وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا قومی اسمبلی میں کیا جانے والا وہ مشہور زمانہ خطاب جسے کئی مرتبہ مختلف ٹی وی چینلز پر دکھایا اور سنایا جا چکا ہے، لوگ ابھی بھولے نہیں ہوں گے۔ اپنے اس خطاب میں خواجہ صاحب نے افواج پاکستان کی ایسی تیسی کرتے ہوئے ان کی وہ درگت بنائی تھی کہ پاکستان بننے سے اب تک وطن پر اپنی جانیں قربان کرنے والے شہدا کی روحیں بے چین ہو کر پکار اٹھی ہوں گی کہ ہم نے اپنی گردنیں کٹوائیں بھی تو کن کے لئے۔ اس تقریر میں ایک طرف افواج کو پاکستان کی معیشت اور بجٹ کو ہڑپ کرنے کے الزامات سے نوازا گیا اور دوسری جانب 1948ء سے 1965ء اور کارگل تک بھارتی فوج سے شکست خوردہ قرار دیتے ہوئے ان کی تضحیک کی گئی۔ اس طرح پاکستانی عوام اور فوج کا مورال تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی ان کے اس خطاب کی ویڈیو کسی ٹی وی چینل سے دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے راشٹریہ سیوک سنگھ کا کوئی لیڈر بول رہا ہے۔خواجہ صاحب نے اس تقریر میں اپنے ہی ملک کی فوج کو بھارت کے ہاتھوں پے در پے شکستوں کے جو طعنے دیے تھے، بھارتی میڈیا نے اس کو اپنے عوام اور فوج کا مورال بلند کرنے کے لئے بڑی منصوبہ بندی سے استعمال کیا۔ چنانچہ اسے بھارتی فوج کی یونٹوں اور میسوں میں دکھایا گیا۔
بھارت کے ہاتھوں ہر جنگ میں شکست فاش کھانے کی جو سیاہی خواجہ آصف نے افواج پاکستان پر ملنے کی کوشش کی تھی، اسے بھارتی حکومت اور فوج کے سب سے قریبی سمجھے جانے والے صحافی اجے شکلا نے اس طرح دھو دیا کہ اگر بطور وزیر دفاع خواجہ آصف نے ان کا یہ کالم پڑھا ہے تو سوائے شرمندگی کے ان
کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا ہوگا۔ 22 ستمبر 2016ء کو بزنس سٹینڈرڈ میں لکھے جانے والے آرٹیکل میں اجے شکلا لکھتے ہیں: ''بھارت اور پاکستان کے درمیان ستمبر 65 کی جنگ نے بھارت کو ایسا سبق دیا تھا کہ کبھی بھول کر بھی ہمیں اپنے ایئر ڈیفنس سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اجے شکلا لکھتے ہیں کہ پچاس سال بعد یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ چھ ستمبر 1965ئکی صبح مغربی سرحدوں پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہوتے ہی پاکستان کی ایئر فورس کےF-86 سیبر جنگی جہازوں نے پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کو تہس نہس کرتے ہوئے پہلے ہی حملے میں اس کے10 جنگی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کردیا جبکہ تین جہازوں کو اس طرح ناکارہ بنایا کہ ان کی ہنگامی مرمت پر بھی ایک ماہ سے زیادہ وقت صرف ہوا۔
جنگ ستمبر کا آغاز ہوتے ہی پاکستانی ایئر فورس نے پٹھان کوٹ کے بعد ہلواڑہ کے ہوائی اڈے کو نشانہ بناتے ہوئے دو ہنٹر طیاروں کو تباہ اور ہوائی اڈے کو اس طرح راکھ کا ڈھیر بنادیا کہ آگ کے شعلے دور دور تک دیکھے جا رہے تھے، جس سے ملحقہ سول آبادیوں میں پاکستانی جہازوں کے نام سے خوف اور دہشت پھیل گئی کیونکہ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کی مکمل تباہی کی اڑتی اڑتی خبریں پہلے ہی وہاں تک پہنچ چکی تھیں۔ انہی دنوں میں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو ہندو خوف زدہ ہوکر بڑی عزت و احترام سے ملنا شروع ہوگئے تھے۔
اجے شکلا اپنے مضمون میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جیسے ہی سات ستمبرکا دن روشن ہوا، پاکستانی ایئر فورس کے جنگی طیارے بھارت کے مشرقی حصوں کی جانب لپکے اور کلائی کنڈہ کے ہوائی اڈے پر انڈین ایئر فورس کے زمین پر کھڑے 12 فائٹر جہازوں کو تہس نہس کر دیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ بھارتی ایئر فورس پاکستان پر حملہ آور ہونے کے بجائے بیک فٹ پر کھیلنے لگی۔ بارہ ستمبر کے بعد بھارتی جہاز پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی کارروائی دکھانے کے لئے ادھر ادھر بم پھینک کر واپس بھاگنے کی کوشش کرتے۔ یہ بمباری دفاعی ٹھکانوں پر نہیں بلکہ کسی عام جگہ پر کی جاتی تھی۔ یہ حقیقت بھارت اور غیر ملی میڈیا پر واضح ہوگئی تھی کہ بھارت کی ایئر فورس اور اس کے ہوائی اڈے ناکارہ ہو چکے ہیں۔
محترم وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب! اجے شکلا کی یہ تحریر، جناب اسحاق ڈار کا دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے دیا جانے والا بیان نہیں جسے تسلیم نہ کیا جائے بلکہ یہ اس آرٹیکل کے الفاظ ہیں جو بزنس سٹینڈرڈ جیسے اخبار میں شائع ہونے کے بعد دنیا بھر کے سفارتی اور دفاعی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ یہ پاکستانی فوج کی کار کردگی دکھانے کے لئے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز بھی نہیں بلکہ یہ بھارتی حکومت اور اس کی وزارت دفاع کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے معتبر اخبار نویس کے چشم کشا حقائق ہیں۔ اجے شکلا جیسے نامور بھارتی صحافی کی بیان کی گئی یہ حقیقی تصویر دیکھنے کے بعد کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ جس فوج کی ایئر فورس اور اس کے ہوائی اڈے ناکارہ ہو جائیں، جنگ جیتنا تو دور کی بات ہے زمینی اور سمندری جنگ لڑنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہتی۔
مقبوضہ کشمیر میں پی ڈی پی اور بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوتے ہی جموں کشمیر میں طوفان بد تمیزی کا ناٹک سب دیکھ رہے ہیں۔ فرقہ پرست مذہبی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیریوں سے کھلواڑ کرتے ہوئے پنڈتوں اور بھارت کے ریٹائرڈ فوجیوں کے لئے کالونیوں کی تعمیر شروع کرکے مقبوضہ وادی میں بے چینی کی جو لہر پیدا کی تھی اسے 8 جولائی کو برہان الدین وانی کے جواں خون نے جلا بخشتے ہوئے مرکزی کرادر ادا کیا۔ پھر بھارت سرکار نے چار ماہ تک سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تحریک کو کچلنے کی کوششیں کیں جس سے بھارت کا بد نما چہرہ مزید داغدار ہو گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی سفاکیت سے ابھرنے والی اس خوں رنگ تحریک آزادی سے سبق سیکھے، وہ اسرائیل کی طرح مزید ڈھٹائی اور عالمی رائے عامہ کو پائوں تلے روندتے ہوئے درندگی کا مظاہرہ کئے جا رہا ہے۔
سراپا احتجاج کشمیریوں کے احتجاجی جلوسوں اور ریلیوں پر بھارتی فورسزکی گولیوں اور آنسو گیس کے گولوں کے علا وہ پیلٹ گنوں کے استعمال سے ایک ہزار سے زیادہ کشمیری بچے اور بچیاں اپنی بینائی سے جزوی یا مکمل طور پر محروم کر دیئے گئے ہیں۔ ہزاروں نوجوان لڑکوںکو ان کے گھروں سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے لکھا ہے کہ دنیا بھر میں Mass Killing کی جاتی تھی لیکن بھارتی فوجوں نے مقبوضہ کشمیر میں سول مظاہرین پر پیلٹ گنوں کی ہزاروں گولیاں برساتے ہوئےMass Blindingشروع کر رکھی ہے۔
اس کے با وجود غریب ممالک کو انسانی حقوق کا درس دینے والی امریکی، فرانسیسی اور دوسری مغربی قومیں بھارت کو انسانیت سوز سفاکی سے روکنے کی بجائے اسلحہ فراہم کرتے ہوئے اسے مزید بے خوف بنا رہے ہیں۔ امریکہ پانچ ہزار کروڑ روپے کی لائٹ ویٹ ہائوٹیزرکی145 توپیں اور فرانس رافل جنگی طیارے بھارت کو فراہم کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیردفاع بین الاقوامی اس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کی بجائے پاناما کا دفاع کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں بیٹھے رہتے ہیں، جیسے اپنی حاضری سے کوئی پیغام دینا چاہتے ہوں۔ اور تو اور پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تقرری پر محترم وزیر دفاع سمیت نواز لیگ ایسے شادیانے بجا رہی ہے جیسے انہوں نے کوئی ضمنی انتخاب جیت لیا ہو۔۔۔!