جنت کیسے حاصل کرنی ہے اور دوزخ سے کیسے بچنا ہے۔ اس کا طریقہ تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انتہائی فصاحت اور بلاغت سے بار بار بتایا ہے مگر انسانوں کی اِس طرف توجہ بہت کم ہوتی ہے۔ زیادہ توجہ اس طرف ہوتی ہے کہ دُنیا میں دولت کیسے حاصل کرنی ہے‘ شہرت کیسے حاصل کرنی ہے یا اقتدار کیسے حاصل کرنا ہے۔ اِن دنیاوی کاموں کی ترکیب مولا کریم نے اپنے پاس ہی رکھ چھوڑی ہے اور انسان کو اُس کی ناقص عقل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ زندگی بھر لوگوں کی زندگیوں میں غیر متوقع نشیب و فراز دیکھتے رہتے ہیں اور حیرت زدہ ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں جو مثال میرے ذہن میں آتی ہے وہ کراچی ریڈیو سٹیشن پر ساٹھ کی دہائی میں میری تعیناتی کے زمانے کی ہے۔ میں وہاں کچھ عرصہ ڈرامہ پروڈیوسر رہا‘ اور اس دوران میں نے فرعون کے بارے میں سید عابد علی عابد کا تحریر کردہ تاریخی ڈرامہ بھی پیش کیا تھا۔ ظاہر ہے ڈرامہ اس انداز سے لکھا گیا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آواز ڈرامے میں شامل نہیں تھی۔ جیسے "The Message" نامی فلم میں حضورؐ اور اکابر صحابہؓ کو نہیں دکھایا گیا تھا مگر واقعات بیان کر دیئے گئے تھے‘ بالکل اسی طرح عابد علی عابد نے فرعون کی داستان تاریخی ڈرامے میں بیان کی تھی۔
اس تاریخی ڈرامے کی کاسٹ میں سب سے اہم کردار اُس دور کے مشہور ریڈیو ٹی وی آرٹسٹ محمود خاں مودی کر رہے تھے۔ اِن کا نریندر مودی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ غالباً مودی موصوف کا بچپن کا پیار کا نام تھا۔ غالباً‘ مجھے صحیح پتہ نہیں ہے۔ تو محمود خاں مودی کے پاس تو سب سے اہم کردار تھا اور اسی ڈرامے میں سب سے معمولی کردار میں نے ایک نئے آرٹسٹ ایس جاوید اقبال کو دیا۔
اب اِن دونوں فنکاروں کے بارے میں تفصیل بیان کرکے میں وہ مثال واضح کروں گا جو میرے ذہن میں آئی تھی۔
محمود خاں مودی کی آواز بہت اچھی تھی۔ شکل‘ صورت بھی اچھی تھی۔ ٹی وی پر بھی بڑے اچھے کردار ملتے تھے موصوف کو۔ اُس وقت تک ٹی وی پر بلیک اینڈ وائٹ پروگرام ہی ہوتے تھے۔ اس دوران میں کراچی میں ''جھک گیا آسمان‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائے جانے کا اعلان ہوا۔ اُس وقت کراچی میں دو فلم سٹوڈیو ہوتے تھے۔ غالباً ماڈرن سٹوڈیو اور ایسٹرن سٹوڈیوز اُن کے نام تھے۔ بھارتی فلموں کی نقل کرنا تو پاکستان میں عام رواج رہا ہے۔ یہ فلم یا کم از کم اس کا نام ایک بھارتی فلم کی نقل تھا‘ جو 1968ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس وقت تک بھارتی فلموں کی یہاں آمد پر مکمل پابندی لگ چکی تھی‘ لہٰذا کسی کو کم ہی پتہ تھا۔ پھر بھی ریڈیو پر گانوں کے ذریعے معلوم ہو جاتا کہ بھارت میں ''جھک گیا آسمان‘‘ کے نام سے فلم بن چکی ہے۔
پاکستان میں اس فلم کو بنانے والوں نے ابھرتے ہوئے فنکار محمود خاں مودی کو ہیرو کاسٹ کر لیا۔ مودی میاں ریڈیو کم آنے لگے۔ جب کبھی آتے تو گفتگو اس قسم کی ہوتی کہ یہ فلم ریلیز ہو جائے‘ پھر لاہور کے پروڈیوسر میرے پیچھے آئیں گے۔ لاہور اس زمانے میں فلم انڈسٹری کا بہت فعال مرکز تھا۔ آج والا حال نہیں تھا کہ فلموں کے سٹوڈیوز میں ٹی وی ڈرامے بن رہے ہیں اور فلم ایکٹر ترس رہے ہیں کہ کوئی فلم بنائے۔ تو جناب یہ اٹھان تھی ہمارے محمود خاں مودی کی اور سچی بات ہے ہم لوگ بھی بڑی سنجیدگی سے یہ خیال کرتے تھے کہ اگر مودی کی فلم کامیاب نہ ہوئی پھر بھی بطور ایکٹر تو وہ فلمی دنیا میں شامل ہو ہی جائے گا۔
اب جناب دیکھیں۔ ہوا کیا‘ مجھے نہیں معلوم وہ کون لوگ تھے جنہوں نے وہ فلم بنائی کیونکہ جب وہ ریلیز ہوئی تو میں بھی بطور مہمان پہلا شو دیکھنے والوں میں شامل تھا۔ ایکٹنگ یا کہانی تو بعد کی بات ہے اس فلم کی فوٹو گرافی انتہا درجے کی غیر معیاری تھی۔
محمود خاں مودی کا میک اپ اتنا بُرا تھا کہ اس کو پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا۔ مودی کے ساتھ سینما ہال میں اُن کے دوست معروف فنکار طارق عزیز بھی موجود تھے۔ مودی فلم کو انٹرول تک دیکھ کر اس قدر مایوس ہوا کہ اس نے ہاف ٹائم میں اوپر گیلری میں کھڑے ہو کر نیچے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ اس شور شرابے میں بقیہ فلم چلنا شروع ہو گئی۔ محمود خاں مودی فلم چھوڑ کر باہر آ گئے۔ انتہائی پریشان‘ طارق عزیز بھی ان کو تسلی دے رہے تھے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ اس کے ارمان تو لُٹ چکے تھے۔ مودی میاں چونکہ ڈینگیں بھی بہت مارا کرتے تھے لہٰذا لوگ ان سے دل ہی دل میں ناراض بھی رہے تھے۔ ایک صحافی حسن عسکری فاطمی بھی مودی کی کافی شیخیاں سن چکے تھے۔ وہ مودی کو تسلی دینے کے بہانے ان کے قریب آئے اور بولے: یار مودی! تمہارے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔ یار بعض جگہ تو تمہارا چہرہ ایسا لگتا تھا جیسے کسی گھٹیا سی لونڈی کا چہرہ ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ یکدم ایک طرف کو ہو گیا کہ کہیں غصے میں مودی اس کو چانٹا ہی نہ رسید کر دے‘ اور کونے میں جا کر کانپنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مودی کے فلموں میں جانے کے امکانات ختم ہو گئے۔ میں تو کراچی سے ٹرانسفر ہو کر لاہور آ گیا تھا‘ بعد میں پتہ چلا کہ مودی ملک چھوڑ کر ڈنمارک چلا گیا ہے۔
اب آتے ہیں ایس جاوید اقبال کی طرف‘ جس کے پاس عابد علی عابد کے فرعون سے متعلق ڈرامے کا سب سے معمولی کردار تھا۔ کردار یہ تھا کہ فرعون کا قہر دکھانے کے عابد علی عابد نے تحریر کیا تھا کہ وہ ایک اپنے درباری سے ناراض ہو جاتا ہے اور اس کو زندہ جلا دینے کا حکم دیتا ہے‘ اور یہ درباری یا معبود یا معبود کہتا اور چیخیں مارتا مر جاتا ہے‘ لہٰذا ایس جاوید اقبال کو کوئی آدھے منٹ کے لیے یا معبود کہتے ہوئے چیخیں مارتے ہوئے فیڈ آئوٹ ہو جانا تھا۔
ایس جاوید اقبال کا یہ ریڈیو پر پہلا ڈرامہ تھا اور زندگی کی بھی پہلی پرفارمنس تھی۔ موصوف ریڈیو سٹیشن کے ہمارے انگریزی پروگراموں کے ماہر Edward Carrapiett کی سفارش سے آئے تھے۔ اُن کو سب Eddie کہتے تھے۔ Eddie نے مجھے کہا کہ ایک نوجوان لڑکا بہت شوقین ہے ایکٹنگ کا‘ اور وہ ریڈیو میں آنا چاہتا ہے۔ خیر میں نے کہا: بلا لو۔ اگلے روز ایک بہت لمبے قد کا دبلا لڑکا انتہائی صاف کپڑے پہنے میرے پاس آیا۔ آواز میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ میں نے آڈیشن وغیرہ کی ضروری کارروائی وغیرہ کر دی اور Eddie سے کہا کہ افسران بالا سے آڈیشن رجسٹر پر دستخط تم کروا لائو۔ ایڈی کی سب عزت کرتے تھے۔ اتنا اچھا انگریزی کا تلفظ کم ہی ہمارے ہاں کسی کا تھا اور صدر یحییٰ کا انگریزی خطاب جب ہوتا تھا تو اس کا اعلان بھی Eddie کی آواز میں ہوتا تھا۔ بہرحال کارروائی مکمل ہو گئی۔ میں نے Eddie سے کہا کہ کوئی دوسرا ڈرامہ آنے تک انتظار کروا لو اپنے دوست کو مگر اس نے کہا: نہیں‘ اسی ڈرامے میں ڈال دو۔ میں نے کہا کہ تاریخی ڈرامہ ہے‘ ایک معمولی سا کردار ہے۔ اس نے کہا: تم ڈال دو۔ اس طرح ایس جاوید اقبال نے اپنی زندگی کے پہلے ریڈیو ڈرامے میں شرکت کی۔ جب ریکارڈنگ ہو چکی تو ایس جاوید اقبال خود بھی مطمئن نہیں تھا مگر جس طرح اس نے چیخیں وغیرہ ماری تھیں وہ ڈرامے کے حساب سے ٹھیک تھیں۔ وہ ڈرامہ نشر ہو گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد‘ جیسا میں نے پہلے بتایا‘ میرا تبادلہ لاہور ریڈیو سٹیشن ہو گیا۔ یہاں لاہور آ کر غالباً ایک دو برس بعد میں نے ٹی وی کے ایک ڈرامے میں ایس جاوید اقبال کو دیکھا۔ بہت اچھا کردار تھا‘ اور بڑے اچھے انداز میں اس نے پرفارم کیا۔ ٹائٹلز کے ذریعے معلوم ہوا کہ اب اس کا نام جاوید شیخ ہے۔ بعد ازاں جاوید شیخ ہی کے نام کے ساتھ ایس جاوید اقبال فلمی دنیا میں اس طرح چمکا کہ آج وہ ہمارے ملک کے چند کامیاب ترین فنکاروں میں شمار ہوتا ہے۔
اب آپ اس بات غور کریں جو میں نے ابتدا میں تحریر کی‘ کہ خداوند کریم نے جنت حاصل کرنے اور دوزخ سے بچنے کے طریقے تو تفصیل سے بیان کر دیے ہیں مگر دنیا میں دولت، شہرت وغیرہ کی کنجیاں اپنے پاس ہی رکھی ہیں۔ انسان کو بالکل پتہ نہیں ہوتا کہ کب مولا کریم اس پر کرم کر دے اور کب اس کو گمنامی میں ایسے پھینکے کہ لوگ اس کے نام تک سے واقف نہ ہوں۔ آج محمود خاں مودی کو کون جانتا ہے؟ جاوید شیخ کو سب جانتے ہیں۔