تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     03-12-2016

عمر بھر کی کارگزاری کا صلہ

جب میں نے امریکہ میں لاہور ''دریافت‘‘ کیا اور رامچندر کے دوسرے جنم کی خبر لکھی نور نغمی سکول میں پڑھتا تھا۔اب وہ کئی فلموں کا ہیرو اور ایک بچے کا باپ ہے اور اس نے اس بچے کی شادی بھی کر دی ہے۔ نور نے حلقہ ارباب ذوق‘ شمالی امریکہ کے ماہانہ اجلاس میں‘ جو مجھے عمر بھر کی کارگزاری کا ایوارڈ دینے کے لئے منعقد کیا گیا‘ بتایا کہ امریکی لاہور کو پاکستانی لاہور کا رنگ دینے سے متعلق‘ اورنج کاؤنٹی‘ ورجینیا سے اس کے مذاکرات کامیاب رہے ہیں اور رامچندر پر ایک بین الاقوامی فلم بنانے کا خواب‘ حقیقت میں بدلنے ہی والا ہے۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ میری زندگی میں دونوں منصوبے مکمل ہوں گے اور ان کو مجھ سے منسوب کیا جائے گا۔
میں یہ ایوارڈ نہیں لینا چاہتا تھا‘ کیونکہ اس سے انجام کی بُو آتی ہے‘ مگر شاہ فضل عباس‘ جو اس حلقے کے روح و رواں ہیں‘ تُلے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک بانی رکن کی توقیر کرنی چاہیے‘ جو حلقے کے اجلاس میں چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے جبکہ انٹرنیٹ اس کے تصنیفی اور تالیفی کارناموں سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے کارگزاری پر یہ لائف ٹائم ایوارڈ نہیں چاہیے تھا۔ بہرحال حلقے کا یہ اجلاس ہوا‘ اور اس میں نور کے باپ ابوالحسن نغمی اور ڈاکٹر معظم صدیقی وغیرہ نے میری ''شان‘‘ میں مضامین پڑھے۔ نئی نسل کے پڑھنے والوں کو مختصراً یہ عرض کرتا چلوں کہ ''لاہور‘‘ کا مضمون میں نے 1971ء میں باندھا تھا‘ جب میں پہلی بار کانگریشنل فیلو کی حیثیت سے امریکہ پہنچا تھا۔ یہ مضمون امروز میں شائع ہوا‘ جس نے مجھے فیلوشپ کے لئے امریکہ بھیجا تھا۔ پھر مضمون کا ایک ترجمہ Panorama میں شائع ہوا۔ نور نے یہ مضمون اس زمانے کے اخباری تراشوں کے ایک مجموعے ''نئی دنیا کا مسافر‘‘ سے لیا تھا‘ جو اے حمید مرحوم کی سفارش پر شیخ غلام علی اینڈ سنز نے چھاپا تھا۔ اس زمانے میں ''لاہور‘‘ کھیتی باڑی کرنے والا ایک چھوٹا سا ''پنڈ‘‘ تھا۔ چند سال پہلے جب میں خواجہ عبدالقیوم مرحوم (نیوز فوٹوگرافر) کے ہمراہ اس گاؤں سے گزرا تو اس میں ترقی کی روشنی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے انگریزی میں ''لاہور روڈ‘‘ کی تختی دیکھ کر گاؤں کو پہچانا تھا۔ گاؤں والوں نے قیوم کو بتایا کہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ تین لڑکے یہاں آئے تھے اور کچھ وقت کے بعد شمال اور جنوب سے آنے والے سیاحوں کا ایک تانتا سا بندھ گیا۔ ایک لڑکا تو میں تھا‘ اور دوسرے دو ڈاکٹر محمد ارشد اور ڈاکٹر منظور حسین تھے۔ 
رام چندر کی کہانی ان سرکاری افسروں کے گرد گھومتی ہے جو ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ سفارت خانوں اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لئے پاکستان‘ ہندوستان یا تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں سے واشنگٹن آتے ہیں‘ گھریلو ملازمین کو ساتھ لاتے ہیں اور ڈالر میں انہیں وہی اجرت دیتے ہیں جو وہ اسلام آباد یا نئی دہلی میں دیا کرتے تھے۔ رامچندر مالکن کو قتل کر دیتا ہے۔ اس کے ہمدردوں میں ایک امریکی لڑکی شامل ہے‘ جو اس سے شادی کا ارادہ رکھتی ہے۔ نور نے کہا کہ اسے سکرین پلے مل چکا ہے اور وہ فلم کی شوٹنگ کا عزم رکھتے ہیں۔
نور کے والد ابوالحسن نغمی نے امروز میں رفاقتِ کار کا تذکرہ کیا‘ اور بتایا کہ نئی نسل کے لوگ ''آرگینک فوڈ‘‘ (قدرتی خوراک) کے دلدادہ ہیں اور ایک شخص آج بھی ماں باپ کے گھر میں داخل ہو کر ان کے باورچی خانے پر چھاپہ مارتا ہے اور اسے فرج میں جو ''نان آرگینک‘‘ اشیا دکھائی دیتی ہیں انہیں اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ پاکستان میں سید ادیب انگریزی صحافت سے وابستہ رہا ہے۔ اپنے زمانے کے شاعروں کا کلام اس کی الماریوں میں سجا ہے‘ مگر اسے اْردو ادب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس نے اپنی بیوی دیبا اور بیٹی فرح کو میرے ساتھ حلقے میں بھیجا تھا۔ فرح‘ جارج میسن سے گریجوایشن کے بعد ایک دفاعی کمپنی میں کام کر رہی ہے۔ پنجابی والدین کے گھر پیدا ہونے کے باوجود پنجابی نہیں بول سکتی کیونکہ ماں باپ اس سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ وہ اردو کسی لہجے کے بغیر روانی سے بولتی ہے اور ہائی سکول کرتے ہوئے وہ انجمن ادب اردو (سول) میں اردو میں ایک لیکچر دے کر انعام بھی جیت چکی ہے۔ سول ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر معظم صدیقی ''لاہور کے اہلِ قلم‘‘ ساتھ لائے تھے۔ انہوں نے بطور خاص ''لاہور جیسا کہ وہ تھا‘‘ کا حوالہ دیا اور یہ عبارت پڑھ کر سنائی ''میں نے پینتالیس میل مشرق میں بیاس کے بائیں کنارے پر اپنے آبائی گھر سے لاہور کا سفر کیا تھا۔ وہاں میں اپنے ہمسائے بلدیو کے مکان پر مٹی کے تیل سے جلنے والی ایک لالٹین کی روشنی میں پڑھا کرتا تھا اور ہم دونوں ہم جماعت اگلے امتحان کی تیاری کیا کرتے تھے۔ سن دو ہزار سات میں جب بطور امریکی شہری آبائی گاؤں میں گیا‘ اور بلدیو کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی لدھیانہ کے زرعی شعبے کے ڈین کی حیثیت سے ریٹائر ہوا ہے‘ اور وہیں رہتا ہے مگر وہاں جا کر مجھے ڈاکٹر بلدیو سنگھ ڈھلوں کا پتہ کرنا ہو گا۔ ساٹھ سال میں دنیا بدل گئی تھی اور اس گاؤں میں بجلی بھی آ چکی تھی‘‘۔ ڈاکٹر صدیقی نے میرے ساتھ وی او اے میں گزارے ہوئے ماہ و سال کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ ''نئی دنیا کا مسافر‘‘ کے علاوہ ریٹائر ہونے کے بعد میں نے ''اسلام امریکہ میں‘‘ ''مکہ ڈائری‘‘ اور ''مکہ کا محاصرہ‘‘ تالیف کیں‘ جو دراصل امریکی صحافی یار سلاف ٹرافیموف کی تحقیق ہے اور ''القاعدہ‘‘ کے آغاز کی نشان دہی کرتی ہے۔ 
حلقے کی روایات کے برعکس کتابوں پر تنقید بھی ہوئی لیکن زیادہ توجہ ''مکہ ڈائری‘‘ پر رہی۔
سوال: ایک جگہ آپ نے ''انفرادی اجتہاد‘‘ سے کام لیا ہے۔ آپ کو یہ حق کیسے ملا؟
جواب: مجھے بتایا گیا تھا کہ ان دو اَن سلے سفید پارچوں کے سوا زائر کے تن پر کوئی لباس نہیں ہونا چاہیے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد زیرِ جامہ کے بغیر کبھی کوئی لباس نہیں پہنا۔ یہ میری عادت تھی جس کی خاطر یہ انفرادی اجتہاد کیا۔ میں نے صاف ستھرا ترکیہ کا بنا انڈر ویر نیچے رہنے دیا‘ اس اطمینان کو ساتھ کہ یہ خدا کے سوا کسی کو نظر نہیں آئے گا اور میرا خدا رحمن اور رحیم ہے۔
س: آج اور کل کی صحافت میں کیا فرق ہے؟
ج: میں نے حمید نظامی‘ مرتضیٰ احمد خان میکش اور احمد ندیم قاسمی کو کام کرتے دیکھا ہے۔ ان کے زمانے میں صحافت ایک عبادت تھی‘ اب تجارت ہے مگر اس میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ اخبارات‘ ریڈیو اور ٹیلی وڑن آج میڈیا ہاؤس کہلاتے ہیں‘ اور بڑی بڑی کمپنیوں کے تحت چلتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ دور افتادہ مقامات پر ایک سٹوری کور کرنے کے لئے تین رپورٹر لگا دیتا ہے اور انہیں آمدورفت کے علاوہ ہوٹل کے اخراجات بھی ادا کرتا ہے۔
شاہ عباس نے ایک اعلان کیا‘ جو اہلِ حلقہ کو غمگیں کر گیا۔ قادرالکلام شاعر عزیز قریشی (حیدر آباد‘ دکن) اپنی بیمار رفیقہ حیات نفیسہ کو لے کر اسلام آباد روانہ ہو گئے تھے‘ لیکن اس موقع محل پر دو قطعے لکھ کر ان کے حوالے کر گئے تھے‘ جو انہوں نے پڑھ کر سنائے۔ امریکی ڈاکٹروں نے بیگم قریشی کے مرض کو لاعلاج قرار دے دیا تھا۔ وہاں وہ نومبر کے آخر میں رحلت کر گئیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved