14 اپریل 2006ء اور 4 جولائی 2006ء کو ایک قومی اخبار میں''گوادر، گوادر اور گوادر‘‘ اور ''پاکستان، گوادر اور جنرل مشرف‘‘ کے نام سے دو کالم شائع ہوئے جن کے مطالعے سے ملک بھر میں جاری اس بحث کا خاتمہ ہونے میں مدد ملے گی کہ گوادر اور سی پیک منصوبہ کب اور کس نے شروع کیا تھا۔
بلوچستان میں بارہ سال سے مسلسل جاری دہشت گردی کے اس پہلو کو مد نظر رکھیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کے نام سے جو بھی مسلح بغاوتیںشروع ہوئیں وہ ایک سال سے زیا دہ نہ چل سکیں، لیکن بلوچستان میں گوادرکو ناکام بنانے کے لئے موجودہ دہشت گردی کے پیچھے امریکہ، برطانیہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان سب شامل ہیں اور وہ کسی قلیل مدتی مقصد کے لئے نہیں بلکہ طویل مدتی جغرافیائی اور سٹریٹیجک پلاننگ کے تحت، کابل کو اپنا اڈہ بناتے ہوئے، مداخلت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں چین کے جنوبی ساحلی علاقوں اور سمندروں میں بھارت اور امریکہ کے نئے نئے معاہدے اور اڈے بہت کچھ واضح کر رہے ہیں ۔
آئیے پہلے گوادر کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں: شاہ کیکائوس کے عہد میں مکران، جہاں گوادر واقع ہے، ایران کی ملکیت تھا۔ اس کے بعد خسرو، لہراسپ، بیہمن، ہوما، گشتاسپ اور دراب خاندانوں کی بھی یہاں حکومتیں رہیں۔ دسویںصدی کے آخر تک گوادر ایک مصروف ترین اور مشہور بندرگاہ تھی جسے سمندر کے چوک یا چوراہے کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن 1508ء میں پرتگالیوں نے اس بندرگاہ کو تہس نہس کر دیا جس کے بعد سینکڑوں سال تک یہ ویران رہی، لیکن 18ویں صدی کے آخری عشرے میں گوادر کے تمام علاقوں پر مسقط نے قبضہ کر لیا۔ برصغیر کے انگریزی تسلط سے آزادی کے وقت اس کے مغربی ساحل کے چار مقامات پر بیرونی طاقتوں کا قبضہ تھا جن میں 1535مربع میل کا بھارتی ساحلی علا قہ گوا، دمن اور دیو پرتگال اور پاکستانی حصے گوادر پر ریا ست مسقط کا قبضہ تھا۔ 1958ء میں پاکستان نے دس ملین روپے کے عوض اسے مسقط کے سلطان سے خرید لیا۔1961ء کی مردم شماری کے وقت گوادر کی آبادی13ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔
امریکہ کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے پاکستان سے 450 ملین ڈالر کا ایک معاہدہ کرتے ہوئے مچھلیاں پکڑنے والے 250 ٹرالرز اس کے800 میل لمبے ساحل پر پہنچا دیے، لیکن جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے چند سال بعد ہی امریکہ سے کئے گئے اس معاہدے کو منسوخ کرتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کی مدد سے گوادرکو ایک بین الاقوامی بندرگاہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ جغرافیائی اور سٹریٹیجک اہمیت کے پیش نظر قدرتی دولت سے مالا مال گوادر، کراچی کے مغربی سمندر سے234 ناٹیکل میل اور خلیج ہرمز کے مشرق سے390 ناٹیکل میل پر واقع ہے اور یہی وجہ ہے کہ گوادرکو کراچی، ایران، سری لنکا، دبئی، ہانگ کانگ، سنگا پور اور ہندوستان کی تمام بندرگاہوں پر فوقیت حاصل ہے۔
گوادر پورٹ کے پہلے فیزکو چائنہ ہاربر انجینئرنگ کمپنی نے248 ملین ڈالر کی رقم سے مکمل کیا، جس میں چین نے198ملین ڈالر اور پاکستان نے50 ملین ڈالر خرچ کیے۔ اس کے بعد جنرل مشرف نے گوادر بندرگاہ کو مزید 14.5 میٹر گہرا کرنے کے لئے چین سے 22 ملین ڈالر کا ایک اور معاہدہ کیا تاکہ دنیا بھر سے آنے والے بڑے بڑے بحری جہاز آسانی سے یہاں لنگر انداز ہو سکیں۔ جیسے ہی یہ معاہدہ ہوا، بھارت سمیت دنیا کی چند بڑی طاقتیں گوادر کے خلاف میدان میں کود پڑیں اور انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے چینی انجینئرزکو اغوا اور قتل کرانا شروع کرا دیا تاکہ چین اور دوسری حکومتیں اس پراجیکٹ سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں۔ اُس وقت بلوچستان میں 1400 سے زیادہ اعلیٰ تربیت یافتہ چینی انجینئرز بلوچستان کے مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہے تھے، جن میں گوادر پورٹ، گوادر تربت روڈ، چاغی میں سینڈک کاپر پراجیکٹ، لسبیلہ میں جست پراجیکٹ، ژوب میں شیرانی آئل ڈرلنگ پراجیکٹ، لورا لائی میں ڈکی کول پارجیکٹ، لسبیلہ میں اٹک سیمنٹ، مسلم باغ میں کرومائٹ اور حبیب اﷲ پاور پراجیکٹ کوئٹہ شامل تھے۔
ان تمام پراجیکٹس اور ان پر کام کرنے والے چینی اور آسٹریلوی ماہرین کی حفاظت کے لئے بلوچستان میں فوجی چھائونیاں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا جن کے خلاف بھارتی اور امریکی ایجنسیوں نے اپنے آدمیوں کے ذریعے ہنگامے شروع کرادیے اور بلوچ عوام کے دلوں میں فوج کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے سوئی کی لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد اور کیپٹن حماد کا ڈرامہ رچایا گیا۔ انہی قوتوں کے طاقتور میڈیا نے دیکھتے ہی دیکھتے اسے دنیا بھر کا سب سے اہم ایشو بنا کر پاکستانی فوج کو بد نام کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ یہ جنرل مشرف کا دور حکومت تھا اس لئے مسلم لیگ نواز نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے گوادر، فوج اور فوجی چھائونیوں کے قیام کے خلاف مظاہرے شروع کرا دیے۔ فوج اور چھائونیوں کے خلاف ''پونم‘‘ اور پلڈاٹ بھی وجود میں آ گئیں۔ یہ سب کچھ اخبارات کے ریکارڈ پر آج بھی موجود ہے۔
گوادر کو یہ چیز خطے کی دوسری بندرگاہوں سے ممتاز کرتی ہے کہ دوسری بندرگاہیں خلیج فارس کے مخالف سمت میں واقع ہیں جس کی وجہ سے سنٹرل ایشیا اور افغانستان کو ان سے تجارتی مقاصد کے لئے فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ ارد گرد کے ممالک کی تمام بندرگاہیں گوادر کے مقابلے میں Congested اور War Zones میں واقع ہیں ۔1971ء میں بھارتی نیوی نے پاکستان کی سمندری حدود کی ناکہ بندی کر لی تھی لیکن گوادر کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ اس کی مداخلت سے مکمل طور پر باہر ہے۔ یہی درد بھارت کو تڑپائے ہوئے ہے۔
1995-2000ء تک کراچی پورٹ 50 فیصد سے بھی زیا دہ کیش فلو تک نیچے آ چکی تھی جس کی وجہ کراچی پورٹ کے اخراجات کا ایشیا کی دوسری بند رگاہوں سے زیا دہ ہونا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ امپورٹ کی گئی اشیا کی قیمتیں بھی بھارت اور دوسرے قریبی ممالک سے زیا دہ ہونے لگیں۔ گوادر واحد بندر گاہ ہے جس کے آسان زمینی راستے چین، افغانستان، ایران اور تمام سنٹرل ایشیائی ریا ستوں سے منسلک ہیں۔ سڑکوں کے نیٹ ورک کی تعمیر بھی جنرل مشرف کے دور میں (2005ء) شروع ہوئی۔ ان کی تکمیل کے ساتھ ہی انڈس ہائی وے کے ذریعے چین اور گوادر کا براہ راست زمینی رابطہ مکمل ہوا۔ جنرل مشرف نے بحیثیت صدر پاکستان چین، قازقستان، کرغیزستان اور ازبکستان کے ساتھ ریلوے اور سڑکوں کی تعمیر کا بھی منصوبہ بنایا جس کی تکمیل سے سنٹرل ایشیا گوادر سے منسلک ہو جائے گا۔ چین کو یہ فائدہ ہوا کہ بحیرہ عرب میں واقع اس بندر گاہ سے اس کے صوبے سنکیانگ کا سڑک کے ذریعے براہ راست رابطہ ہو گا۔ 26 جون2006ء کو صدر مشرف نے سنگیانگ سے حویلیاں تک ریلوے لائن بچھانے کے احکامات جاری کئے جس کا کریڈٹ چند ماہ سے نواز لیگ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ امر سامنے رکھیں کہ پوری دنیا کاچالیس فیصد سے زائد تیل گوادر سے گزرے گا۔ یہی وجہ تھی کی اس وقت تیل سپلائی کرنے والی بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں گوادر میں اپنی اپنی آئل ریفائنریاں قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کر رہی تھیں۔
جنرل مشرف نے عوام کو درپیش توانائی کی ضروریات کو انتہائی کم قیمت پر پورا کرنے کے لئے گوادر میں ایک پلانٹ لگانے کا منصوبہ تیار کرتے ہوئے ایک کنسورشیم قائم کیا جس سے ترکمانستان سے قدرتی گیس کو گوادر تک لا کر یہاں پر لگائے گئے پلانٹس کے ذریعے اس گیس کوایل پی جی میں کنورٹ کرنا تھا، لیکن اچانک ملک بھر میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع ہو گئی اوروہ گوادر جسے2010ء میں بھر پور طریقے سے کام شروع کرنا تھا اچانک آگ، نعروں اور دھویں کے بادلوں میں ٹھپ ہو گیا!