صوبۂ سندھ کی اسمبلی نے قبولِ اسلام کے بارے میں ایک ایکٹ پاس کیا ہے ،جسے ''امتناعِ قبولِ اسلام ایکٹ‘‘ کہنا بہتر ہوگا ۔اس ایکٹ کی رُو سے قرار دیا گیا ہے :''18سال سے کم عمر میں کوئی غیر مسلم اسلام قبول نہیں کرسکتا ‘‘۔ مزید یہ کہ :''جو غیر مسلم 18سال کی عمر میں اپنی آزادانہ مرضی سے اسلام قبول کرے، تو وہ 21دن تک اس کا اعلان نہیں کرسکتا ‘‘۔
ہماری نظر میں یہ بِل دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 2، 2A،8،20، 31اور 227کے منافی ہے ۔آرٹیکل31ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کے بارے میں سازگار ماحول پیدا کرے۔ آرٹیکل 2Aاور227ریاست کو قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کا پابند کرتا ہے ۔شریعت کی رُو سے جب کوئی ذی شعورشخص اپنی آزادانہ مرضی سے صدقِ دل کے ساتھ کلمہ پڑھ لے ،تو وہ مسلمان ہوجاتا ہے ،اس کے لیے ریاست کی منظوری کہیں بھی شرط نہیں ہے ۔ شریعت اسلام کے اظہار پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی ، سوائے اس کے کہ کسی کے لیے انتہائی جبر واکراہ کی صورت پیدا ہوجائے۔ اسی طرح شریعت میںاسلام قبول کرنے کے لیے 18سال کی عمر یا بلوغت شرط نہیںہے ۔حق و باطل ،خیر وشر اور نیک وبد میں تمیز کی صلاحیت رکھنے والے کسی بھی باشعور شخص کے اسلام قبول کرنے پر شرعاً اور قانوناً کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ۔ویسے بھی بلوغت کے لیے 18سال عمر مقرر کرنا شریعت کی رُو سے لازم نہیں ہے، شریعت میں بلوغت کے لیے اوربھی معیارات اور علامات ہیں ۔کسی کو اسلام قبول کرنے سے روکنا ،اُس کے کفر پر راضی ہونا ہے اور فقہی اصول ہے کہ ''رضا علی الکفر‘‘ کفر ہے ۔
ہماری رائے میں جن اسمبلی ممبران نے 'امتناعِ قبولِ اسلام‘‘کا یہ قانون منظور کیا ہے ، انہوں نے اپنی عاقبت کی بربادی کا سامان کیا ہے ،ان پر لازم ہے کہ اس پراللہ تعالیٰ سے توبہ کریںاوراپنی غلطی کا ازالہ کریں ۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان اورگورنر سندھ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی ذمے داری ہے کہ وہ اِس قانون کی توثیق نہ کریں اور اِسے نظرِ ثانی اور قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے واپس اسمبلی کو بھیجیں ، کیونکہ یہ ایکٹ آزادیٔ مذہب اور حقوقِ انسانی کے بھی منافی ہے ، اپنے مذہب کے اظہار کے لیے کسی پر قانونی پابندی عائد کرناشریعتِ اسلامی اور پاکستان کے آئین کے خلاف ہے ۔وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
جہاں تک جبراً مسلمان بنانے پر تعزیری سزا مقرر کرنے کا تعلق ہے ،اُس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔لیکن رہا یہ سوال کہ آیاکسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے ، یہ طے کرنا عدالت کا کام ہے ،یہ کسی انتظامی افسر کا دائرۂ اختیار نہیں ہے ۔ عدالت میں کسی بھی الزام کے ثبوت کے لیے اقرار یاشہادت یاعدالت کے نزدیک قابلِ قبول قرائن وشواہدکا پیش کرنا ضروری ہوتا ہے ، یہ بازیچۂ اطفال نہیں ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جنابِ بلاول بھٹو زرداری اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ کسی غیر مسلم کو بھی پاکستان کا صدر یا وزیرِ اعظم بنایا جائے ،ہمیں اُن کی اس خواہش پر حیرت ہے ۔ وہ اپنے آپ کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا سیاسی وارث سمجھتے ہیں اور انہیں اس حقیقت کا علم ہی نہیں کہ جنابِ بھٹو مرحوم کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں پارلیمنٹ نے مکمل اتفاقِ رائے سے اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور کی منظوری دی تھی۔پھر انہی کے دور میں دستور کی دوسری متفقہ ترمیم کے ذریعے منکرینِ ختمِ نبوت یعنی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیاتھا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے جَدوَل سوم میں صدر اور وزیرِ اعظم کا جو حلف نامہ درج ہے،اُس میں اسلام کے بنیادی عقائد اور ختمِ نبوت کا اقرار بھی شامل ہے۔یہ ساری پیش رفت پاکستان پیپلز پارٹی اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ایک اعزاز ہے۔لہٰذا جنابِ بلاول بھٹو کی سیاسی تربیت پر مامور پیپلز پارٹی کے سینئررہنمائوںسے میری گزارش ہے کہ وہ بلاول صاحب کو فرصت کے لمحات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا مطالعہ کرائیں۔وہ سیاسی رہنما جو پاکستان میں حصولِ اقتدار کی تگ ودو میں شامل ہیں اور منصبِ صدارت یا وزارتِ عظمیٰ تک رسائی اُن کا خواب ہے، انہیں دستورِ پاکستان کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے ، کیونکہ کسی بھی ملک میں وہی سیاسی جماعت قانونی قرار پاتی ہے جو اُس ملک کے دستور کو تسلیم کرے ، اُسے سربلند رکھنے کا عزم کرے اور اُسے لفظاً ومعنیً دستور کے مندرجات کا فہم بھی ہو۔
صوبۂ سندھ میں ہندومذہب کے ماننے والوں کے لیے حکومت نے سرکاری چھٹی کا اعلان کیا ، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جنابِ بلاول بھٹو زرداری نے ہندوئوں کی مذہبی تقریب میں شرکت کی اور اُن کی رسوم کو ادا کیا ، اُن کا یہ طرزِ عمل ہمارے لیے حیرت کا باعث ہے۔ دوسرااہم واقعہ ایک قومی اخبار میں 24نومبر کو حیرت انگیز انکشافات پر مشتمل جنابِ انصار عباسی کا کالم ہے ،وہ لکھتے ہیں:
''یوایس کمیشن برائے بین الاقوامی آزادیٔ مذہب ‘‘ اور ''پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن پاکستان‘‘کے اشتراک سے ایک تحقیقی رپورٹ مرتب ہوئی ہے ،جس کے مندرجات انتہائی حد تک خطرناک ہیں، اس کے مندرجات سے عیاں ہے کہ اِس کے مرتّبین کے ذہنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ریاستی مذہب اسلام کی حقانیت کے بارے میں انتہائی تعصب بھرا ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک (مقبول )دین صرف اسلام ہے ، (آل عمران:19)‘‘۔فرمایا: ''اورجو اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا ، تووہ اُس سے ہرگز قبول نہیں کیاجائے گا،(آل عمران:85)‘‘۔ اسلام تو دینِ حق ہے اور دستور کی رُو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی مذہب ہے اورآئین کی رُو سے اِس کا تحفظ اور فروغ ریاست کی ذمے داری ہے۔اسلام کی حقانیت تو مسلَّمہ ہے، انسان کی جبلّت تو یہ ہے کہ باطل مذاہب کے ماننے والے بھی اپنے اپنے مذہب کو ہی برحق جانتے ہیں ، خواہ وہ حقیقت کے خلاف ہو ۔اس رپورٹ کی رُو سے مسلمانانِ پاکستان کا اپنے دین اسلام کو ''واحد مبنی بر حق ‘‘دین سمجھنا ایک منفی قَدر ہے اور اہلِ پاکستان کو اس پر شرمسار ہونا چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے :
''سرکاری اسکولوں کی نصابی کتابیں ، جو اکتالیس لاکھ سے زائد بچوں تک پہنچتی ہیں، وہ اسلام پر مبنی نقطۂ نظر کو بطورِ واحد جائز اورقابلِ قبول سوچ ظاہرکرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کی منفی اور دقیانوسی انداز میں تصویر کشی کرتی ہیں‘‘۔ اسلام تو درکنار،اِ س تبصرے کی رُو سے ہر صاحبِ مذہب کے لیے اپنے مذہب کو ''واحد مبنی بر حق دین ‘‘سمجھنا جرم قرار پائے گا۔زمین پر موجود انسانوں کی غالب تعداد کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ ہے اوراِس رپورٹ کی رُو سے وہ سب قابلِ ملامت ہونگے ۔مذکورہ رپورٹ کی رُو سے اسلام کوپاکستان کی کلیدی خصوصیت اور شناخت کے طور پر پیش کیا جانا ، مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تنازع کا سبب ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
''پاکستان کے مذہبی تنوُّع کے باوجود ، پورے نصاب میں اسلام کو پاکستان کی کلیدی خصوصیت اور پاکستان کی شناخت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، یہ مذہبی اقلیتوں کے مذہبی عقائد کے ساتھ تنازُع میں آتا ہے ‘‘۔غور کا مقام ہے کہ اسلام کو پاکستان کی شناخت قرار دینا ، یہ دوسرے مذاہب کے ساتھ تنازع کا سبب ہے ، یہ سوچ بیمار ذہنیت کی علامت ہے اور اس سے عیاں ہے کہ اس رپورٹ کے پسِ پردہ مقصد ''وَحدتِ اَدیان ‘‘کے نظریے کو فروغ دینا ہے۔ ریاستِ پاکستان کااپنے مذہب سے لاتعلق ہونا کس طرح ممکن ہے ؟
رپورٹ کے مرتّبین کی خواہش ہے کہ پاکستان کی تاریخ بدل دی جائے ، تحریکِ پاکستان ا ور قیامِ پاکستان کے اَغراض ومقاصد کو پسِ پشت ڈال دیا جائے ، پاکستان اپنے ماضی سے نظریاتی رشتہ توڑ دے اور اِس کے لیے معاشرتی علوم ، مطالعہ پاکستان اور تاریخ کے نصاب کو بدل دیا جائے،کیونکہ اُن کی نظر میں یہ نصاب تنازعات کو بیان کرتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
''معاشرتی علوم ،مطالعہ پاکستان اور تاریخ کے نصاب میں طلبہ کو تاریخ کی وہ قسم پڑھائی جاتی ہے جو پاکستان کے قومی اور اسلامی تشخُّص کو فروغ دیتی ہے اور اکثر مذہبی لحاظ سے بھارت کے ساتھ تنازُعات کو بیان کرتی ہے‘‘۔رپورٹ کے مرتّبین اس لیے بھی نالاں ہیں کہ مسلمانانِ پاکستان محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور اُن کا ذکر فخر کے ساتھ کرتے ہیں ، اُن کی نظر میں یہ شِعار ناقابلِ قبول ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
'' تمام سطحوں کی نصابی کتب میں بار بار ابھرتا رجحان جنگ اور جنگ کے ہیرو کی ستائش پر بہت زور دیتا ہے ۔ خاص طور پر محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کے سترہ مشہور حملوں سے سندھ کی فتح کو بہت فخر کے ساتھ ہر نصابی کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ برِ صغیر میں تہذیب کے آغاز کے طور پر ان دو واقعات کو اجاگر کرنا ، جب کہ آرٹ ، فنِ تعمیر اور ثقافت کے ارتقا کا درسی کتب میں نظر انداز کیا جانا ایک اہم مسئلہ ہے ‘‘۔ وہ مزیدلکھتے ہیں :''اسلام کو بطورِ ''واحد صحیح‘‘ ایمان ہونے کو درسی کتب سے ختم کیا جائے ‘‘۔اُن کی خواہش ہے: ''منفی تلقین ختم ہونی چاہیے اور بصیرت افروز تعلیم کے لیے غیر جانبدارانہ مواد اپنایا جائے‘‘۔انہوں نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے :''نصابی کتب میں عدم برداشت اور متعصب مواد کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے‘‘۔رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں نے اس رپورٹ کے مرتّبین کی دانش سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے نصاب کو بہتر بنایا ہے ۔
پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن کے ذمے داران نے ہمارے نام ایک ای میل پیغام میں لکھا ہے :''ہم اس رپورٹ کے مندرجات سے برأ ت کا اعلان کرتے ہیں ‘‘۔ہم اُن کے اعلانِ برأت کی تحسین کرتے ہیں ،لیکن اس سے ہماری تشویش کامکمل ازالہ نہیں ہوتا ،کیونکہ الزام یہ ہے کہ وہ اس رپورٹ کی تیاری کے تمام مراحل میں شریکِ عمل رہے ہیں اور اس رپورٹ کے مرتّبین کی دانش کو یک جا کرنے میں اُن کا پورا پورا حصہ ہے۔اس لیے میں نے عنوان قائم کیا ہے:''جاگتے رہیو!‘‘اور علامہ اقبال نے کہا تھا:
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں