تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-11-2016

’’ہانکا‘‘

ہر شکار ایسا نہیں ہوتا کہ شکاری لطف اندوز ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شکار خود شکار ہو جاتا ہے اور دنیا تماشا دیکھتے ہوئے عبرت پکڑتی ہے۔ درندوں کے شکار کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ کسی بھی درندے کے شکار میں احتیاط لازم ہے، شرطِ اول ہے ورنہ گئے کام سے۔ درندوں کے شکار میں صورت حال اکثر ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کی منزل تک پہنچنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتی۔ 
ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ شیر اور ببر شیر کا شکار اپنے آپ میں ایک امتحان ہے، آزمائش ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو لوگ شیر کو شکار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اُن کی کئی نسلیں اِس شکار کی داستان سناتی رہتی ہیں۔ بالخصوص آدم خور شیر کا شکار بہت سی داستانوں کو جنم دیتا ہے۔ شیر اگر ایک بار انسان کو کھالے تو پھر اُسے انسانی گوشت کا چسکہ پڑ جاتا ہے۔ انسانی خون و گوشت کا مزا پانے کے لیے وہ بستیوں پر حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ع 
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی 
ویسے تو خیر کسی بھی درندے کا شکار آسان نہیں ہوا کرتا مگر شیر کے شکار کی بات کچھ اور ہے۔ شکاریوں کی داستانوں ہی میں ہم نے پڑھا ہے کہ شیر کو مختلف طریقوں سے دھوکا دیا جاتا ہے تاکہ اُسے گھیر کر شکار کرنا آسان ہوجائے۔ اگر شیر اِدھر سے اُدھر بھٹک رہا ہو اور آسانی سے ہاتھ نہ آرہا ہو تو شکاری مختلف طریقے آزماتے ہیں۔ کہیں ''چارا‘‘ (بکری یا بھیڑ) باندھ کر شیر کا انتظار کیا جاتا ہے۔ شیر جب ''چارا‘‘ کھانے آتا ہے تو قریب ہی گڑھے میں گر جاتا ہے۔ یا پھر جال میں پھنس کر آسانی سے ہاتھ آجاتا ہے۔ 
مگر صاحب! شیر بھی آخر جنگل کا بادشاہ ہے، کچھ تو عقل رکھتا ہی ہے۔ آج کے شیر باندھی ہوئی بکری یا بھیڑ کھا جاتے ہیں اور ڈکار لے کر چل دیتے ہیں! ایسے میں دوسرے طریقے آزمانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ''ہانکا‘‘ بھی ایک ایسا ہی طریقہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو جمع کرکے ہانکا لگایا جاتا ہے۔ یعنی مختلف مقامات پر بہت سے لوگ جمع ہوکر شور مچاتے اور ڈھول، برتن بجاکر شیر کو کسی خاص سمت ہانکتے ہیں۔ شکاری جہاں گھات لگاکر بیٹھے ہوں اُس طرف جانے والا راستہ خالی چھوڑا جاتا ہے۔ یعنی تین اطراف سے گھیرا ڈالنے کے بعد لوگ ہنگامہ برپا کرتے، شیر کو ہانکتے ہیں اور وہ چوتھی سمت جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہاں شکاری اُس کا خیر مقدم کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یوں شیر کو مار گرایا جاتا ہے۔ 
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بیٹھے بٹھائے ہمیں شکار کے ذکر کی کیوں سُوجھی۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم نے کبھی کوئی شیر وغیرہ مارا تھا اور اب اس کا قصہ سنانے والے ہیں تو یقین جانیے کہ آپ کا اندازہ بالکل غلط ہے۔ ہم اور شکار؟ توبہ کیجیے۔ ہم تو زندگی بھر شکار ہوتے آئے ہیں۔ اور شادی کے بعد تو مزید شکار ہونے کی گنجائش بھی نہیں رہی! ایسے میں ہم کیا اور ہمارا شکار کیا؟ آپ سے کیا پردہ؟ ہم نے جب بھی کچھ شکار کرنا چاہا ہے، خود ہی شکار ہوگئے ہیں۔ اب آپ ہم سے یہ مت پوچھیے گا کہ ہم کیا شکار کرنا چاہتے تھے۔ ہر بات بتانے والی نہیں ہوتی! کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو فریق ثانی کو خود ہی سمجھ لینی چاہئیں! 
ہاں، یہ جان کر آپ ضرور حیران ہوں گے کہ کبھی کبھی ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ کہیں ہم شیر تو نہیں! جی ہاں، شیر۔ بات کچھ یوں ہے کہ جس اہتمام کے ساتھ جنگل کے بادشاہ کا شکار کیا جاتا ہے بالکل ویسے ہی یا اُس سے ملتے جلتے اہتمام کے ساتھ ہمارا بھی شکار کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے۔ آپ زیادہ حیران نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ ''ہم‘‘ میں آپ بھی شامل ہیں کیونکہ ہماری طرح آپ کو بھی شیر سے کم نہیں سمجھا گیا! اب آپ یہ مت سمجھیے گا کہ آپ چونکہ ہمارے قاری ہیں اِس لیے ہم آپ کو بہلانے، خوش کرنے کے لیے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ہم کوئی ہانکا وانکا نہیں لگا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف حقیقت بیان کر رہے ہیں۔ 
ہم اور آپ ... عوام ہیں۔ اِس ملک میں عوام کو جس منظم طریقے سے شکار کیا گیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے شکاریوں پر غصہ تو کیا آئے گا، اُلٹا انہیں داد دینے کو جی چاہتا ہے! شکاریوں نے اپنے فن کو اس قدر بلندی عطا کی ہے کہ اب اُن کی سَفّاکی بھی قابلِ داد ہوچکی ہے۔ شکار کے ایسے دل فریب طریقے ایجاد اور وضع کیے گئے ہیں کہ ؎ 
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے 
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے 
ہم نے بارہا پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے معاشرے کے جنگل میں ہم (یعنی ہم اور آپ) شیر کی ٹکر کے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جس طور شیر کو پھانسنے کے لیے ہانکا لگایا جاتا ہے بالکل اُسی طور ہمیں گھیرنے کے لیے بھی ہانکا لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ 
آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف ہانکوں کی بھرمار ہے۔ کتنی ''بے مروّتی‘‘ کی بات ہے کہ کچھ لوگ شکاریوں کے لیے پریشانیاں کھڑی کرتے رہتے ہیں اور اُن ''بے چاروں‘‘ کو ہمارے لیے کبھی چارا لگانا پڑتا ہے اور کبھی ہانکا لگوانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے! یہ کہاں کی شرافت ہوئی کہ شکار پوری تیاری کے ساتھ شکار کے لیے آئیں اور ہم شکار ہونے سے انکار کرتے ہوئے اُن کی ساری تیاریوں اور امیدوں پر پانی پھیر دیں؟ 
اگر اب بھی آپ کے ذہن میں کوئی شبہ ہے، تصورات میں کوئی اشکال ہے تو ہم عرض کریں گے کہ ذرا کیجیے آپ کس کس طرح شکار ہوتے ہیں اور کس کس طرح شکاریوں کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔ روزمرہ زندگی یعنی عمومی، غیر معاشی معمولات سے کیریئر کی وسعتوں تک ہم قدم قدم پر ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں جن سے شکاریوں کو زیادہ سے زیادہ آسانی ہو اور وہ فرحاں و شاداں شکار کرتے چلے جائیں! 
ہم نے ہانکے کی بات کی ہے۔ یہ زمانہ ہانکے کا ہے۔ جس طرح بھی نظر دوڑائیے، قدم قدم پر ہانکے ملیں گے۔ بات سیاست کی ہو یا معیشت کی، معاشرت کی ہو یا ثقافت کی ... ہر معاملہ، خواہ کہیں سے شروع ہوا ہو، بالآخر ہانکے کی منزل تک پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ 
سیاست دان عشروں سے طرح طرح کا منجن بیچ کر، ہمیں وعدوں اور اور دعووں کے جُھولے میں جُھلاکر دراصل ہانکا ہی تو لگاتے آئے ہیں۔ اُن کی باتوں میں آکر ہماری سوچ ایک خاص سمت چل دیتی ہے اور پھر اہلِ سیاست ہمارے ہی دیئے ہوئے مینڈیٹ کی چُھری سے ہمیں ذبح کرکے ہمیں اپنی دنیا سے چلتا کردیتے ہیں! 
کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کو زیادہ سے مقبول بنانے اور فروخت میں غیر معمولی اضافہ یقینی بنانے کے لیے تشہیر کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ ہانکا نہیں تو پھر کیا ہے؟ موثر اور بروقت تشہیر کے ذریعے لوگوں کو ایسی چیزیں خریدنے کی بھی تحریک دی جاتی ہے جن کی انہیں چنداں ضرورت نہیں ہوتی! ٹی وی اسکرین پر ہم ایسا بہت کچھ دیکھتے ہیں جو ہم سے متعلق ہوتا ہے نہ ہمارے کام مگر پھر بھی ہم اُسے حرزِ جاں بنانے پر تُلے رہتے ہیں! کیوں؟ صرف اس لیے کہ موثر تشہیر کے ذریعے کامیاب ہانکا لگایا گیا ہوتا ہے۔ 
کل تک ہانکا لگانے کے لیے ایسے بہت سے طریقے استعمال کیے جاتے تھے جو اب خاصے فرسودہ اور از کار رفتہ قرار پاچکے ہیں۔ یہ زمانہ میڈیا کا ہے۔ پورے معاشرے کو ایک طرف ہانکنے کے لیے اب میڈیا کا بھرپور سہارا لیا جارہا ہے۔ حکمران اور ان کے مخالف سیاست دان ہم سے جو کچھ بھی منوانا چاہتے ہیں اُس کے لیے اب وہ میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کو ایسے بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جارہا ہے کہ کبھی کبھی تو ہم سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کسے کم جُھوٹا سمجھیں اور کِسے زیادہ! ؎ 
میں کہاں جاؤں ہوتا نہیں فیصلہ 
اِک طرف اُس کا گھر، اِک طرف مے کدہ! 
بہر کیف، ہم تو اِس ہانکے سے بھی خوش ہیں کہ ہمیں بکری، ہرن یا بارہ سنگھا سمجھنے کے بجائے شیر تو گردانا گیا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved