پاکستانی سیاست نے گزشتہ چند عشروں کے دوران جو نقش و نگار نکالے ہیں‘ انہیں دیکھ کر آپ‘ آسانی سے آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر کا تصور کر سکتے ہیں۔اس وقت جو کامیاب سیاست دان‘ ابھر کے سامنے آئے ہیں‘اس سے لگتا یہی ہے کہ آنے والے عشروں میں حکومت سازی کا کردار بھی وہی نبھائیں گے۔مجھے تو اس پر کوئی شک نہیں اور آپ کو بھی نہیں کرنا چاہئے۔پاکستانی سیاست اور قیادت کے دو چہرے‘ اب نمایاں ہو کر سامنے آچکے ہیں ۔ ایک ہیں جناب آصف علی زرداری اور دوسرے میاں محمد نوازشریف۔آصف علی زرداری کا دور اقتدار اگرچہ مختصر ہے لیکن اپنی شخصیت کی جتنی گہری چھاپ‘ جوانہوں نے پاکستان کے سیاسی منظر پرثبت کی ہے‘اس کا مقابلہ کوئی دوسرا سیاست دان نہیں کر سکتا۔ دوسرے لیڈرمیں جو چند نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں‘ وہ زرداری صاحب کی ٹکر کے نہیں۔ان کا اپنا ایک سٹائل ہے۔ روایتی سیاست دان ‘رائج الوقت سیاست میں حصہ لے کر آگے بڑھے اور سب نے اپنے اپنے طرز قیادت کی چھاپ ایجاد کی۔
قائداعظمؒ اورنواب زادہ لیا قت علی خان اپنے دور کے نامور سیاست دان رہے ہیں مگر ان کا شمار ہم پاکستانی سیاست دانوں میں نہیں کر سکتے۔یہ اور ہی طرز کی مخلوق تھی۔جس کی سیاست‘ عوام کے مستقبل کو سنوارنے پر ایمان رکھتی تھی۔ قائداعظم ؒنے اپنے دور میں وکالت کے پیشے کو قابل فخر مقام دیا۔ان کی وکالت محض علم نہیں ایک آرٹ بھی تھا اور اس میں عظیم شخصیت کے کردار کی عظمت واضح اور نمایاں تھی۔ پاکستان کی سرزمین نے جو سیاسی میٹریل ہمیں عطا کیا تھا وہ ہمارے ملک کے بانیوں کے لئے ہرگز مناسب نہیں تھا۔ان دونوں کے سامنے ایک عظیم خواب کی تعبیر تھی‘ جس کی انہیں مہلت نہیں دی گئی۔نہ تو مقامی سیاست دان ایسی عظیم قیادت کے اہل تھے اور نہ ہی شاید ہماری قسمت میں عظیم لیڈروں کی رہنمائی لکھی تھی۔اگر ہم کسی قابل ہوتے تو ہو سکتا تھا کہ ہمیں اپنے عظیم قائدؒ کی رہنمائی کا مزید وقت میسر آجاتا۔ میں کئی بار اپنے کالموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ کسی نے قائداعظمؒ کو قتل کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا بلکہ ہمارے معیار ِکارکردگی کا جو روایتی معیار تھا‘ مرحوم قائدؒ اسی کی لپیٹ میں آگئے۔ اگر آج بھی کسی شخص کو شدید بیماری کی پیچیدگیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئٹہ بھیجا جائے تو پاکستان میں آج بھی وہاں مناسب اور تسلی بخش علاج کی امید نہیں کی جا سکتی۔نہ ہی کسی مریض کو کوئٹہ بھیجنے کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ وہاں جدید ترین علاج کے وسائل آج بھی موجود نہیں اور نہ ہی آج سے68سال پہلے کے زمانے میں ہمارے عظیم قائدؒ کو اپنے دور کی معیاری طبی مہارتوں سے استفادہ کرنے کا موقع مل پایا۔یہی صورت حال سفری سہولتوں کی تھی۔کراچی سے کوئٹہ جانے کے لئے کوئی جدید طیارہ دستیاب نہیں تھا۔ہمارے سربراہ مملکت کے لئے بھی ہوائی سفر کی گدھا گاڑی جسے ہم ڈکوٹا لکھتے ہیں‘ وہی ہمارے بیمار اورنحیف و ناتواں قائد اعظمؒ کو میسر آیا۔جو کار ماڑی پور کے ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہائوس لے جانے کے لئے مختص کی گئی‘ وہ راستے میں ہی خراب ہو گئی۔ کراچی میں گرمی کا موسم زیادہ عرصہ رہتا ہے اور دھوپ بھی کڑاکے کی پڑتی ہے۔ اس زمانے میں درخت بھی شاذو نادر ہی دکھائی دیتے تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ شدید دھوپ میںایک کار کے اندر پڑے ایک بیمار اور بوڑھے شخص پر کیا گزری ہو گی؟ کافی تگ و دو اور انتظار کے بعد‘ گورنر ہائوس لے جانے کے لئے نئی کار آئی اور جس کا اذیت ناک سفر ہمارے قائد کی آخری سانسوں کا ساتھی بنا۔گورنر جنرل ہائوس کے خدام اس قابل بھی نہیں تھے کہ ایمرجنسی میں آخری سانسیں لیتے ہوئے‘ قائد کی معیاری خدمت انجام دے سکتے۔منزل تک پہنچتے ہوئے قائداعظمؒ کی جسمانی کمزو ری ان پر غالب آگئی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔یہ ہماری بد قسمتی کی پہلی علامت تھی۔ قائداعظمؒ کے بعد‘ پسماندہ علاقوں کی جو آبادی ہمارے حصے میں آئی‘ وہ بھی تعلیم اور فنی صلاحیتوں سے محروم تھی جبکہ سیاسی قیادت سرداروں‘ وڈیروں‘ زمینداروں اور جاگیرداروں پر مشتمل تھی۔ان طبقوں سے جو سیاسی مہارت حاصل کی جا سکتی ہے‘ وہی ہمیں ملتی رہی۔کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ اگر قدرت نے ہمیں ایک ترقی یافتہ اور منظم قوم بنانا ہوتا تو ہم‘ اپنے ملک کے بانیوں سے ایسا سلوک نہ کرتے؟اپنے قیام کے ابتدائی دور میں جس قوم کو یتیمی کی تاریکیوں میں بھٹکنا پڑ جائے‘ وہ ترقی کی دوڑ میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ جہاں تک قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا سوال ہے‘ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ مگر ہم قدرت کی دی ہوئی کسی بھی نعمت سے‘ مناسب فائدہ نہ اٹھا سکے۔ تاریخ کے طویل سفر کے عین درمیان میں‘ ہمیں ایک موقع نصیب ہوا جب ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک اچھا سیاست دان ملا۔ لیکن بد قسمتی کا زور دیکھئے کہ ہم نے اسے بھی اپنے ہاتھوں پھانسی پر لٹکا دیا۔بھٹو کی شہادت کے بعد‘ ہمارے سیاسی منظر پر ایسی تاریکی چھائی کہ اب کہیں چراغ کی لو بھی دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔
موجودہ سیاست میں دو ٹمٹماتی روشنیاں ‘ ہمیںاندھیروںمیں بھٹکنے کی سزا دے رہی ہیں ۔ ایک کا نام ہے آصف علی زرداری اور دوسرے میاں محمد نوازشریف۔اگر آج کے سیاسی منظر کو دیکھیں تو یہی دو شخصیتیں چھائی ہوئی ہیں۔جو نئی سیاسی پود سامنے آئے گی‘ وہ بھی انہی کے سائے میں پروان چڑھے گی۔ تاریخ کے موجودہ مرحلے میں‘ ان دونوں طاقتوں سے جو کچھ ہمیں مل سکتا ہے ‘ وہی مل رہاہے۔ دولت کہیں بھی ہو‘ ان کی دسترس سے محفوظ نہیں رہتی۔ان کا سٹائل علیحدہ علیحدہ ہو سکتا ہے لیکن ان کی منزل ایک ہے یعنی سرمایہ۔اسے سمیٹ کر اپنی جیب میں رکھنے کے طور طریقے جدا جدا ہو سکتے ہیں۔ ہمارے لیڈروں کی داستانیں سنی جائیں تو آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی منزل اور حصول منزل کے انداز جداگانہ ہیں لیکن ان کا ہدف ایک ہی رہتا ہے ‘ دولت۔ دولت۔ دولت۔ایک دیوانہ وار دولت کا تعاقب کرتا ہے تو دوسرا جنونی انداز میں سرمائے کی طرف لپکتا ہے۔ایک اللہ کی دی ہوئی ساری نعمتیں‘ اہل خاندان کے اندر جمع کرتا ہے تو دوسراگھر سے باہر جھانکنا پسند نہیں کرتا۔
ایک کے مرحوم و مغفور والد صاحب پورے خاندان کو ایک ہی دستر خوان پر بٹھایا کرتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے‘ یہ روایت بھی زندہ رہی لیکن جیسے ہی انہیں‘ موت نے اپنی آغوش میں لیا‘گھر سے اتفاق کی یہ برکت بھی آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگی۔ اس خاندان کے دستر خوان‘ اب الگ الگ بچھتے ہیں جبکہ دوسرافریق‘ خاندان کو یکجا رکھنے کی کوششوں میں نا کام نظر آتا ہے۔خیر و شر کی قوتیں ہر فرد اور ہر خاندان میں یکجا رہتی ہیں لیکن ان کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔آصف زرداری کے طرزِفکر اور نوازشریف کے اندازِ فکر میں خاص فرق نہیں پایا جاتا۔ دونوں ہی اپنے اہل خاندان میں یکساں خرابیاں مساوی طور سے تقسیم کرنے کے خواہش مند ہیں۔اقتدار کیسے تقسیم کیا جا ئے ؟ اس سوال کا جواب ابھی تک دونوں دریافت نہیں کر سکے۔اگر سیاست کے کسی ماہر سے پوچھا جائے کہ دونوں اپنے اقتدار کی تقسیم کیسے کریں گے؟تو زیادہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں۔ دولت ان کے ورثا سے وہی سلوک کرے گی جو یہ اس کے ساتھ کر رہے ہیں۔نہ دولت کسی کی ہوتی ہے اور نہ یہ کسی کے ہوں گے۔حقد اروں اور غریبوں کا شکم کاٹ کر جو کچھ یہ اپنے پاس جمع کرتے ہیں‘ وہ کسی کے کام آیا؟ ان کے کام بھی نہیں آئے گا۔رہ گیا عمران خان تووہ اپنے خوابو ں کی تعبیریں ڈھونڈتا ڈھونڈتا‘ تاریخ کی وسعتوں میں لا پتہ ہو جائے گا۔