چند برس ہوئے میں نے ماڈل ٹائون لاہور میں اپنے ایک دوست کے گھر کے باہر گاڑی کھڑی کی۔ دوست سے ملاقات کے بعد جب میں باہر آیا تو گاڑی غائب تھی۔ کچھ اپنی غلطی کا بھی احساس ہوا کہ اس میں وہ الیکٹرانک سسٹم نہیں لگوایا تھا جو ہاتھ لگانے پر شور مچا دیتا ہے۔ بہرحال ماڈل ٹائون تھانے پہنچا۔ وہاں تھانیدار ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ باقاعدہ ایم بی بی ایس کیا ہوا تھا مگر پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ میری روداد سن کر بولے ''حلال کی کمائی کی ہوگی تو مل جائے گی ورنہ گئی‘‘ مجھے بہت عجیب لگا۔ بھئی ایک تو گاڑی گم ہوگئی اوپر سے حرام کی کمائی کا طعنہ مل گیا۔ خیر پولیس والوں کے آگے کون بول سکتا ہے۔ انہوں نے ایف آئی آر کٹوا کر نقل فراہم کر دی کہ کم از کم اپنے کاغذات نئے بنوا پائیں۔
میں سوچ رہا تھا جب گاڑی گئی تو کاغذات بنوانے کا کیا فائدہ۔ خیر میں گھر آیا تو یہ واقعہ سنتے ہی میرے برادر نسبتی نے کہا کہ ''یہ تو چومالے والی کے پاس جانا پڑے گا۔ چومالہ بھاٹی دروازے کے اندر ایک محلہ ہے۔ وہاں کسی خاتون کی شہرت تھی کہ وہ گم شدہ چیزوںکا پتہ بتا دیتی ہے۔ میرے سسرال والے چونکہ ازحد توہم پرست اور پیر پرست واقع ہوئے تھے۔ لہٰذا فوری مشورہ یہی ملا جس کو میں نے یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ اگر چومالے والی کی کوشش سے گاڑی ملنی ہے تو پھر نہ ہی ملے تو بہتر ہے۔ یہ کوئی اپنی بڑائی نہیں ہے بس محض اللہ کا کرم ہے کہ اس نے اوائل عمر ہی میں ان پیروں وغیرہ کی اوقات مجھ پر کھول دی تھی۔ میرے اس نقطہ نظر کے باوجود میری بیگم چومالے والی کے پاس جانے کو پرتول رہی تھی۔ بہت سختی سے مجھے اس کو منع کرنا پڑا۔
اس واقعہ کے چند روز بعد رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا۔ میرا بیٹا اپنے ایک دوست کے ہمراہ ڈیفنس میں تھا کہ روزہ کھولنے کا وقت ہوا تو وہ دونوں ایک مارکیٹ میں گئے اور کولڈ ڈرنک لیکر روزہ افطار کیا۔ میرے بیٹے کا بیان ہے کہ بوتل پیتے ہوئے اس کی نظر وہاں مارکیٹ کے درمیان کھڑی ایک گاڑی پر پڑی جو وہی گاڑی معلوم ہوتی تھی جیسی ہماری چوری ہوئی تھی۔ خیر اس نے قریب جا کر جائزہ لیا تو اسے یقین ہوگیا چوروں نے نمبرپلیٹ کے آدھے حصے پر سیاہ پلاسٹک کی ٹیپ چڑھا کر نمبر4292 کی بجائے 92 کر رکھا تھا۔ بیٹے نے فون کیا میں وہاں پہنچا۔ دیکھا گاڑی تو میری تھی۔ اس کی بیٹری ، سیلف اور کاغذات وغیرہ غائب تھے۔ باقی سب کچھ موجود تھا۔ میں اس گاڑی کو ایک دوسرے گاڑی کے ساتھ باندھ کر گھر لے آیا۔
سب سے پہلا خیال مجھے اس واقعہ کے بعد یہ آیا کہ وہ تھانیدار نے طعنہ دیا تھا کہ حلال کی ہوگی تو مل جائے گی تو شکر ہے حرام کی کمائی کے طعنے سے تو محفوظ ہوگئے۔ دوسرا خیال یہ آیا کہ اگر میں بیوی کو چومالے والی عورت کے پاس جانے دیتا تو ممکن تھا اس کی کرامت کا میں بھی قائل ہو جاتا اوراپنا ایمان خراب کر بیٹھتا۔
کوئی دو مہینے بعدبادشاہی مسجد میں کوئی تقریب تھی جس میں بڑے پیمانے پر سکیورٹی کا اہتمام تھا۔ وہاں مجھے سادہ لباس میں وہی ڈاکٹر تھانیدار ملا۔ اس نے پہچان لیا۔ بولا آج کل میں سکیورٹی برانچ میں ہوں۔ میں نے بتایا کہ گاڑی مل گئی تھی۔ حیران ہوا۔ کہنے لگا دیکھا میں نے کہا تھا نہ کہ اگر حلال کی کمائی کی ہوئی تو مل جائے گی۔ پھر بولا۔ کتنا خرچہ ہوا گاڑی کو ٹھیک کرانے میں۔ میں نے کہا اٹھارہ ہزار۔ کہنے لگا مجھے اتنی ہی کمائی حلال کی نہیں تھی۔ اب آپ کی گاڑی حرام سے پوری طرح پاک ہوگئی ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ ممکن ہے یہ ڈاکٹر تھانیدار ٹھیک ہی کہتا ہوگا۔ آپ کتنی بھی احتیاط کریں گڑبڑ کا خدشہ تو رہتا ہے۔
تو خیر بات ہو رہی تھی کہ میں چومالے والی کے چکر میں آنے سے بچ گیا۔ اللہ کا کرم ہوا وگرنہ یہ پیروں فقیروں کا چکر زندگیاں تباہ کر دیتا ہے۔ گھر اجڑ جاتے ہیں۔ ہماری خواتین کو تو دنیا کی کوئی طاقت ان پیروں کے پاس جانے سے نہیں روک سکتی۔ بلکہ ایک طرح سے ان پیروں کا دھندہ خواتین ہی کی وجہ سے چلتا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کی جب شادی ہوئی ہے تو جوانی کے زور میں وہ کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔ بیویوں نے تو اکثر مورتوں میں کوئی نہ کوئی پیر رکھا ہوتا ہے۔ وہ پیر عورت ہو یا مرد۔ ہمارے نوجوانوں کو پیروں کے اس چکر میں عموماً کم ہی دلچسپی ہوتی ہے اور وہ اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ بیگم صاحبہ ہر ہفتے کسی عزیز کے ساتھ یا کسی سہیلی کے ساتھ ''گھر کی حفاظت‘‘ کے لیے روحانی مدد حاصل کرنے کسی پیر فقیر کے پاس جاتی ہیں۔
ایسے نوجوانوں کو میرا مشورہ ہے کہ اپنی بیوی کے سامنے کبھی اس کے پیر کے بارے میں ایسی بات نہ کہیں کہ وہ اس کو مانتے نہیں بلکہ ان کو چاہیے کہ کبھی کبھی بیگم کے ہمراہ پیر صاحب کے ہاں حاضری لازمی دے آیا کریں اور وہاں نذرانہ بھی دیکرآیا کریں۔ آپ پوچھیں گے کہ میں ایسا مشورہ کیوں دے رہا ہوں جبکہ میں خود ان پیروں وغیرہ کو نہیں مانتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر حکمت عملی کے طور پر آپ بیگم کے ہمراہ ان کے پیر صاحب کی حاضری دے آئیں گے تو آپ ہزار مصیبتوں سے بچے رہیں گے۔ کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے اور بیگم کو یہ تاثر دیں گے کہ آپ ان پیروں وغیرہ کو نہیں مانتے تو بیگم ایک نہ ایک دن آپ کی روحانی اصلاح کی خاطر یہ بات اپنے پیر صاحب یا صاحبہ کے گوش گزار کر دیں گی۔ پھر کیا ہوگا۔ پیر صاحب فرمائیں گے۔ کوئی بات نہیں راہ راست پر آ جائے گا اور بیگم کو کوئی تعویذ وغیرہ یا کوئی عمل بتا دیں گے مگر اپنے دل میں گرہ باندھ لیں گے۔ ''اچھا یہ کم بخت ہمیں نہیں مانتا‘‘۔
اس کے بعد وہ پیر صاحب مرحلہ وار آپ کی بیگم کو آپ کے بارے میں گمراہ کرنا شروع کردیں گے۔ شروع میں کہیں گے کہ کوئی آپ کے شوہر کو اس طرف آنے سے روک رہا ہے۔ یہ عمل چند ماہ چلے گا۔ پھراشارہ دیں گے۔ ممکن ہے کوئی عورت آپ کے شوہر کو روک رہی ہے۔ یہ بات ایسی ہے کہ اس کا تو اکثر عورتوں کو اپنے شوہروں کے بارے پہلے ہی شک ہوتا ہے۔ اب جناب یہ شک شروع شروع میں تو آپ کے لیے قابل برداشت رہے گا لیکن یہ پرانے زمانے کی ٹی بی کی طرح ہوتاہے۔ اس زمانے میںجس کو ٹی بی ہو جائے وہ آہستہ آہستہ کھانستا تھا۔ پھر ساتھ بخار میں مبتلا ہو جاتا تھا اور آخری سٹیج میں خون تھوکتا ہوا اس جہان سے رخصت ہو جاتا ۔
یہ شک بالکل اسی بیماری کی طرح آپ کوکھا جائے گا۔ گھریلو زندگی برباد ہو جائے گی۔ بیگم کے ساتھ صبح شام جنگ ہوگی۔ بچے پریشان رہنے لگیں گے۔ بیگم کو اس کے ماں باپ سمجھائیں، بھلے رشتے دار سمجھائیں اس نے صرف اور صرف پیر صاحب کی بات ماننی ہے اور پیر صاحب نے تو آپ کے بارے میں دل میں گرہ باندھی ہوئی ہے۔
یہ جو میں نے تحریر کیا ہے یہ کسی ایک شخص کی نہیں ہمارے معاشرے کے ان گنت لوگوں کی کہانی ہے جو مختلف انداز سے بنتی آئی ہے مگر نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ بچوں کی وجہ سے اکثر مرد مجبور ہوتے ہیں اور وہ ایسی صورتحال میں طلاق سے گریز کرتے کرتے بوڑھے ہو جاتے ہیں... اور پھر سوچتے ہیں کہ منیر نیازی نے کیا خوب کہا ہے ؎
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا