تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     30-11-2016

داعش کا زوال (دوسری قسط)

عبدالہادی نے ابومصعب الزرقاوی کو القاعدہ کے ساتھ ملانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اردن سے تعلق رکھنے والے الزرقاوی‘ داعش کے ''گاڈ فادر‘‘ کہلاتے ہیں۔ عبدالہادی نے شام سے تعلق رکھنے والے جہادی ‘ابو مصعب السوری کو نکال دیاکیونکہ وہ القاعدہ کی صفوں میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو کابل گیسٹ ہائوس سے ''چرا‘‘ رہا تھااور القاعدہ کے سینئر کارندوں‘ سیف العدل اور ابو حفظ المصری کے ساتھ مل کر ایک الگ راہ اپنانے کی کوشش کررہا تھا۔ چنانچہ زرقاوی کا تعاون حاصل کرتے ہوئے مشرق ِوسطیٰ سے جہادی ریکروٹ بھرتی کرنے کی السوری کی کوشش کو ناکام بنانا مقصود تھا۔ عبدالہادی کے زرقاوی سے تعلقات اس وقت مزید اہمیت اختیار کرگئے‘ جب نائن الیون کے بعد افغانستان میں ہونے والے امریکی آپریشن کا رخ‘ عراق کی طرف مڑ گیا۔ القاعدہ نے افغانستان میں ٹریننگ کیمپ قائم کرنے میں زرقاوی کی مدد کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوجوان اردنی مجاہد‘ زرقاوی نے کسی بھی مرحلے پر اسامہ بن لادن کے ساتھ وفاداری کا عہدنہیں کیا تھا۔ چنانچہ جب زرقاوی واپس عراق گیا تو القاعدہ کے لیے اس کے ساتھ بات چیت کرنا اور اُسے قائل کرنا ممکن نہ رہا۔ 2003 ء اور 2004 ء میںزرقاوی اور القاعدہ کے درمیان بات چیت ہوتی رہی کیونکہ اُس وقت زرقاوی کو مالی امداد درکار تھی ۔ا ُس نے وعدہ کیا کہ وہ بعد میں‘ اسامہ بن لادن کی قیادت کا حلف اٹھا لے گا۔ اس دوران عبدالہادی کو العدل نے شمالی افغانستان میں القاعدہ کی فورسز کی کمان کرنے کی ذمہ دار سونپی۔ اس کی مزید ذمہ داری زرقاوی سے ابلاغ جاری رکھنا بھی تھا۔ چنانچہ العدل اور عبدالہادی‘ القاعدہ کے دو اہم ترین لیڈر تھے جنہوں نے عراق میں موجود زرقاوی کے ساتھ مذاکرات کیے ۔ 
عراق اور جنوبی ایشیا کے درمیان بات چیت خطرناک ہوچکی تھی۔ جغرافیائی تفاوت اور انتہا پسندوں کا تعاقب کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سفر کرنا مشکل بنا دیا تھا جبکہ مالی وسائل کا تبادلہ بھی آسان نہ تھا۔ چنانچہ ان جہادی گروہوں کے ٹیلی فون اور دیگر ابلاغ ٹریس ہونے لگے ۔ درحقیقت 2003 ء میں زرقاوی نے القاعدہ سے مالی امدادکی درخواست کی تو عبدالہادی نے امداد فراہم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا۔ اُس کا بظاہر بہانہ یہ تھا کہ امدا د کا سراغ لگا کر پکڑ لیا جائے گا۔ آخر کار عبدالہادی نے زرقاوی سے مذاکرات کرنے کے لیے بہت سے قاصد بھیجے ۔ ان میں سے سب سے اہم پاکستان کے علاقے بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک جہادی‘ حسن گل تھا ۔ جب حسن گل اور زرقاوی کی جنوری 2004 ء میں ملاقات ہوئی تو زرقاوی نے دوٹوک انداز میں کہا کہ وہ عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خونریزی کرانے کی حکمت ِعملی رکھتا ہے ۔ وہ فرقہ وارانہ جنگ شروع کرنے کے لیے شیعوں کے مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کو قتل کرے گا۔ گل نے اس منصوبے سے عبدالہادی کو آگاہ کیا۔ سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے پاس موجود گفتگو کے ریکارڈ کے مطابق‘ عبدالہادی نے کسی بھی ایسے منصوبے کی مخالفت کی جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان خونریزی کرانا ہو۔ جب عراق سے واپس آتے ہوئے گل کو‘ کرد انٹیلی جنس فورسز نے گرفتار کیا تو اُس نے تفتیش کرنے والے سی آئی اے اہل کاروں کو بتایا ''عبدالہادی نے زرقاوی کو ایسے آپریشن سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا‘‘۔عبدالہادی کی تشویش کی کئی ایک وجوہ تھیں۔ اُ نہوںنے زرقاوی کے وحشیانہ منصوبے کی مخالفت کی لیکن فاصلہ زیادہ ہونے اور ابلاغ کی ناکامی کی وجہ سے‘ وہ عراق میں پیش آنے والے واقعات کی درست تصویر دیکھنے میں ناکام رہے ۔ عبدالہادی کی خوش قسمتی تھی کہ القاعدہ کے بہت سے ارکان عراق جا کر لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ القاعدہ کے رہنمائوں کو امید تھی کہ اگر وہ وہاں جا کر زمینی آپریشن میں حصہ لیں ‘تو زرقاوی کو بے اثر کرنے میں کامیاب رہیں گے ۔ چنانچہ عبدالہادی نے عراق تک جہادی دستوںکے سفر کے لیے راستہ ترتیب دیا۔ دوسری طرف زرقاوی بھی اپنا آزادانہ نیٹ ورک قائم کرچکا تھا۔ اس دوران عبدالہادی نے ایک انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے‘ بذات ِخود عراق جانے کا فیصلہ کیا ۔ تاہم زرقاوی نے اس تصور کو رد کردیا کیونکہ وہ عراق میں اپنے سے بڑے قدآور لیڈر کو اپنے نئے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ گردانتا تھا۔ سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق‘ زرقاوی نے گل کو بتایا کہ۔'' عبدالہادی کا یہاں آنا اچھا تصور نہیں ہے کیونکہ یہاں کے حالات‘ افغانستان سے مختلف ہیں۔‘‘ وقتی طور پر عبدالہادی نے اس موضوع کوٹال دیا اور عراق جانے کا فیصلہ موخر کردیا۔ بہرحال اکتوبر 2004 ء میں زرقاوی نے اپنی شرائط پر بن لادن کی اطاعت تسلیم کرلی ۔ زرقاوی نے بن لادن کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے کہا ''القاعدہ کے محترم بھائی‘ اُس کی حکمت ِعملی کو سمجھتے ہیں اور وہ دل سے ہماری بات تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ اس طرح'' القاعدہ ان عراق‘‘ وجود میں آئی ۔ تاہم جیسا کہ عبدالہادی کو خدشہ تھا ‘ عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس موضوع پر زرقاوی کوئی مشورہ یا ہدایت قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ 
القاعدہ نے زرقاوی کو کنٹرول کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ جولائی 2005 ء میںالقاعدہ کے نمبر دو رہنما‘ ایمن الظواہری نے زرقاوی کے نام خط لکھتے ہوئے اسے ''عراقیوںکے قتل ِعام سے باز رہنے کی تنبیہ کی ‘‘۔ تاہم زرقاوی نے اس خط کا کوئی اثر نہ لیا۔ امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر‘ جان نگروپونٹے نے اس خط کی نقل دسمبر 2005 ء میں جاری کی ۔ اُس وقت زرقاوی کے ترجمان نے اس خط کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا‘ اُن کی کوئی تنظیم نہیں جیسا کہ ''بلیک ہائوس اور اس کے غلام سوچتے ہیں‘‘ تاہم القاعدہ اور زرقاوی کے درمیان تنازع شدت اختیار کرتا گیا۔ نومبر 2005 ء میں زرقاوی کے جنگجوئوں نے اردن میں تین ہوٹلوں کو بمبوں کا نشانہ بنایا ۔ ان حملوں میں 60 شہری ہلاک ہوئے ۔ اس پر القاعدہ کی قیادت شدید غصے میں آگئی۔ ایران میں القاعدہ کے کمانڈر‘ آیت عبدالرحمان نے تین روز بعد‘ زرقاوی کو پیغام بھیجا ''تشدد پر پالیسی کو ترجیح دینی چاہیے ۔‘‘ عبدالرحمان نے زرقاوی کو حکم دیا کہ وہ عراق سے باہر اپنے تمام آپریشن فی الفور معطل کردے ۔ آیت عبدالرحمان نے عبدالہادی کی تشویش بھی دہرائی کہ القاعدہ‘ عراق میں معاملات سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہورہی ۔ اس نے زرقاوی کی طرف سے ایمن الظواہری کے خط کو فراڈ قرار دینے کو بھی‘ ایک خطرناک پیش رفت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ وہ خط مستندتھااور ''بھائیوں اور شیخ صاحبان کی فکر اور اخلاقی اقدار کی عکاسی کرتا تھا‘‘ اس نے زور دیتے ہوئے کہا القاعدہ اور القاعدہ اِن عراق کے درمیان زیادہ روابط کی ضرورت ہے ‘ نیز اردن کے ہوٹلوں پر بم برسانے کی بجائے‘ اپنے بھائیوں اور رہنمائوں سے مشاورت کرنا ضروری ہے ۔ جنوری 2006 ء میں زرقاوی لائن پر آتا دکھائی دیا۔ اُس نے عراقی جہادی گروہوں پر مشتمل ایک کولیشن ترتیب دیا‘ جسے ''ایم سی ایس‘‘(مجاہدین شوریٰ کونسل) کانام دیاگیا۔ اس شوریٰ کا مقصد القاعدہ کے کچھ تحفظات دور کرنے تھے ۔ اس گروپ نے ایک عراقی کو اپنا امیر مقرر کیا اور زرقاوی کا درجہ کم کردیا۔ تاہم واقعات نے ثابت کیا کہ ایم سی ایس کا قیام محض ایک دکھاوا تھا۔ مزید یہ کہ اس میں عراق کا دوسرے سب سے بڑے جہادی گروہ‘ انصار السنت (Ansar al-Sunnah) کی نمائندگی نہیں تھی۔ اس گروہ کی بنیاد کرد علاقے تھے اور وہ زرقاوی پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔ القاعدہ کی مرکزی قیادت‘ تمام جہادی تحریک کو یکجان اور مربوط کرنے کی خواہش رکھتی تھی لیکن زرقاوی ‘انصار السنت کو ساتھ ملانے کے لیے تیار نہ تھا۔26جنوری 2006ء کو ایمن الظواہری نے انصار السنت کو ''القاعدہ سپیشل کمیٹی ‘‘ کی طرف سے ایک خط لکھا اور القاعدہ اِن عراق اور انصار السنت کے درمیان الحاق کی خواہش ظاہر کی ۔ اہم بات یہ تھی کہ اس خط میں ڈاکٹر ظواہری نے یہ بات تسلیم کی تھی کہ ایسے الحاق کے لیے القاعدہ اِن عراق کی تشکیل ِ نو کرنا ضروری ہوگی۔ اس کے تین دن بعد کمیٹی نے ایک اور نوٹ بھیجا اور اس سلسلے میں تمام رکاوٹیں دور کرنے کی ہدایت کی ۔ ان رکاوٹوں میں سے ایک زرقاوی خود تھا۔ 
القاعدہ کی اعلیٰ قیاد ت نے اس رکاوٹ کو دور کردیا ۔ اس نے انصارالسنت کو اطلاع دی کہ الحاق کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک ''اہم بھائی‘‘ کو عراق بھجوایا جارہا ہے ۔ القاعدہ نے اس بھائی کا نام نہیں بتایا لیکن یہ کہا کہ ''آپ سب اُنہیں اچھی طرح جانتے ہیں‘‘۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ القاعدہ نے انصار السنت کی طرف‘ عبدالہادی العراقی کو بھجوایا تھاجو موصل سے تعلق رکھنے والا کرد نسل کا عراقی تھا۔ اس سے پہلے‘ 2003 ء میں عبدالہادی نے زرقاوی سے اجازت مانگی کہ کیا وہ عراق آجائے؟ لیکن زرقاوی نے منع کردیا۔ اس مرتبہ 2006 ء میں زرقاوی سے کوئی اجازت لینے کی ضرور محسوس نہیں کی گئی ۔ القاعدہ کی قیادت القاعدہ ان عراق کا ڈھانچہ تبدیل کردیتی لیکن ابھی عبدالہادی عراق سے کافی دو ر تھا جب جون 2006ء میں زرقاوی ‘امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہوگیا۔ اس کی جگہ ایک مصری جنگجو‘ ابوالحمزہ المہاجر نے سنبھالی۔ القاعدہ کے ساتھ طویل روابط ہونے کے باوجود‘ ابو الحمزہ نے القاعدہ اِن عراق کو مرکزی قیادت سے دور کرنے کی پالیسی جاری رکھی ۔ 15اکتوبر 2006 ء میں ایم ایس سی نے تمام تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کرتے ہوئے اسلامی خلافت آف عراق کے قیام کا اعلان کردیا۔ شام میں خانہ جنگی سے بہت پہلے داعش وجود میں آچکی تھی اور اس کا حتمی مقصد اسلامی خلافت کا قیام تھا۔(جاری ہے)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved