تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-12-2016

خادم اعلیٰ کے لیے فائدے کا سودا

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اس عاجز کو حسد سے محفوظ رکھا ہے کہ حسد ایک منفی جذبہ ہے جو سب سے پہلے حاسد کو ہی برباد کرتا ہے۔ لیکن بسا اوقات آپ حسرت ضرور کرتے ہیں۔ ویسے تو حسرت بھی کوئی مثبت فعل نہیں ہے لیکن محرومیاں اور نا انصافیاں بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ انسان اپنی جبلی خصلتوں کے غلبے سے بچ نہیں پاتا۔ لاہور جائیں تو یہی ہوتا ہے۔ میں ملتان آتا ہوں تو لاہوریوں سے حسد محسوس نہیں کرتا ان پر رشک کرتا ہوں۔ کئی سال گزر گئے ہیں لاہور فیروز پور روڈ پر کلمہ چوک تک یا اس راستے سے آنا جانا ہوتا رہا کبھی ایک آدھ بار جانا بھی ہوا تو قینچی سے پیکجز کی طرف مڑ کر ڈیفنس چلے گئے۔ قینچی سے آگے تو جانا ہی نہ ہوا۔ دو دن پہلے لاہور گیا تو ایک عرصے بعد قینچی سے آگے چونگی امر سدھو اور اس سے آگے جانا ہوا۔ یہ سارا سفر میٹرو روٹ کے ساتھ ساتھ تھا۔ لاہور میں بننے والی میٹرو کا جب میں ملتان کی میٹرو سے موازنہ کرتا ہوں تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کسی شہزادے سے کسی مفلوک الحال یتیم بچے کا کیا جائے۔ ملتان میں بننے والی میٹرو اپنے بنیادی عوامل یعنی صرف اور صرف روٹ کی تعمیر کی حد تک میٹریل اور کوالٹی کی حد تک تو ٹھیک ہے بلکہ شاید شاندار ہے کہ ان دو کاموں کی نگرانی نہایت ہی محنتی اور انتھک کمشنر ملتان خود کر رہا ہے لیکن جہاں تک معاملہ ہے ڈیزائن اور اردگرد رہنے والوں کی سہولت اور آسانی کا تو معاملہ صرف دگرگوں ہی نہیں نہایت خراب ہے بلکہ بربادی کی حد تک۔
لاہور میں میٹرو روٹ کا زمینی حصہ جو کلمہ چوک سے گجومتہ تک جاتا ہے۔ خاصا کھلا ہے اور روٹ کے دونوں طرف بیسیوں فٹ چوری سڑک بھی موجود ہے اور سروس لین بھی۔ لیکن اصل بات جگہ جگہ دو طرفہ فلائی اوورز اور چونگی امر سدھو چوک پر چہار طرفہ ٹریفک کو رواں رکھنے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ اوپر گول دائرے میں ہلکی ٹریفک کے لیے ایک ایسا فلائی اوور تعمیر کیا گیا ہے جو کم از کم پاکستان کی حد تک تو میری نظروں سے نہیں گزرا۔
ماڈل ٹائون موڑ پر میٹرو کے نیچے انڈر پاس ہے۔ قینچی سے پہلے دو طرفہ فلائی اوور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آگے ڈیفنس سے کوٹ لکھپت کی جانب ایک اور فلائی اوور ہے۔ تھوڑا سا آگے جائیں تو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں طرف آنے کے لیے میٹرو روٹ کے اوپر ڈبل یو ٹرن والا فلائی اوور ہے اور پھر یہی نقشہ اگلے چوک پر ہے۔ غرض ایک طرف کی ٹریفک کو میٹرو روٹ کے اوپر سے گزر کر یا نیچے سے انڈر پاس کے ذریعے گزر کر دوسری طرف جانے کی جگہ جگہ سہولت فراہم کی گئی ہے۔ بقول چوہدری پرویز الٰہی ''جنگلہ بس‘‘ کے جنگلے کے آر پار جانے کے لیے خادم اعلیٰ نے اپنے دارالحکومت کے رہنے والوں کو ممکنہ حد تک آسانیاں فراہم کرنے کی نہ صرف کوشش کی ہے بلکہ اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ میںیہ سہولتیں دیکھتا ہوں تو مجھے لاہوریوں کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ رشک ایک مثبت جذبہ ہے اور حسد منفی جذبہ۔ ان کا آپس میں موانہ ایسا ہی ہے جیسا لاہور میٹرو اور ملتان میٹرو کا موازنہ۔
ڈیڑھ سال ہوئے یہ منصوبہ شروع ہوا۔ اس کی تیاریاں اس سے مہینوں پہلے شروع ہو گئیں۔ بڑی لے دے ہوئی۔ شہریوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ ملتان کو ابھی فی الوقت ''ماس ٹرانزٹ‘‘ میں مسائل درپیش نہیں ہیں ملتان میں اور بہت سی چیزیں اس پراجیکٹ سے زیادہ ضروری اور فوری طور پر درکار ہیں۔ ملتان میں سیوریج کا مسئلہ۔ لیکن اسے چھوڑیں پہلے ایک لطیفہ نما واقعہ ہو جائے۔
ایک شخص نے اپنے چار پانچ دوستوں کا کھانا کیا اور انہیں لے کر ریسٹورنٹ میں آ گیا۔ ریسٹورنٹ میں آ کر اس نے بیرے کو بلایا اور دوستوں سے پوچھا کہ وہ کیا کھائیں گے۔ دوستوں نے کہا کہ جو اس کے جی میں آئے منگوا لے۔ میزبان نے بڑی شدومد سے یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا اس ریسٹورنٹ میں یہ سہولت ہے کہ آپ انفرادی طور پر آرڈر کر سکتے ہیں اور اپنی اپنی پسند کا کھانا منگوا سکتے ہیں۔ سارے دوستوں نے مینو کارڈ اٹھایا اور اپنی اپنی پسند کا کھانا آرڈر کر دیا۔ ایک نے ویٹر کو کہا کہ اس کے لیے میکسیکن سٹیک لانی ہے اور یہ بیف میں چاہیے۔دوسرے نے چکن شاشلک کا آرڈر دیا ۔ تیسرے نے فش اینڈ چپس آرڈر کیے۔ چوتھے نے پاستا آرڈر کیا اور پانچویں نے کلب سینڈوچ بولا۔ ویٹر مہمانوں سے آرڈر لے کر میزبان کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھنے لگا ۔ سر آپ کے لیے کیا لانا ہے؟ میزبان نے بڑے مزے سے کہا کہ فٹا فٹ جائو اور ہم سب کے لیے چھ پلیٹ آلو گوشت لے آئو۔
ہم ملتانیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ ہمیں سیوریج میں بہتری چاہئے کہ عام دنوں میں بھی شہر کے کئی علاقے سیوریج کے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں اور بارش ہو جائے تو خدا کی پناہ۔ آدھا شہر ڈوب جاتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی سے یعنی گزشتہ پچاس پچپن سال سے لے دے کر ایک نشتر ہسپتال ہے جو اب ملتان اور گردو نواح کے علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مریضوں کا بوجھ اٹھانے کی آخری حد سے گزر چکا ہے اور اس کا سارا سسٹم بیٹھ چکا ہے ہمیں کم ازکم تین بڑے ہسپتالوں کی ضرورت ہے کہ خود شہر کی آبادی گزشتہ ساٹھ سال میں کم از کم دس گنا بڑھ چکی ہے اور میانوالی سے لے کر لورالائی (بلوچستان) اورژوب کے مریضوں کا سارا بوجھ اسی ایک ہسپتال پر ہے۔ ہمیں صاف پانی درکار ہے کہ آلودہ پانی کے طفیل ہر چوتھا شخص ہیپاٹائٹس کا شکار ہے۔ شہر کی سڑکوں کو کھلا کرنے سے ہمارا بہت بڑا اور پرانا مسئلہ حل ہو جائے گا کہ اب اندرون شہر اور پرانے شہر کے اردگرد سرکلر روڈ پر آنا جانا محال ہو گیا ہے۔ اندرونی رنگ روڈ اور بیرونی رنگ روڈ کھلے ہو جائیں ناردرن اورسدرن بائی پاس مکمل ہو جائیں تو ہمارے مسائل اگلے کئی سال کے لیے حل ہو جائیں گے۔ خادم اعلیٰ نے ہماری ساری گزارشات سنیں اور حکم جاری کیا کہ صحت‘ پانی‘ سیوریج اور شہر کی سڑکوں کے مسئلے کو فوری حل کرنے کے لیے بلا تاخیر میٹرو منصوبہ شروع کر دیا جائے۔ سو ہم ملتان والے جب بارش میں ڈوبیں گے میٹرو کے ایلی ویٹڈ روٹ پر چڑھ جائیں گے۔ ہیپاٹائٹس سے بچنے کے لیے ایک ایک بیڈ پر پڑے ہوئے تین تین مریضوں میں سے دو دو مریضوں کو بستروں کی کمی اور علاج میں درپیش مشکلات سے بچانے کے لیے میٹرو بس پر سفر کروائیں گے۔ بیس روپے میں ایئر کنڈیشنڈ بس کا سفر دنیا بھر میں اس سے سستا بہرحال کہیں اور ممکن نہیں۔
ہم ملتان والے جب سے میٹرو منصوبہ شروع ہوا چیخ رہے کہ اب اگر یہ منصوبہ بن ہی رہا ہے تو ہمارے حال پر رحم کریں اور اسے اسی طرح بنائیں جس طرح کی سہولتیں اور آسانیاں لاہور والوں کو بہم پہنچائی گئی ہیں مگر رتی برابر شنوائی نہیں۔ڈیزائن اتنا ناقص اورتھرڈ کلاس ہے کہ لگتا ہے کہ کسی ٹریفک انجینئرنگ سے مکمل نابلد اور سی کلاس کے ڈرافٹس مین نے بنایا ہے۔ ابھی منصوبہ مکمل نہیں ہوا اور خامیاں سامنے آنے لگ گئی ہیں۔ بوسن روڈ پر سارے کے سارے بس سٹیشن سڑک کے کناروں پر اس طرح بنے ہیں کہ پیچھے والی دکانوں کے اندر داخل ہونا ایک جان جوکھوں کا کام بن چکا ہے۔ سو سو فٹ لمبے بس سٹیشنوں نے بیسیوں لوگوں کا کاروبار برباد کر دیا ہے۔ جہاں جہاں بس سٹیشن بنا ہے وہاں سروس روڈ سرے سے ختم ہو گئی ہے اور سروس روڈ تو ایک طرف رہی وہاں پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ تک کی جگہ باقی نہیں بچی۔ سڑک پر چلنے والی یک طرفہ ٹریفک کا نظام درست رکھنے کے لیے اردگرد کی آبادیوں سے نکلنے والی ٹریفک کے لیے ساری سڑک کے کنارے دوطرفہ سروس لین تھی جو ان بس سٹیشنوں کی وجہ سے عملی طور پر بند ہو گئی ہے یا کم از کم ہر سٹیشن والی جگہ پر تو ختم ہو گئی ہے۔
جہاں جہاں یوٹرن ہیں وہاں اکثر جگہوں پر سڑک محض دو رویہ ہے اور گاڑیوں کے ٹرن لینے کی صورت میں ٹریفک مکمل بند ہو جاتی ہے۔ دو جگہوں پرفاسٹ لین بنائی ہے مگر دونوں جگہ ڈیزائن غلط ہے۔ میری ملاقات اس سلسلے میں کنسلٹنٹ سے ہوئی اور اس نے اعتراف کا کہ واقعی ڈیزائن غلط ہے اور اُسے ٹھیک کیا جانا چاہیے مگر آج تین ماہ ہو گئے ہیں کمشنر صاحب سے لے کر کنسلٹنٹ تک سب کو کئی بار ان مسائل سے آگاہ کیا۔ ہر دو افراد نے اس سلسلے میں میرے اعتراضات اور تجاویز سے مکمل اتفاق تو کیا مگر عملی طور پر اس پر صرف ایک مقام یعنی چھ نمبر چونگی سٹیشن پر سائیڈ والی جگہ خالی کروا کر سروس روڈ نکال دی اس کے علاوہ دیگر تمام مسائل اورخرابیاں جوں کی توں ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب خادم اعلیٰ اخبارات میں نشاندہی کیے گئے مسائل بارے فکر مند بھی رہتے تھے اور ان کا حل بھی نکالتے تھے مگر پھر یوں ہوا کہ خادم اعلیٰ بس نام کے خادم اعلیٰ تو رہ گئے عملی طور پر ان کی جگہ پر حمزہ آ گئے مگر عالم یہ ہے کہ حمزہ کی بات ملتان کے مسلم لیگیوں نے نہیں مانی باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اس معاملے پر اگلے کالم میں بات ہو گی فی الحال تو ملتان میٹرو کی بات ہو رہی ہے۔
چھ نمبر چونگی پر فلائی اوور بننا تھا اور عرصہ سے منظور ہو چکا تھا مگر ڈیزائن کے چکر میں دیر ہوتی گئی اور میٹرو درمیان میں آ گئی۔ پھر سب کچھ میٹرو پر لگ گیا اورباقی سب کچھ چولھے میں گیا۔ مدنی چوک والے احتجاج کر کرکے تھک گئے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ سارے ملتان کو وعدہ فردا ٹرخا کر منصوبہ تکمیل کے قریب پہنچا دیا ہے مگر کسی کا مسئلہ حل نہیں کیا۔ جونہی سروس شروع ہو گی لوگ رکاوٹیں کھڑی کریں گے اور احتجاج کریں گے کہ ان کی تکالیف کو کسی نے نہ سننے کی کوشش کی ہے اور نہ دور کرنے کی۔ پراجیکٹ کنسلٹنٹ کے پاس ہر مسئلے کا زبانی کلامی حل ہے جو کاغذ پر بھی قابل عمل نہیں‘ عمومی طور پر حل نکلنا تو دور کی بات ہے۔ میری خادم اعلیٰ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ملتان میٹرو پراجیکٹ کے کنسلٹنٹ کو اس کے سارے کاغذی منصوبوں سمیت لاہور منگوا لیں اور لاہور سے دو تین فلائی اوور یہاں ملتان بھجوا دیں۔ انشاء اللہ اس سے دونوں فریقین کو بڑا فائدہ ہو گا۔ خاص طور پر خادم اعلیٰ کو اس سودے میں بڑا فائدہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved