پہلی کتاب میں ماضی کے ممتاز افسانہ نگار غلام عباس کے تین مجموعوں آنندی‘ جاڑے کی چاندنی اور کن رس کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چار مزید کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔ اسے ندیم احمد نے ترتیب دیا اور کولکتہ سے رہروان ادب نے چھاپ کر قیمت800روپے رکھی ہے۔ گٹ اپ شاندار ہے اور انتساب فیصل جعفری اور انتظار حسین کے نام ہے جس کے نیچے میرؔ کا یہ شعر درج ہے ؎
یہ سُنا تھا میرؔ ہم نے کہ فسانہ خواب لا ہے
تری سرگزشت سُن کر گئے اور خواب یارابی
سب سے زیادہ قابلِ توجہ اس کا پسِ سرورق ہے جو شمس الرحمان فاروقی کی تحریر سے سجا ہے۔ لکھتے ہیں:
''غلام عباس گزشتہ نسل کے بہت نمایاں افسانہ نگار تھے۔ ان کے قدر دانوں میں محمد حسن عسکری اور انتظار حسین جیسے لوگ بھی تھے۔ علاوہ بریں الحمرا کی کہانیاں لکھ کر(میں ترجمہ کر کے نہیں کہہ رہا ہوں کیونکہ ان افسانوں میں خود غلام عباس کی طبیعت کی اپچ بھی پُوری طرح کارفرما ہے) غلام عباس نے میری نسل کے لوگوں کو بھی اعلیٰ درجے کی اُردو سے روشناس کرایا تھا۔ بلکہ کچھ عرصہ تک تو الحمرا کی کہانیوں کی شہرت غلام عباس کی شخصیت سے بے نیاز ہو گئی تھی۔ یعنی پڑھنے والوں کو وہ کہانیاں یاد تھیں لیکن غلام عباس کا نام انہیں یاد نہ تھا۔ غلام عباس نے افسانہ نگاری کے کئی مراتب طے کیے لیکن افسوس یہ رہا کہ ایک افسانے''آنندی‘‘ کی غیر معمولی شہرت نے غلام عباس کے بقیہ کارناموں پر ایک طرح سے پردہ ڈال دیا۔ بالخصوص ہندوستان میں تو غلام عباس آنندی ہی کے حوالے سے جانے جاتے تھے‘‘۔
''ندیم احمد نے غلام عباس اور اُردو افسانے کی بڑی خدمت انجام دی ہے کہ انہوں نے غلام عباسؔ کے بارے میں چند اہم تنقیدی مضامین یکجا کر دیے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ پُوری چھان بین اور محنت کے بعد اُنہوں نے غلام عباس کے تمام افسانے بھی اس کتاب میں جمع کر دیے ہیں۔ یہ کتاب غلام عباس پر بڑی حد تک حرفِ آخر کا حکم رکھتی ہے‘‘۔کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے یعنی تمہید‘ ندیم احمد کا مقدمہ‘ اپنے بارے میں از غلام عباس‘غلام عباس از پریم ناتھ در‘ غلام عباس کے افسانے از محمد حسن عسکری‘ غلام عباس از ن۔م۔ راشد‘ غلام عباس کا افسانوی ادب از فیصل جعفری اور غلام عباس :جاڑے کی چاندگی از آفتاب احمد خاں۔
کتاب کے مرتّب ندیم احمد کا مختصر تعارف بھی اندرون سرورق درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے: ''ندیم احمد1979ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اِن دنوں وہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر اور شعبے کے صدر ہیں۔ محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی سے اثر پذیری نے انہیں نظری تنقید کی طرف مائل کیا۔ ان کا شمار نئی نسل کے ان نمائندہ نقادوں میں ہوتا ہے جنہیں نظری تنقید کے مسائل سے دلچسپی ہے اور جو ادب اور تہذیب کے آپسی رشتوں کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور عالمی ادب پر ان کی نظربڑی گہری ہے۔ کلاسیکی شعریات کے علمیاتی اور وجودیاتی تصورات پر زبردست قابو رکھنے والے ندیم احمد کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ''بازیافت‘‘ 2005ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے انشاء اللہ خاں انشاء کے فن اور شخصیت پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں ''غزالِ شب‘‘ (2013ئ) ‘تعصبات اورتنقید (2014ئ) نہایت ہی اہم ہیں۔ کلیاتِ غلام عباس کے ذریعہ ندیم احمد نے ترتیب و تہذیب کا ایک ایسا معیار قائم کیا ہے جس کی مثال ڈھونڈے سے ہی ملے گی‘‘۔
یہ کتاب ہمیں امین اختر فاروقی اُردو ماہنامہ شب خون‘ 313رانی منڈی الٰہ آباد کی وساطت سے موصول ہوئی ہے جو غالباً شمس الرحمان فاروقی صاحب کے عزیز ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فاروقی صاحب کی طبیعت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں ہے‘ اُن کے لیے دُعائے صحتیابی۔
خاک کی مہک از ڈاکٹر ناصر عباس نیّر
یہ ہمارے مہربان دوست اور جدید اردو ادب کے نامور نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت700روپے رکھی ہے۔ اس کے حوالے سے سب سے پہلے دو فروعی سی باتیں: پہلی تو یہ کہ کتاب کے نام ''خاک کی مہک‘‘ میں عیبِ تنافر پایا جاتا ہے اور اس لیے اسے خاکی مہک ہی پڑھا جائے گا۔ دوسرے‘ خاک فارسی کا لفظ ہے اور مہک اُردو کا۔ اگر ڈاکٹر صاحب اس کا نام مٹی کی مہک رکھتے تو یہ خالص اردو میں بھی ہوتا اور ہلکی سی ایسٹریشن کی خوبصورتی بھی‘ دو ''میموں‘‘ کی وجہ سے اس میں آ جاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم شاعروں کے ساتھ ساتھ نثر نویسوں کو بھی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک برادرانہ بے تکلّفی بھی ہے‘ اس لیے اس کا فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ تنقید کی بھاری بھرکم زبان لکھتے لکھتے انہیں یہ عام فہم زبان لکھتے ہوئے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ نقاد حضرات کے بارے میں زیادہ تر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تنقید کے علاوہ شاعری یا فکشن وغیرہ میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے ہوں گے‘ جیسے کہ ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی ہیں جو تنقید کے ساتھ ساتھ شاعر اور ایک مانے ہوئے فکشن رائٹر بھی ہیں۔ ناصر عباس نیّر کا چونکہ پہلے کوئی افسانہ کسی رسالے وغیرہ میں پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اس لیے یکدم اس افسانوی مجموعے کا آ جانا ایک خوشگوار حیرت کا باعث ضرور ہے۔
کتاب کا انتساب خاک کے اس ٹکڑے کے نام‘ جس کی مہک نے یہ کہانیاں لکھوائی ہیں اس میں کوئی مقدمہ یا دیباچہ شامل نہیں ہے۔ آغاز میں مولانا جلال الدین رومی کا یہ شعر درج ہے ؎
در بہاراں کے شود سرسبز سنگ
خاک شد تا گل روید رنگ رنگ
اس کے بعد ورجینیا وولف کا یہ قول جو ان کی کسی تحریر سے اخذ کیا گیا ہے: فکشن مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو شاید ذرا سا اٹکا ہوا ہے‘ مگر چاروں طرف سے زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ وابستگی مُشکل ہی سے سمجھی جاتی ہے۔
کتاب میں کل9کہانیاں ہیں جبکہ آخری کہانی بعنوان حکایات جدید و مابعد جدید کے عنوان سے ہے جس میں چار کہانیاں شامل ہیں یعنی بش سنگھ مرا نہیں تھا۔ بُو آئی کہاں سے‘ ستّر سال اور غار اور واللہ اعلم۔
پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور ان افسانوں میں سے مختصر اقتسابات دیئے گئے ہیں جبکہ آخر میں مصنف کا مختصر تعارف درج ہے۔ افسانے مجموعی طور پر دلچسپ اور قاری کو بعض معاملات پر سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
آج کا مطلع
میں سانس لے نہیں سکتا‘ ہوا مخالف ہے
رُکا ہوا ہوں کہ خود راستہ رکاوٹ ہے