جب ایک بچہ کہتا ہے کہ وہ اپنی کلاس میں بور ہو جاتا ہے ، اور سکول جانے سے انکار کر دیتا ہے تو والدین اس کی بات نہیں مانتے اور اسے سکول بھیج دیتے ہیں۔لیکن جب عمران خان پارلیمانی اجلاس میں شرکت نہیں کرتے کیوں کہ وہ قومی اسمبلی کو دنیا کی بور ترین جگہ سمجھتے ہیںتو کیا ہوتا ہے ۔گزشتہ ماہ ہیرالڈ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کا کوئی مقصد نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق بہت کم اسمبلی جاتے ہیں تو ان کا جواب بھی اتنا ہی بے سروپا تھا۔ ''قومی اسمبلی میں اچھی کارکردگی دکھانا ٹائیٹینک پر پوکر گیم جیتنے کے مترادف ہے۔ جہاز ڈوب رہا ہے اور آپ پتے کھیل رہے ہیں‘‘ پی ٹی آئی کے قائد اکثربرطانوی جمہوریت کی تعریف کرتے ہیںلیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ ہماری اسمبلی کی طرح ہائوس آف کامنز کی کارروائی بھی اکثر اکتا دینے والی ہوتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم برطانیہ میں گرما گرم اور نوکیلی بحث سنیں لیکن وہاں بھی حاضرین زیادہ نہیں ہوتے۔تاہم وہاں کوئی رکن پارلیمنٹ اٹھ کر یہ کہے کہ وہ کارروائی سے تنگ آچکا ہے تو میڈیا اسے نہیں چھوڑے گا۔اس کے حلقے سے بھی سوالات اٹھیں گے ،اگر وہ کام نہیں کر سکتا تو استعفادے کر گھر چلا جائے۔برطانیہ میں ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمانی اجلاس میں شرکت کرنے کے علاوہ اپنے حلقے کے ووٹروں سے بھی ملاقات کرنی ہوتی ہے تاکہ اگر انہیںسرکاری محکموں سے کوئی شکایت ہو تو ان کے علم میں آسکے۔
اگر ایک طالب علم سکول یا کالج نہیں جاتا تو اسے نکال دیا جائے گا تاوقتیکہ اس کے پاس چھٹی کرنے کی کوئی وجہ ہو۔اگر کوئی ملازم کام پر نہیںجاتا تو اسے ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا ۔ شاید ہماری اسمبلیاں ایسے واحد ادارے ہیں جہاں کام کیے بغیر پیسے مل جاتے ہیں۔لیکن کیاتنخواہ کے بھاری بھر کم چیک وصول کرنا ضمیر پر بوجھ نہیں بنتا اگر آپ اس نظام کو ہی بے کار سمجھتے ہیں؟پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں نشستیں رکھنے والی تیسری بڑی جماعت ہے۔ اس کے باوجود اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کرتی۔اس رویے کی وجہ سے حکومت بہت مزے میں ہے۔
در حقیقت عمران خان گلیوں عدالتوں اور ٹی وی ٹاک شوز میںحکومت کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں، کہ اسی میں مزہ آتا ہے۔ یقینا کنٹینر پر کھڑے ہو کر پرجوش ہجوم سے خطاب کرنا پارلیمنٹ میں حدود و قیود کے دائرے میںرہ کر خطاب کرنے کی نسبت زیادہ پرجوش ہو تا ہے ۔پارلیمنٹ میں آپ اپنے حریفوں کو گالیا ں نہیں دے سکتے ۔ آپ کو حدود میں رہ کر بات کرنا ہو تی ہے اور نہ ہی آپ کے پاس لامحدود وقت ہو تا ہے ۔ ایک اور بات، پارلیمنٹ تقاضا کرتی ہے کہ ممبران ڈسپلن اور قوانین کی پیروی کریں اور دیگر ارکان کو واجب تکریم دیں ۔ چنانچہ عمران خان کے لیے اسمبلی سے زیادیہ پریشان کن جگہ اور کوئی ہو نہیں سکتی کیوں کہ وہ کسی کا حکم سننے کے عادی نہیں ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کا پارلیمانی ریکارڈ بھی بہت اچھا نہیں۔ وہ بھی پارلیمان کو برائے نام اہمیت دیتی ہے ۔ وزیر ِاعظم بمشکل ہی کبھی ایوان میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جماعت، حتیٰ کہ جب اہم قانون سازی کا مرحلہ درپیش ہو یا اہم معاملات پر بحث ہورہی ہو، اکثر کورم پور ا کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی موثر اپوزیشن کی غیر موجودگی میںحکومت پر کوئی دبائو نہیں آتا۔ دوسری بات یہ کہ پارلیمنٹ میں آپ کو تنقید بھی تحمل سے برداشت کرنی ہوتی ہے ۔ آپ کو صبر کا دامن تھامتے ہوئے مخالف رائے پر دھیان دینا ہوتاہے ۔ نازیبا الفاظ استعمال کرنے کا آپشن نہیں ہوتا ، چنانچہ خان صاحب کو اس پھیکے ماحول میں ''سواد ‘‘ نہیں آتا۔ اس کے علاوہ قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے دیگر پارٹیوں کے ارکان کا تعاون حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہاں آپ کو کچھ سمجھوتہ کرنا اور لچک دکھانی پڑتی ہے ۔ یہی رویہ پارلیمانی جمہوریت کاحسن ہے ۔ تاہم عمران خان اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں ایسے رویوں کا اظہار کرنے میںناکام رہے ہیں۔
جب ہیرالڈ میگزین کے لیے انٹرویو کرنے والے صحافی نے خان صاحب سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کے انتہائی رویے کا کیا نتیجہ نکلے گا تو عمران خان نے جانا پہچانا جواب دیا۔۔۔''ہاں میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میںصرف انتہائی خطروں کا کھلاڑی ہوں۔ سادہ معاملات مجھے بور کرتے ہیں۔‘‘ اب سیاست کرنے اور ہمالیہ سرکرنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ یہ ایک گیند کاکھیل نہیںکہ چوکا یا آئوٹ۔ ایسے شخص ، جو ایٹمی طاقت رکھنے والی ریاست، پاکستان کا وزیر ِاعظم بھی بن سکتا ہے ، کے لیے ایسا رویہ رکھنا انتہائی تشویش ناک امر ہے ۔
جو لوگ جوا کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں وہ اس کھیل سے چمٹے رہتے ہیں ۔جب وہ ہار رہے ہوں تو اُنہیں ایک امید ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی لمحے جیت سکتے ہیں۔ وہ اس وقت تک اس انتہائی رویے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے جب تک یا تو دنیا بھر کی دولت اُن کی جیب میں آجائے، یا پھراُن کی جیب مکمل طور پر خالی ہوجائے ۔ اس وقت عمران خان کا رویہ ایسا ہی ہے ۔ ہر مرتبہ جب وہ وزیر ِاعظم بننے کے لیے شارٹ کٹ لگاتے ہیں، اور ناکامی کو اپنا منتظر پاتے ہیں تو قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے اپنے رویے پر غور کرنے کی بجائے مزید انتہائی اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 2014 ء میں اُنھوںنے اسلام آبادمیں کئی ماہ پر محیط طویل دھرنے دیے، پھر چند ماہ پہلے اسلام آباد بند کردینے کی دھمکی دی، آج کل وہ سپریم کورٹ میں قسمت آزمائی کررہے ہیں۔
میں کوئی ماہر ِ نفسیات نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ اس کیفیت کو Attention Deficit, Hyperactivity Disorder. Childrenکہتے ہیں۔ جو بچے اس پیدائشی طورپر اس عارضے میں مبتلا ہوں، وہ دیر تک کسی چیز پر توجہ نہیں دے سکتے ۔ بعض اوقات جوان ہوکر بھی یہ عارضہ ختم نہیں ہوتا۔ ایسے مریضوں کو صرف مسکن آور دوائی (Ritalin) دے کر ہی پرسکون رکھا جاتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا ہے کہ خاں صاحب کو خدانخواستہ یہ عارضہ لاحق ہے لیکن اگر وہ وزیر اعظم بن گئے تو میں اپنی جیب سے یہ دوائی خرید کر اُن کی خدمت میں ارسال کروںگا۔