تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-12-2016

ٹرمپ نے دنیا‘ اور نوازنے ٹرمپ کو حیران کر دیا

'' آٹھ نومبر کو انتخابات جیتنے کے بعد سے اب تک‘ مسٹر ٹرمپ نے 40 غیر ملکی لیڈروںسے بات کی ہے لیکن اُن کی ٹیم نے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی بہت کم تفصیلات ظاہر کیں ۔ ان فون کالز کی وضاحت اُ نہوںنے غیر ملکی رہنمائوں پر چھوڑ دی ہے کہ و ہ اس پر جذباتی خوشی کا اظہار کرتے ہیں یا محتاط لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین مثال‘ بدھ کو سامنے آئی جب پاکستانی حکومت نے ایک بیان جاری کیا کہ وزیر ِ اعظم نواز شریف نے مسٹر ٹرمپ سے بات کرتے ہوئے اُنہیں ''الیکشن جیتنے پر مبارک باد ‘‘ دی ۔حکومت ِ پاکستان نے مزید کہا کہ گفتگو کے آخرمیں صدر ٹرمپ نے کہا''آپ کی ساکھ بہت اچھی ہے ۔ آپ بہت ز بردست انسان ہیں۔ آپ حیرت انگیز کام کررہے ہیں جو واضح دکھائی دیتا ہے ۔ پاکستانی بہت ذہین افراد ہیں‘‘۔بدھ کی رات جاری کردہ ریلیز میں مسٹر ٹرمپ کی ٹیم نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان '' ورکنگ ریلیشن شپ ‘‘ کے حوالے سے'' بامقصد گفتگو‘‘ تھی۔ مسٹر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ'' وہ پاکستانی وزیر ِاعظم‘ میاں نواز شریف کے ساتھ مضبوط اور دیرپا ذاتی تعلقات کی توقع کرتے ہیں۔‘‘
فون کا لز کی تفصیل کو کریدنا شائستہ اقدار کے منافی ہے۔ مسٹرٹرمپ ٹیم کا کہنا ہے کہ اُن کے اور عالمی رہنمائوں کے درمیان ہونے والی تمام بات چیت کو افشا کرنا نامناسب ہے‘ خاص طور پر اُس وقت جب ابھی باراک اوباما ‘امریکہ کے صدر ہیں۔ تاہم اختیار کی گئی خاموشی نے دیگر ممالک کو تبصرے کرنے کا موقع دے دیا ہے۔ اکثر اوقات یہ تبصرے مختلف نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے مسٹر ٹرمپ اور برطانوی وزیر ِ اعظم‘ تھریسا مے کے درمیان ہونے والی فون کال کا محدود سا احوال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ''اُنہوںنے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا کہ نومنتخب صدر کی طرف‘ انتقال ِ اقتدار کن مراحل میں ہے ‘ نیز اُن کی ٹیموں کو دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات قائم رکھنے چاہئیں ۔ اُ نہوںنے توقع ظاہر کی کہ کرسمس سے پہلے ان کے سکیورٹی ایڈوائزرز کی ملاقات ہوگی‘‘۔سعودی عرب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق‘ شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعودنے مسٹر ٹرمپ کو''مبارک باد کا پیغام ‘‘ بھجوایا ہے۔ سعودی حکمران نے اپنے کیبل پیغام میں کہا''میں آپ کو اپنے عوام اور سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے تہہ دل سے مبارک بادکا پیغام بھجواتے ہوئے‘ آپ کی اچھی صحت‘ خوشی اور امریکی عوام کی مزید ترقی اور خوشحالی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔
جنوبی کوریا کی طرف جاری ہونے والے ریلیزنے بہت سے حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس کے مطابق‘ مسٹر ٹرمپ نے صدر پارک گون حی(Park Geun-hye) سے رابطہ کرتے ہوئے کہا: ''ہم شمالی کوریا کی طرف سے‘ برپا کی جانے والی عدم استحکام کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے آپ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں‘‘۔ یہ پیغام اہم ہے کیونکہ اپنی صدارتی مہم کے دوران‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر سیول نے امریکی تحفظ کے عوض زیادہ رقم ادا نہ کی تو امریکہ اس کی فوجی پشت پناہی سے دستبردار ہوجائے گا۔ معاملہ اُس وقت مزید پیچیدگی اختیار کرگیا جب گزشتہ ہفتے‘ مس پارک نے کہا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوسکتی ہیں کیونکہ اُن کا نام بدعنوانی کے سکینڈل کی زد میں آیا ہے ۔ شاید سب کی توجہ ٹرمپ کے روس کے ساتھ تعلقات پر مرکوز ہے ۔ چنانچہ ٹرمپ اور صدر پیوٹن کے درمیان ہونے والی گفتگو کو زیادہ کریدا گیا۔ کریملن کے مطابق‘ اس گفتگو کے دوران ''پیوٹن اور ٹرمپ نے نہ صرف‘ امریکہ اور روس کے حالیہ تعلقات‘ جو بہت نچلی سطح پر ہیں‘ کو بہتر بنانے کی بات کی بلکہ بہت سے معاملات پر مل کر ایک دوسرے کے تعاون سے کام کرنے اور معمول کے تعلقات کے درمیان رخنہ اندازی کرنے والے عوامل کو دور کرنے کے عزم کو دہرایا‘‘۔
اگر منتخب امریکی صدور کی تاریخ نکال کر دیکھی جائے تو ایسا صدر شاید ہی کوئی آیا ہو۔ مسٹر ٹرمپ کی شہرت ایک بے تاب اور بے چین شخصیت کی سی ہے۔ انہوں نے دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں ‘ایک کہنہ مشق اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت‘ ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں جب صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کیا تو امریکہ سمیت‘ دنیا بھر کا میڈیا حیرت کا اظہار کر رہا تھا۔ کسی نے تمسخر اڑایا۔ کسی نے اسے بھونڈا مذاق قرار دیا۔ کسی نے دیوانے کے خواب سے تشبیہ دی۔ کسی نے مسخرہ پن قرار دیا۔ کسی نے فیشن کی دنیا کے معروف تاجر کو‘ صدارتی امیدوار بنتا دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ یہ ہیلری کے مقابلے میںکیا سیاسی ساکھ رکھتا ہے؟ ہیلری نے بھی اسے سنجیدگی سے مقابلے کا امیدوار ہی نہیں سمجھا اور دوسری طرف ٹرمپ صاحب‘ مقابلے میں کودتے رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوںصدارتی امیدوار جب مباحثوں میں آمنے سامنے آئے تو دونوں ہی یہ سمجھ رہے ہوتے کہ میرے مدمقابل امیدوار‘ میرا بھلا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ امریکہ او ردنیا بھر کے ٹی وی ناظرین یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اس بار صدارتی مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ہیلری بآسانی جیت جائے گی۔ فیشن شوکرانے والا سرمایہ دار اور خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کی شہرت رکھنے والا من موجی مسٹرٹرمپ‘ سیاست میں کیا نتائج دے سکتا ہے؟ صدارتی مباحثوں کے دوران‘ ایک موقعے پر مسٹر ٹرمپ نے ہیلری سے کہا کہ ''آپ یہ جو بحث کر رہی ہیں‘ اس کے لئے آپ کی تیاری کیا ہے‘‘؟ ہیلری نے ازرہ مذاق جواب دیا کہ'' میں مطالعہ کرتی ہوں‘‘۔ مسٹر ٹرمپ نے سنی ان سنی کر کے‘ ناظرین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور یہ تاثر زیادہ پھیل گیا کہ ''پتہ نہیں یہ شخص ‘صدارتی مقابلے میں کیوں اترا؟ اس کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ ماہر سیاست دان‘ ہیلری کلنٹن‘ اس کا تمسخر اڑا رہی ہے‘‘۔ اور دوسری طرف یقیناً مسٹر ٹرمپ ‘ اپنی جگہ ہنس رہا ہو گا کہ ہیلری نجانے مجھے کیا سمجھ رہی ہے؟ لیکن جب انتخابی نتائج آئیں گے‘ پھر یہ سمجھے گی کہ میں کیا چیز ہوں؟ اور پھر وہی ہوا۔ انتخابی نتائج سامنے آنے لگے تو امریکہ کیا؟ ساری دنیا حیرت زدہ رہ گئی کہ ہیلری کے مقابلے میں مسٹر ٹرمپ جیت رہے تھے۔
امریکہ میں مسٹر ٹرمپ نے جو بھی شعبدے دکھائے ہوں‘ وہ اپنی جگہ‘ لیکن میاں نوازشریف نے جو ان کے ساتھ کیا ‘وہ انوکھا ہی تھا۔ امریکی صدر‘ منتخب ہونے کے بعد‘ باضابطہ طور پر 20 جنوری سے اپنا منصب سنبھالتا ہے۔ اس سے پہلے‘ اسے صدر نہیں سمجھا جا سکتا لیکن نوازشریف نے ایسا کرتب دکھایا کہ مسٹر ٹرمپ بھی چکرا گئے ہوں گے۔ پاکستان کے ہر دلعزیز وزیراعظم ‘ میاں نوازشریف نے مسٹر ٹرمپ کو ٹیلی فون کر کے‘خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ یہی نہیں وزیراعظم پاکستان کے دفتر سے اس محیر العقول گفتگو کی جو سرکاری پریس ریلیز جاری ہوئی‘ اس میں باقاعدہ منتخب امریکی صدر ‘مسٹر ٹرمپ اور نوازشریف کے باہمی مکالموںکی حیرت انگیز تفصیلات موجود تھیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے‘ جس میں امریکی میڈیا پر ابھی تک بحث چل رہی ہے۔میں صرف یہ عرض کر کے اپنا کالم ختم کررہا ہوں کہ مسٹر ٹرمپ نے دنیا کو جو حیرت میں مبتلاکیا سو کیا‘ ہمارے وزیراعظم نے مسٹر ٹرمپ کو جو حیران کر کے رکھ دیا ‘ ابھی تک وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved