تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     03-12-2016

جیت کس کی ہو گی؟

عقلی واردات ضمنی ہے۔ انسان کا اصل مسئلہ اخلاقی ہے۔ مذہب کا مقدمہ ابتدا ہی سے یہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اسے مذہب کا مقدمہ، اہلِ مذہب نے سمجھا نہ ناقدینِ مذہب نے۔
ندامت کیا ہے؟ اس بات کا اظہار کہ میں غلطی کر سکتا ہوں مگر مجھ میں تلافی کی صلاحیت بھی ہے۔ یہ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان اخلاقی طور پر زندہ ہو۔ تکبر کیا ہے؟ قبولیتِ حق کے راستے میں میری ذات حائل ہو گئی ہے اور میں اس دیوار کو گرانے پر قادر نہیں۔ یہ اخلاق سے تہی دامنی کا اعتراف ہے۔
اہلِ مذہب نے دنیا کے ہر میدان میں مذہب کا مقدمہ پیش کیا۔ دنیا نے سیاسی نظام بنائے تو انہوں نے بھی ایک نظام کے خدوخال واضح کر دیے۔ دنیا نے معاشی نظام بنایا تو انہوں نے بھی ایک متبادل، کم از کم صفحہ قرطاس پر کھڑا کر دیا۔ دنیا نے ایک سماجی نظام پیش کیا تو انہوں نے بھی ایک نظام سماج ترتیب دے دیا۔ یوں مذہب دنیا کے نظاموں کے مقابلے میں ایک نظام کے طور پر استادہ ہو گیا۔ ایک طرف ایک نظام کے علمبردار، دوسری طرف دوسرے نظاموں کے علمبردار۔ یہ سعی کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی مگر اس کے نتیجے میں زمین دو عصبیتوںکے مابین معرکے کا میدان بن گئی۔ ایک مسلم عصبیت، ایک غیر مسلم عصبیت۔ صف بندی ہو گئی۔ اور اگر نہیں ہوئی تو کچھ لوگوں کی سرتوڑ کوشش ہے کہ ہو جائے۔
اس سارے سفر میں کسی کو لمحہ بھر یہ خیال نہیں آیا کہ مذہب کا اصل مقدمہ تو یہ تھا ہی نہیں کہ وہ کوئی نظام ہے۔ اس کا اصل مقدمہ تو اخلاقی ہے۔ وہ تو ابنِ آدم کے اخلاقی وجود کی تطہیر چاہتا ہے۔ یہ تو آدم کی داستان ہی سے واضح کر دیا گیا تھا۔ یہ داستان ہر عہد میں دہرائی گئی۔ یہ انجیل میں لکھی گئی اور قرآن مجید میں بھی۔ اس کا مخاطب ہر قوم بنی۔ بنی اسرائیل بھی اور بنی اسماعیل بھی۔ پھر تمام بنی نوع آدم۔ سب کو قصہ آدم و ابلیس سنا کر، مذہب نے اپنا مقدمہ واضح کیا۔ نظام انسانی سماج کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ انسان ہر دور میں نظام بناتا رہا ہے۔ مذہب کو اس نظام سازی سے صرف اتنی دلچسپی ہے کہ اس کے نتیجے میں انسان کا اخلاقی وجود برباد نہ ہو۔ اہلِ مذہب نے چھلکے کو اصل جانا اور مغز کو نظر انداز کیا۔
آج مذہب ایک نظام ہے۔ نظام سازی عقل و خرد کا موضوع ہے۔ انسان کا تجربہ اور مشاہدہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے، نظام بھی بنتے اور بگڑتے گئے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ جنہوں نے 'اختتامِ تاریخ‘ کا نظریہ پیش کیا، انہیں بھی اپنی غلطی ماننا پڑی۔ آخری انسان؟ زندگی اگر رواں دواں ہے تو یہ تصور حماقت ہے کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں۔ مذہب کو اس بحث میں اصل متن کا حاشیہ بنا دیا گیا۔ ایک ارفع شے کو ایک ادنیٰ شے کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا یہی نتیجہ نکل سکتا تھا۔ یہ عقل و خرد کا میدان ہے۔ اس میں غلطی کا امکان کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں کہ یہ ارتقا کا چلن ہے۔ حادثہ تو مذہب کے ساتھ ہوا کہ اس کا اصل مقدمہ ان بحثوں میں گھِر گیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اہلِِ مذہب، اپنی مذہبی عصبیت کے بارے میں جتنے حساس ہیں، اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں اتنے ہی غیر حساس اور لاپروا ہیں۔ یہ مذہب کے ساتھ پیش آنے والا سب سے بڑا سانحہ ہے۔
غیر مذہبی لوگوں کا المیہ تو اِس سے سنگین تر ہے۔ وہ تو یہ جان ہی نہیں پائے کہ انسان کا اصل مسئلہ اخلاقی ہے۔ وہ ایک مشاہدے سے دوسرے مشاہدے‘ اور ایک تجربے سے دوسرے تجربے میں داخل ہوتے گئے۔ خدا کے وجود کے بارے میں تشکیک پیدا ہوئی تو ناگزیر نتیجے کے طور پر مذہب کی تعلیمات مشکوک ہو گئیں۔ یہ چراغِ راہ بجھا دیا گیا تو محض عقل و خرد سے راستہ تلاش کرنے کی کوشش ہوئی۔ یہ کوشش کبھی خدا کے وجود کے انکار پر منتج ہوئی اور کبھی افادیت پسندی (Utilitarianism) پر۔ ہر پگڈنڈی پر چلتے چلتے منزل ہاتھ نہ آئی تو اندازہ ہوا کہ کسی نظامِ اخلاق کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہے‘ نہ معاشرے کا۔ 
محض عقل سے اس مسئلے کو سلجھانا چاہا تو انسان دوستی (Humanism) کے نام سے ایک اخلاقی نظام ترتیب پایا۔ اب جس فکر کا ماخذ طبیعیات میں ہے، وہ ما بعدالطبیعیات کے مسائل کیسے حل کر سکتا ہے؟ اخلاق کی اساس انسان کے مابعدالطبیعیات میں ہے۔ اس کا حل کہیں اور تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ یوں الحاد انسان کے اخلاقی مسئلہ کا کوئی حل پیش نہیں کر سکا۔ لبرل ازم کی اخلاقیات کے مظاہر ابو غریب سے لے کر افغانستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔
غیر مذہبی لوگوں نے جب مذہب پر تنقید کی تو اکثریت مذہب کا مقدمہ سمجھنے میں اسی غلطی کا شکار ہوئی جس میں خود اہلِ مذہب کی اکثریت مبتلا ہوئی۔ انہوں نے مذہب کو ایک نظام سمجھا۔ نظام جیسے بیان ہوا، عقل و خرد اور طبیعیات کا موضوع ہے۔ یوں سارے گھوڑے اس وادی میں دوڑائے گئے۔ مذہب پر تنقید کے لیے لازم تھا کہ مذہب کا اصل مقدمہ سامنے رکھا جاتا۔ یہی کہ اس کے پیشِ نظر انسان کی اخلاقی تطہیر ہے۔ انسان کو، پسِ مرگ وجود میں آنے والی اس ریاست کی شہریت کے قابل بنانا 'جہاں کوئی حزن ہو گا اور نہ ملال‘۔ مذہب کی تعلیمات میں اسے کبھی خدا کی بادشاہی کہا گیا اور کبھی جنت۔
آج زمین پر جو عذاب اُترا ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہے: انسان اپنی اخلاقی تطہیر سے بے نیاز ہو چکا۔ وہ مذہبی آدمی ہے یا غیر مذہبی۔ وہ فرد ہے یا قوم، اخلاق اس کا ضمنی مسئلہ ہے۔ یوں مذہب کے علمبرداروں سے خیر کا صدور ہو رہا ہے نہ غیر مذہبی عناصر سے، الا ماشااللہ۔ جو اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں حساس ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے فائدے کے لیے بھی انسانی جان نہیں لے سکتا۔ وہ کسی انعام کے لیے زمین میں فساد برپا نہیں کر سکتا۔ وہ اخلاقی رذائل سے دور رہتا ہے۔ مذہبی آدمی اس وقت اخلاق کے معاملے میں حساس ہو سکتا ہے جب وہ جانتا ہو کہ مذہب کا مقدمہ اصلاً کیا ہے۔ وہ اگر مذہب پر ایمان رکھتا ہے تو کیوں؟ غیر مذہبی آدمی اس وقت حساس ہوتا ہے جب وہ اپنی فطرت میں موجود خدا کے الہام سے روشنی پاتا ہے، جسے شاید وہ شعوری طور خدا کی عطا نہ سمجھتا ہو؛ تاہم وہ فطرت کی آواز سننے پر ضرور آمادہ ہے۔ وہ اپنے اندر سے اٹھنے والی اس صدا پر کان دھرتا ہے جو بتاتی ہے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا۔
دلیلوں کے انبار ہیں اور عقل و خرد کی معرکہ آرائی ہے۔ بہترین وکیل تلاش کیے جا رہے ہیں جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کر سکیں۔ جو اس کام میں جتنا ماہر ہے، اس کے دام بھی اتنے ہی زیادہ ہیں اور شہرت بھی اسی پر سایہ فگن ہے۔ مذہب کا معرکہ ہو یا سیاست کا، آرزو یہی ہے کہ میرا گروہ غالب رہے یا میرا مفاد۔ اس معرکہ آرائی میں، اخلاقی وجود کی بقا کا خیال کسی کو نہیں۔ اب یہ بات بے معنی ہے کہ جیت کس کی ہوتی ہے اور ہار کس کی... دونوں صورتوں میں انجام وہی ہونا ہے جو اخلاق سے بے نیازی کا ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved