تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-12-2016

داعش کا زوال (آخری قسط)

اس پیش رفت پرالقاعدہ کی قیادت ششد ر رہ گئی۔ اُن سے اتنا اہم اعلان کرنے سے پہلے مشورہ تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ دوسری طرف عراق میں ابھرنے والی اسلامی خلافت یا داعش نے انصار السنت کو ساتھ ملانے سے انکار کردیا تھا۔ القاعدہ کی قیادت زرقاوی کی ہلاکت کے بعد داعش کی اختیار کردہ سمت سے پریشان تھی لیکن اُنہیں یقین تھا کہ عراق کی طرف گامزن‘ عبدالہادی العراقی وہاں پہنچ کرمعاملات سنبھال لے گا۔ تاہم طمانیت کا یہ لمحہ عارضی ثابت ہوا اور عبدالہادی غازیان تب میں گرفتار ہوگیا۔ اُس کی گرفتاری سے ایک دن پہلے داعش وجود میں آئی تھی ۔ اس کی گرفتاری کے ساتھ ہی عراق میں باغیانہ انداز میں سر اٹھانے والی جہادی تحریک کو کنٹرول کرنے کی القاعدہ کی کوشش خاک میں مل گئی ۔ زرقاوی کی شروع کردہ تحریک‘ اب قابو سے باہر ہورہی تھی‘ باقی تاریخ ہے ۔ 
ایک مشہور ترک صحافی‘ روشن سیکرکے مطابق عبدالہادی کی گرفتاری سی آئی اے کی جاسوسی اور نگرانی کا نتیجہ تھی۔ سیکر نے یہ کہانی نومبر 2014 ء میں رپورٹ کی تھی کہ ترکی میں القاعدہ کے ممبران ‘ یلمز اور ریاست اسحق نے ایران کا بارڈر کراس کر کے‘ عبدالہادی اور اس کی فیملی کو بارڈرکراس کرایا اور پھر اُنہیں غازیان تب تک لے گئے جہاں سے اُنہوںنے شام کا بارڈر عبور کرنا تھا۔ اس دوران سی آئی اے الیکٹرانک ڈیوائس کے ذریعے عبدالہادی کو تمام سفر میں ٹریس کرتی رہی تھی؛ تاہم ترک حکام نے اُسے سی آئی اے سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر گرفتار نہیں کیا تھا۔ غازیان تب پولیس کو ملنے والی ایک گمنام فون کال نے اُسے جعلی پاسپورٹ رکھنے کی پاداش میں گرفتار کرادیا۔ یہاں امریکی افسران پریشان ہوسکتے تھے کیونکہ ترکی نے الہادی کی پناہ کی درخواست پر غور کرنا شروع کردیا تھا۔ اُس کا وکیل‘ عثمان قارہان‘ ترکی میں جہادیوںکی طرف سے متعدد بار پیش ہونے کی تاریخ رکھتا تھا اور اُس پر خود بھی دہشت گردی کی حمایت کا الزام تھا‘ تاہم امریکیوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ عبدالہادی کی پناہ کی درخواست مسترد کردی گئی اور اُسے31 اکتوبر 2006 ء کو ترکش ائیرلائن کے طیارے سے کابل بھیج دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر امریکی حکام اُ س کے منتظر تھے ۔آج عبدالہادی گونتاناموبے میں قید اپنے مقدمے کا منتظر ہے،اور اس کا شمار 17 انتہائی اہم قیدیوں میں ہوتا ہے ۔ جنوری 2010 میں ''گونتاناموبے رویو ٹاسک فورس‘‘ نے اُس پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی اور اس کے متعلق بہت سی معلومات(جن کا اس مضمون میں حوالہ دیا گیا ہے) جاری کیں تاکہ کیس کی تیار ی میں ان کی مدد لی جاسکے ۔ 
یہ بات واضح نہیں کہ عبدالہادی عراق جاکر کیا کرنا چاہتا تھا، لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اتنا سینئر ضرور تھا کہ الزرقاوی یا ابو حمزہ کو چیلنج کرسکے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کیا وہ عراق پہنچ کر داعش کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتاتھا؟یا کیا اس جہادی گروہ کے لیڈر‘ اُس کے عراق کے سفر کو پسند کررہے تھے ؟ہوسکتا ہے کہ وہ گروپ کی قیادت پر شب خون مارنا چاہتا ہو ‘ یا اس کی قیادت کو تبدیل کرکے ایسے قائدین کو سامنے لانا چاہتا ہوجو نہ صرف القاعدہ سے وابستگی اختیار کریں بلکہ انصار السنت کے ساتھ بھی الحاق کے لیے تیار ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ انتہائی قدم اٹھانے کی بجائے ‘اپنی فعالیت صرف مشورہ دینے تک ہی محدود رکھے ؟ یہ بھی ممکن تھا کہ اُس کی آمد سے عراق میں جہادیوں کی اپنی صفوں میں وسیع خانہ جنگی شروع ہوجائے ۔ عبدالہادی کے مشن کی مبہم جہت بہت سے سوالات اٹھاتی ہے ۔ غور کرنے سے ان کے جوابات بھی مل جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو 2006 ء میں القاعدہ کا قائم کردہ لاجسٹک روٹ بے نقاب ہوتا ہے ۔ الہادی نے ایران یا ترکی سے براہ ِراست عراق میں داخل ہونے کی کوشش نہ کی بلکہ سینکڑوں میل طویل مسافت طے کرکے شام کی سرحد کے قریب پہنچا۔ بعد میں شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے والے ہزاروں غیر ملکی جنگجو ‘اسی راستے سے گزر کر سرحد پار کرتے رہے ۔ 
تاہم عبدالہادی القاعدہ کا آخری کمانڈر نہیں تھا جس نے عراق پہنچنے کی کوشش کی۔ اس کی گرفتاری کے بعد کم از کم دومزید سینئر جہادیوں‘ آیت عبدالرحمن اور محمد خلیل الحکمہ نے بھی ایسی ہی مسافت اختیار کی ۔ دور فاصلے سے فون یا دیگر مواصلاتی ذرائع سے ابلاغ کرتے ہوئے‘ القاعدہ کو احساس ہوگیا تھا کہ عراق کی صورت ِحال کو کنٹرول کرنے کے لیے وہاں کسی کو قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں لیڈروں کے سفر کی بابت زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن اُنہوں نے آگے بڑھنے سے پہلے ‘ایران میں اپنا کافی وقت گزارا اور پھر وہی راستہ اختیار کیا جس پر الہادی گزرا تھا۔ القاعدہ کی ٹریس ہونے والی اندورنی گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ وہ دونوں مشکلات میں گرفتار ہو گئے ۔ 2008 ء میں محمد بولاد ترک پولیس کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہوگیا‘ چنانچہ القاعدہ کا تر ک نیٹ ورک کمزور ہوگیا ۔ ممکن ہے ایرانی حکام نے اُن کی نقل و حرکت محدود کردی ہو۔ 
داعش کے ساتھ نمایاں ہونے والے رخنے کے باوجود‘ القاعدہ کو عراق میں وفادار گروہوں کی حمایت حاصل رہی ۔ انصار السنت کے بہت سے جہادی آنے والے کئی برسوں تک‘ القاعدہ کے حامی رہے تاہم اُ نہوںنے اس کانام کبھی اختیار نہ کیا۔ عبدالہادی کو ترکی سہولت فراہم کرنے والے یلمز اور ریاست اسحق فرار ہوکر عراق پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ‘ جہاں اُ نہوںنے ایک جہادی گروہ ''کردستان بریگیڈ‘‘ قائم کیا‘ جو دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ اس گروہ نے داعش اور القاعدہ کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوشش کی ۔ ''کردستان بریگیڈ‘‘وہ واحد جہادی گروہ تھا جس نے کھل کر بن لادن اور داعش کی خلافت کی اطاعت کا اعلان کیا لیکن جب ''مفاہمت ‘‘ کی یہ کوشش اُس وقت دم توڑ گئی جب جون 2007 ء میں یلمز اور ریاست اسحق امریکی دستوںکے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے ۔ 
شامی خانہ جنگی شروع ہوئی تو القاعدہ اپنے سینئر جہادی کمانڈروںکو وہاں میدان میں اتارنے میں کامیاب ہوگئی ۔ القاعدہ کے بہت سے سینئر جہادی ''منزل ‘‘ پر پہنچے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت تک ترک سکیورٹی فورسز نے بھی ''آنے جانے والوں سے‘‘ اغماض برتنا شروع کردیا تھا۔ جب القاعدہ کے اہم جہادی شام پہنچ گئے تو اُ نہوںنے افغانستان میں اپنے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے خراسان گروپ تشکیل دیا۔ انہوںنے بھی عبدالہادی کی پیروی کرتے ہوئے ‘داعش کے ساتھ صلح کے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں ناکامی پر‘ ان کی توجہ ایسے گروہوںکی طرف مبذول ہوگئی جو القاعدہ کی طرف جھکائو رکھتے تھے ۔یہ گروہ جبۃ الفتح الشام اور انصار الشام تھے ۔ عراق جنگ کے برعکس‘ جب قر ب وجوار کے ممالک القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے خلاف تھے‘ اب خراسان گروپ کے ممبران کے لیے شام میں داخل ہونا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اُنہوں نے داعش کے خلاف اسٹینڈ لیتے ہوئے ‘مقامی افراد کی حمایت بھی حاصل کرلی ۔ اس سے قطع نظر کہ خراسان گروپ کبھی بھی داعش کو القاعدہ کی اتھارٹی میں نہ لا سکاجو عبدالہادی کا ارادہ تھا لیکن القاعدہ کے سینئر رہنمائوں کی شام میں موجودگی نے بہت سے دیگر باغی گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا۔ اب ان گروہوں کی داعش کے ساتھ بھرپور جنگ ہے ۔ 
ایک حقیقت جو القاعدہ سمجھنے میں ناکام رہی وہ یہ تھی کہ زرقاوی کی تحریک کو عوامی حمایت حاصل ہوگئی تھی کیونکہ اس میں کوئی نمایاں جہادی شخصیت شامل نہ تھی۔ اس سے پہلے اہم جہادی لیڈر ہمیشہ سے سیاسی اور مذہبی شخصیات کو مسترد کرتے رہے تھے ‘ زرقاوی کی تحریک نے ان جہادی لیڈران کوبھی مسترد کردیا تھا۔ عبدالہادی کا عراق مشن اُس کی غازیان تب میں گرفتاری پر ختم ہوگیا لیکن ابومصعب الزرقاوی اور القاعدہ کے درمیان عالمی جہاد کو کنٹرول کرنے کی جنگ جاری ہے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved