے غور سے پڑھنا اور عمل کرنا۔ نوازشریف نے وہی کچھ کیا جس کا ڈر تھا، جنرل راحیل شریف کو ہٹا دیا۔ بہرحال کوئی بات نہیں‘ اب بھی دو دن ہیں۔ اگر پوری قوم سڑکوں پر آ جائے اور کہے کہ ہمیں راحیل شریف ہی چاہیے تو فیصلہ بدل جائے گا۔ آپ اس خط کی 100 کاپیاں فوراً کروا لیں اور ٹی وی اور اخبارات کو دے آئیں۔ آپ میری بالکل فکر نہ کریں۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ راحیل شریف جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ پریس کلب کے تمام دوستوں کو سلام، انہوں نے میرا بہت خیال رکھا۔
میری خواہش ہے کہ میری نماز جنازہ پریس کلب کے سامنے ہی ادا کی جائے،
لیکن دو دن کے بعد
دستخط : 27-11-2016
تصویر میں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک چھوٹا سا فولڈنگ بیڈ پر پڑا ہے جس پر سفید اور آسمانی رنگ کی چادر ہے اس پر ہلکے اور گہرے نسواری رنگ کے کمبل تلے ایک لاش ہے جس کے کنارے ایک خاتون نہایت صبر سے بیٹھی ہوئی ہے۔ ساتھ ایک نوجوان چھوٹے سے بچے کو اٹھائے کھڑا ہے۔ ساتھ دیوار پر ایک شاپر میں کچھ چیزیں ہیں اور گتے کے تین بینر ہیں جن پر جنرل راحیل شریف کی رنگین تصویر ہے اور ساتھ کچھ لکھا ہوا ہے جو پڑھا نہیں جا رہا۔ دونوں ویڈیو کلپس میں یہ میت ریسکیو والے اٹھا رہے ہیں۔
خالد بیگ کا میسج: پریس کلب کے باہر احتجاج پر بیٹھے شخص نے زہر کھا لیا۔ یہ شخص جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں عرصہ دراز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھا ہوا تھا۔
خط پڑھنے کے بعد میں تھوڑی دیر کے لیے تو سُن ہو کر رہ گیا۔ پھر دوبارہ خط پڑھا اور پھر تیسری بار۔ میں یہ خط چوتھی بار بھی پڑھنا چاہتا تھا مگر یہ کمبخت آنکھیں بعض اوقات خواہشات کا ساتھ دینے سے انکاری ہو جاتی ہیں۔ بس ایسا ہی ہوا۔
خط میں یا خالد بیگ کے میسج میں کہیں نہیں تھا کہ یہ کہاں کا پریس کلب تھا۔ میں پہلے اسے ملتان سمجھا۔ اس کے ساتھ ہی اپنی بے حسی اور لاعلمی پر شرمندگی ہوئی کہ یہ شخص ملتان پریس کلب کے باہر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر اپنا ڈیرہ جمائے بھوک ہڑتال پر تھا اور میں نے کبھی اس کو دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ مجھے اپنی لاپروائی پر بڑی شرم آئی۔ مجھے یہ نامعلوم اور انجان شخص مرنے کے بعد اپنا اپنا محسوس ہونے لگا۔ میں نے خالد بیگ کو فون کیا اور پوچھا کہ یہ واقعہ کب ہوا ہے؟ خالد بیگ کہنے لگا اسے ابھی ساری تفصیلات خود بھی معلوم نہیں۔ یہ شخص کراچی پریس کلب کے سامنے کافی عرصہ سے بیٹھا ہوا تھا اور اس نے کل خودکشی کی ہے۔ کہنے لگا، خط پر کل کی (ستائیس نومبر) کی تاریخ پڑی ہوئی ہے۔ میں نے نام پوچھا تو وہ خالد بیگ کو بھی معلوم نہ تھا (دستخط انگریزی میں ہیں اور نام واضح نہیں ہوتا۔) کہنے لگا مرحوم ادھیڑ عمر کا تھا۔ ساتھ بیٹھی خاتون ممکن ہے اس کی اہلیہ ہو اور ساتھ کھڑا ہوا نوجوان اس کا بیٹا ہو سکتا ہے۔ اس سے زیادہ ابھی کچھ معلوم نہیں؛ تاہم مجھے تھوڑا وقت دو، میں تمہیں کراچی کے اس دوست سے پتا کر کے بتاتا ہوں جس نے مجھے یہ تصویر اور ویڈیو کلپس بھیجے ہیں۔
پہلے میں نے سوچا کہ خالد بیگ کے فون کا انتظار کروں اور تفصیلات معلوم کر کے کالم لکھوں مگر پھر سوچا کہ کیا تفصیلات ہوں گی؟ اس کا نام ہوگا۔ بھلا نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟ عمر کا معلوم ہوگا؟ اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے کہ مرنے والے کی عمر کیا تھی؟ مرحوم کے کتنے بچے تھے؟ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ دو تھے‘ چار تھے یا پانچ۔ سوگواروں میں اور کون کون تھا؟ بھلا یہ کیسے گنے جا سکتے ہیں؟ ان میں تو میں خود بھی شامل ہوں۔
میں ان خائنوں میں سے نہیں جو دوران مارشل لاء تو کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہے اور جب بدترین جمہوریت آتی ہے تو وہ آمریت کو یاد کرنے لگ جاتے ہیں۔ الحمد للہ اس عاجز نے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جیل بھگتی اور پرویز مشرف کے پورے دور میں اس آمریت کے خلاف قلم کو رواں رکھا۔ چوہدری پرویز الہی کے بے شمار کاموں اور خصوصاً جنوبی پنجاب کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی کے باعث میں دل سے اس کا معترف ہوں لیکن صرف اس کے اس ایک جملے پر کہ ''ہم پرویز مشرف کو دس بار وردی میں صدر بنوائیں گے‘‘ میرے دل کا بغض ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ لیکن آمریت کو رد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف اور صرف بدترین جمہوریت ہی اپنا شعار بنا لیں۔
مرنے والا جو کوئی بھی تھا کم از کم جنرل راحیل شریف سے کسی ذاتی فائدے کا نہ ہی طلب گار تھا اور نہ ہی امیدوار۔ اس کی ساری محبت ملکی حالات کے تناظر میں تھی۔ اس نے میری طرح کراچی کو روشنیوں کے شہر کے طور پر دیکھا ہوگا۔ کراچی کی رونقوں سے لطف اندوز ہوا ہوگا۔ کراچی کی صنعتی ترقی اور غریب پروری سے بہرہ مند ہوا ہوگا۔ کراچی کے امن و امان کا لطف اٹھایا ہوگا۔ پھر اس نے کراچی کو اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتا دیکھا ہوگا۔ بوری بند لاشیں گننا شروع کی ہوں گی اور پھر ایک دن معاملہ گنتی سے اُوپر نکل گیا ہوگا تو اس نے یہ کام چھوڑ دیا ہو گا۔ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں سینکڑوں لوگوں کی جلی ہوئی لاشیں دیکھی ہونگی۔ اس نے برمے سے سوراخ شدہ انسانی جسم دیکھے ہوں گے۔ شاید اس کو بھی کئی بار بھتہ دینے کی اذیت سے گزرنا پڑا ہوگا۔ ممکن ہے اس سے فطرہ اور قربانی کی کھال ڈنڈے کے زور پر حاصل کی گئی ہو‘ اور بھی بہت کچھ ممکن ہے۔ پھر اس نے اس صورتحال میں کچھ بہتری آتی دیکھی ہو گی۔ رات کو باہر نکلتے ہوئے خوف تھوڑا کم ہوتا دیکھا ہوگا۔ بھتہ خوروں کو زیر زمین جاتے دیکھا ہوگا۔ ٹارگٹ کلرز کو قانون کے شکنجے میں آتا دیکھا ہوگا۔ شہر کا امن اور سکون بحال ہوتے دیکھا ہوگا۔ اس نے اس کا سارا کریڈٹ جنرل راحیل شریف کے کھاتے میں ڈالا ہوگا۔ وہ اس میں خود کو حق بجانب بھی سمجھتا ہو گا کہ نوازشریف کی حکومت تو پہلے بھی آتی رہی ہے اور بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور قاتلوں کے ساتھ مل کر اپنی حکومت چلاتی رہی ہے۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا بھی تھا۔ مرکز میں باری والی اور سندھ میں تقریباً لگاتار حکومت کے باوجود کراچی کے حالات میں بہتری تو ایک طرف، مسلسل خرابی اور ابتری میں اضافہ ہوتا دیکھا ہوگا۔ بات فوج کی نہیں ہو رہی کہ کراچی میں بدترین ظلم و تشدد ہوا ہی پرویز مشرف کے دور میں ہے، جب بارہ مئی کا سانحہ ہوا اور صدر مملکت نے جلسہ عام میں مکے لہرا کر ''عوام کی طاقت‘‘ کا اعلان فرمایا۔ اس دور میں بھی کراچی پر خوف و دہشت کے سائے چھائے رہے اور چائنا کٹنگ کی ابتدا بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی۔ غرض کیا تھا جو اس دور میں بھی نہیں ہوا۔ سو یہ معاملہ نہ فوج کا تھا نہ مسلم لیگ نون کا اور نہ پیپلز پارٹی کا۔ اس حمام میں سبھی ننگے تھے۔
اب معاملہ تھوڑا بہتری کی طرف گامزن تھا۔ مرنے والے کو گمان تھا کہ کراچی کے حالات میں یہ بہتری جنرل راحیل شریف کی وجہ سے آ رہی ہے کہ اسے صرف یہی فرق نظر آ رہا ہوگا۔ اسے مایوسی بھی ہو رہی ہوگی کہ اگر جنرل راحیل شریف چلا گیا تو درجنوں گرفتار شدہ ٹارگٹ کلرز جو ابھی سزا سے بچے ہوئے ہیں دوبارہ باہر آ جائیں گے۔ درجنوں قتل اور دہشت گردی میں ملوث مجرموں کی ضمانتیں ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ جونہی راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ قریب آنے لگی ہے لوگوں کے پر دوبارہ نکلنے شروع ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کو پیپلز پارٹی کراچی کا صدر بنا دیا گیا ہے۔ لگتا ہے اس کی رہائی بھی قریب ہے۔ زرداری صاحب بھی اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے واپسی کے لئے پرتول رہے ہیں۔ کراچی کی صورتحال میں بہتری والا معاملہ اسے اب پٹتا دکھائی دے رہا ہوگا۔ اس نے آس لگائی ہوگی کہ جیسا کراچی اس نے لڑکپن میں دیکھا تھا وہ اپنا وہی کراچی دوبارہ دیکھ سکے گا اور جب اس کی یہ امید ختم ہو گئی تو اس نے ستائیس نومبر کو اپنی ہڑتال ختم کی اور اپنے تین پوسٹر سڑک پر لاوارث چھوڑ کر یہاں کے سب جنجالوں سے اپنی جان چھڑوا کر اگلے جہان چلا گیا۔
مجھے اس کا نام بھی معلوم نہیں مگر نام میں کیا رکھا ہے؟ وہ اُن ان گنت بے نام و نشان لوگوں میں سے ایک تھا جو خاموشی سے دنیا میں آتے ہیں اور بڑی خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔ لیکن وہ جاتے جاتے ہمارے منہ پر چند سوالات کے جوتے مار کر گیا ہے کہ جمہوریت مل ملا کر ملک لوٹنے کا نام ہے۔کیا میثاق جمہوریت چوروں کی آپس میں امداد باہمی کا دوسرا نام ہے؟ کیا حکومت چلانے کے لیے ہر چور‘ قاتل‘ دہشت گرد اور ملک دشمن سے ہاتھ ملانے کی مجبوری جمہوریت کا لازمی حصہ ہے؟ کیا جمہوریت صرف گنتی کے چند لوگوں کے مفادات کا نام ہے؟ کیا جمہوریت میں عوام کو ووٹ ڈالنے کے فرض کے علاوہ حقوق بھی حاصل ہیں یا یہ صرف منتخب ارکان کا حق ہے؟ کیا آئین کے اندر لکھے گئے عام آدمی کے حقوق کو صرف جمہوریت کی خوبصورت پیکنگ میں لپیٹ کر کام چلایا جا سکتا ہے؟
اللہ جانے والے پر اپنا رحم کرے۔ حکمرانوں تک تو شاید یہ خبر بھی نہ پہنچے کہ ان سے مایوسی نے ایک کمزور آدمی کو اپنی جان لینے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن یہ معاملہ زیادہ دیر چلنے کا نہیں۔ جمہوریت دشمن اپنی روش تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں مگر جمہوریت پرستوں اور جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو بھی اپنی روش تبدیل کرنا ہوگی ورنہ ''دما دم مست قلندر‘‘ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ جمہوری نظام سے یہ مایوسی بہت سے لوگوں سے ڈوب مرنے کا تقاضا کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved