تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-11-2016

پی پی پی، نیا بیانیہ‘ کایا کلپ اور تازہ عزائم

جوں جوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے آپسی حالات بگڑتے جاتے ہیں‘ توں توں پی پی پی واقعتاً اپنا الگ راستہ تلاش اور استوار کرنے میں لگ گئی ہے، بلکہ اب تو دونوں فریق ایک دوسرے کی ماسیوں اور چاچیوں تک بھی جا پہنچے ہیں۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کی ایک بہت بڑی غلطی یہ رہی کہ اس نے پی ٹی آئی کو سولو فلائٹ کا طعنہ دے کر الگ ہونے دیا ورنہ اگر وہ اس کے ساتھ ہو لیتی تو جو کچھ وہ اب حاصل کرنا چاہتی ہے‘ اس وقت ہی حکومت کی چھٹی کرا کر حاصل کر سکتی تھی اور جس کے لیے اب اسے نئے سرے سے جدوجہد کرنا اور پی ٹی آئی سے اپنی دوری کو ختم کرنا پڑے گا۔ جہاں تک پارٹی کے خلاف بند فائلوں کا تعلق ہے تو وہ اب بھی موجود اور ایک دھمکی کی حیثیت رکھتی ہیں اس لیے اب اسے ان کے باوجود کھل کر حکومت کے سامنے آنا پڑے گا؛ حالانکہ وہ سیدھا سادہ بلیک میلنگ کا حربہ تھا جس سے تب کوئی فرق پڑ سکتا تھا نہ اب‘ کیونکہ جرم کو چھپائے رکھنا بجائے خود جرم سے کم نہیں ہے اور یہ فائلیں خود حکومت ہی کے گلے پڑ جاتیں۔ لیکن کسی نے خوب کہا ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں؛ چنانچہ پارٹی اس حوالے سے بہت سا وقت ضائع کر چکی ہے جس کی تلافی اسے کئی ایک طریقوں سے کرنا پڑ جائے گی۔
پارٹی کو اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ وہ اکیلے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور پی ٹی آئی واحد اپوزیشن پارٹی ہے جو اس کے ساتھ چل سکتی ہے؛ چنانچہ لوگوں کو یقین دہانی کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس ضمن میں کچھ اقدامات کئے جائیں‘ جن میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ بیرسٹر اعتزاز احسن سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے وکیل کے طور پر اس کے پینل میں شامل ہو جائیں، جس کی درخواست پی ٹی آئی نے پہلے کی بھی تھی اور اپنے اس فارمولے پر عدلیہ کو قائل کریں کہ اس مقدمے کا بار ثبوت شریف فیملی پر ہے‘ درخواست دہندگان پر نہیں۔ اس سے پارٹی کی ایک واضح سمت بھی قائم ہو جائے گی اور مستقبل کے بہت سے راستے بھی کھل جائیں گے۔
اول تو خدشہ اس بات کا ہے کہ حکومت خطرے کو بھانپتے ہوئے حسبِ روایت کچھ دے دلا کر پارٹی کو ایسے انتہائی اقدامات سے باز رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی کیونکہ وقت پڑنے پر سمجھوتہ کر لینا اس کے ٹریک ریکارڈ کا باقاعدہ ایک حصہ ہے اور پارٹی اپنی مصلحتوں یا مجبوریوں کی بنا پر پھر سے اس کے دام میں پھنس جائے گی کیونکہ اس کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے لیکن اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اس نے سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے تو فرینڈلی اپوزیشن کے طور پر نہیں بلکہ اسے واقعی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہو گا، نواز لیگ کی بغل بچہ بن کر نہیں۔ ورنہ وہ ان سب کو کھا جائے گی!
اور جہاں تک پارٹی کے نئے بیانیے کا تعلق ہے تو وہ اس وقت تک بے اثر اور بے نتیجہ ہی رہے گی جب تک وہ آصف زرداری‘ پھوپھی صاحبہ‘ یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک جیسی برگزیدہ ہستیوں کے آسیب سے آزاد نہیں ہو جاتی‘ کوئی اس بیانیے کا اعتبار ہی نہیں کرے گا۔ اگر پارٹی کچھ کرنا چاہتی اور اس میں کوئی ہمت اور جرأت ہے تو سب سے پہلے زرداری سے شریک چیئرمین کا عہدہ واپس لے اور مندرجہ بالا افراد کو زرداری سمیت پچھلے بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور کر دے ورنہ کسی بھی طرح کے احیاء اور کایا کلپ کے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے‘ اگر بلاول کو بینظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کی کاربن کاپی بنانا مقصود ہے تو وہ فوری طور پر بلاول بھٹو زرداری کی بجائے بلاول بھٹو بن جائے اور ایسا ہی کہلانا بھی شروع کر دے ورنہ یہ سب کچھ سعیٔ رائیگاں ثابت ہو گا اور اگلے الیکشن میں پنجاب کے اندر ن لیگ کی لتریشن کے لیے تیار رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ذہن صاف کرنے کے لیے بھی زرداری اور زرداری ازم سے دوری اور اس کا اعلان بے حد ضروری ہے یعنی اگر پارٹی اپنا نیا چہرہ سامنے نہیں لاتی تو آرام سے گھر بیٹھی رہے!
اس کے بعد پارٹی جب اپنے منشور پر زور دے گی جو کہ طاق نسیاں پر رونق افروز ہے تو لوگ اس کا یقین بھی کر لیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان گھاٹیوں کو عبور کرنے کے لیے موجودہ سیٹ اپ کافی نہیں ہے اور جب تک اس میں پرانوں کو شامل نہیں کریں گے جو پارٹی کی اصل رونق تھے‘ یعنی جو لوگ اب بھی حیات ہیں‘ چھوٹے بڑے کی تمیز کیے بغیر‘ ان کا کھوج لگایا جائے اور انہیں جس طرح بھی ممکن ہو‘ پارٹی میں واپس لایا جائے۔ بلاول نے پچھلے دنوں جو عاصمہ جہانگیر سے ملاقات کی ہے‘ یہ ایک بہت اچھا اقدام تھا اور ایسی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ سب سے پہلے پارٹی کو اپنا تھنک ٹینک قائم کرنا چاہیے جو اپنی رہنمائی فراہم کرتا رہے۔ پرانے عمائدین میں خوش قسمتی سے ڈاکٹر مبشر حسن حیات ہیں۔ ان کی منت سماجت اور معافی تلافی کے بعد انہیں اس تھنک ٹینک کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے تاکہ پارٹی کی پرانی خوشبو بھی باقی رہے۔ ان کے علاوہ بھی ادھر ادھر بکھرے ہوئے بہت سے پرانے لوگ موجود ہیں جنہیں منایا اور پارٹی میں واپس لایا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر فرخ سہیل گوئندی اس تھنک ٹینک میں کافی مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد ہے کہ پنجاب کے ہر ضلع میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے سابقہ تعلق کی بنا پر واپس لائے جا سکتے ہیں۔
اوکاڑہ میں رانا اظہر ایڈووکیٹ کو واپس لانا اور پروفیسر سلیم باغی سمیت‘ انہیں اس تھنک ٹینک میں شامل کرنا بے حد ضروری ہے۔ اسی طرح ساہیوال میں خواجہ عسکری محسن جیسے کھوئے ہوئے لوگوں کا تعاون حاصل کرنا بھی لازم ہے۔ چنانچہ جب ان لوگوں کے ساتھ رابطہ ہو گا تو وہ اپنے جیسے کئی دوسروں کی بھی نشاندہی کریں گے جو اس ضمن میں مددگار ہو کر پارٹی کو تازہ دم کرنے میں ایک کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک محنت طلب کام ضرور ہے لیکن اگر پارٹی کو کوئی کایا کلپ مطلوب ہے تو یہ محنت تو کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ صحافی حضرات میں لیفٹ کی طرف رجحان رکھنے والے لوگ موجود ہیں، انہیں اپروچ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ لیفٹ کے جراثیم پارٹی کے اندر بھی موجود ہوں‘ اگرچہ پارٹی منشور میں اسلامی سوشلزم کی شق باقاعدہ موجود ہو گی کیونکہ اس کے بغیر اسے ایک عوامی پارٹی بنایا ہی نہیں جا سکتا‘ اس صورت میں کہ ملک کی ہر پارٹی دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہے‘ اس لیے وہ دائیں بازو کا جھنڈا اٹھا کر کوئی اپنا امتیاز قائم نہیں کر سکتی‘ حتیٰ کہ پی ٹی آئی میں بھی کچھ لبرل لوگ موجود ہیں‘ ان کی ہمدردیاں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں‘ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اگلی سیاسی جنگ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو مل کر لڑنی پڑے کیونکہ بصورت دیگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ع
شاید کہ ترے دل میں اُتر جائے مری بات
آج کا مقطع
مکان بیچ کے تاوان بھر دیا ہے‘ ظفر
اور اپنے لخت جگر کو چھڑا لیا گیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved