تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-12-2016

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نو منتخب امریکی صدر‘ مسٹر ٹرمپ اور وزیراعظم‘نوازشریف کی ٹیلی فون کال کے حوالے سے جو مبہم تبصرے شائع ہو رہے ہیں‘ اس کی ایک مثال زیر نظر مضمون بھی ہے۔انگریزی میں لکھی گئی اس تحریر کا ترجمہ بھی اسی طرز کا ہے‘ جیسا کہ یہ اصل میں لکھا گیا۔معذرت کے ساتھ پیش خدمت کر رہا ہوں:
'' نو منتخب امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستانی وزیر ِاعظم‘ نواز شریف کے ساتھ پہلی فون کال‘ نے جنوبی ایشیا کے حالات پر نظر رکھنے والوں کو چونکا دیا جبکہ امریکی صدارتی عہدے کی منتقلی میں ابھی تین ہفتے باقی ہیں ۔ پاکستان کی طرف سے اس فون کال کا جاری کردہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو‘ دنیا کے کسی خطے کے رہنمائوں کے ساتھ بات کرنے سے پہلے‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے بریفنگ لینے کی ضرورت ہے تو وہ خطہ بلاشبہ جنوبی ایشیا ہے ۔ پاکستانی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق‘ اس فون کال کا متن کچھ اس طرح ہے: ''وزیر ِ اعظم ‘ محمدنواز شریف نے نو منتخب امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کر کے‘ اُن کی کامیابی پر مبارک باد دی۔ مسٹر ٹرمپ نے نوازشریف سے کہا کہ آپ کی ساکھ بہت اچھی ہے‘آپ ایک زبردست انسان ہیں اور حیرت انگیز کام کررہے ہیں جو صاف دکھائی دیتا ہے ۔ میں آپ سے جلد ملاقات کی توقع رکھتا ہوں۔ مسٹر وزیر اعظم ‘ آپ سے بات کرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں کسی پرانے شناسا سے مخاطب ہوں۔ آپ کا ملک حیرت انگیز حد تک شاندار امکانات رکھتا ہے ۔ پاکستانی‘ دنیا کی ذہن ترین‘ قوم ہیں۔ میں آپ کو درپیش دیرینہ مسائل کا حل تلا ش کرنے کے لیے ہر وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں‘ جو آپ چاہیں۔آپ20 جنوری سے پہلے بھی ‘مجھے فون کرسکتے ہیں‘ جب میں باضابطہ طور پر منصب سنبھالوں گا‘‘۔ پاکستانی وزیر ِاعظم کی طرف سے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت پر مسٹر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان جیسے شاندار ملک کاد ورہ کرنا چاہیں گے۔ ''پاکستان شاندار لوگوں کا ملک ہے ۔ برائے کرم پاکستانی شہریوں کو میری طر ف سے یہ پیغام پہنچائیں کہ وہ حیرت انگیز افراد ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ غیر معمولی افراد ہیں‘‘۔
اس طرز ِتکلم کو آسانی سے ٹرمپ کی مخصوص بے سروپا گفتگو کی ایک اور مثال قرا ر دیا جاسکتا ہے لیکن اس میں کم از کم دوپیراگراف ایسے ہیں جو جنوبی ایشیا میں پہلے سے ہی جاری سفارتی بحران میںایک سنوبال کی طرح اضافہ کرسکتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے کسی امریکی صدر نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا ۔آخری امریکی صدر‘ جارج ڈبلیو بش 2006 ء میں مشرف دور میں پاکستان آئے تھے۔دوسری طرف نومنتخب صدر‘ ٹرمپ نے فون کال پر دورے کی دعوت بھی قبول کرلی۔دوسری بات یہ کہ مسٹرٹرمپ '' درپیش دیرینہ مسائل کا حل تلا ش کرنے کے لیے ‘ہر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ اس پر اسلام آباد کوجشن منانا اور دہلی کو فکر میں ڈوب جانا چاہیے ۔ بھارت کا اس بیان پر رد ِعمل بھی اتنا ہی اہم ہوگا جتنا کہ پاکستان کا ۔ اگرچہ یہ موضوع فی الحال امریکی میڈیا کی ہیڈلائنز کا حصہ نہیں بنا لیکن گزشتہ ستمبر‘جب بھارتی فوجی کیمپ پر‘ انتہاپسندوں کے حملے میں 19فوجی ہلاک ہوگئے تھے ‘انڈیا اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر تنائو جاری ہے ۔19 فوجیوں کی ہلاکت گزشتہ عشرے میں کسی ایک حملے میں بھارتی فوج کو پہنچنے والا سب سے بڑا جانی نقصان ہے ۔ مسٹر ٹرمپ کے نواز شریف کو فون کرنے سے ایک دن پہلے نگروٹ ‘ کشمیر میں انتہا پسندوں نے مزید سات بھارتی فوجی مارڈالے ۔ اگرچہ طرفین براہ ِراست فوجی تصادم سے گریز کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ کہ گزشتہ ماہ بھارت کے پاکستانی حدود میں ''سرجیکل اسٹرائیکس ‘‘ کے دعوے کے بعد‘جوہری طاقت کی حامل دونوں ریاستوں کے درمیان‘ فوجی 
تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ یاد رہے کہ ایٹمی طاقت کی حامل یہ دونوں ریاستیں 1999 ء میں بھی ایک روایتی جنگ لڑچکی ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کے اپنے بیانات اور رویہ تبدیل کرلینے کے رجحان کے باوجود‘ بھارت کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ ٹرمپ کی پاکستانی وزیر ِاعظم کو کی جانے والی فون کال کے لفظی مطلب سے اغماض نہ برتے اور اس امکان کو ذہن میں رکھے کہ جو کچھ ٹرمپ نے کہا‘ وہی اُن کا مقصد اور منصوبہ ہوسکتا ہے ۔ ہاں اگر متبادل امکانات کی طرف دیکھیں تو مسٹر ٹرمپ نے وزیراعظم‘ نوازشریف کو وہی کچھ سنا کر خوش کردیا‘ جو وہ سننا چاہتے تھے ۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ یہ فون کال امریکہ کی جنوبی ایشیا کے لیے قومی سطح کی پالیسی کا حصہ نہیں بن سکتی۔ تاہم اس فون کال کو بنیاد بنا کر بھارت کو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ ہوسکتا ہے اگلی امریکی انتظامیہ ‘بھارتی کشمیر میں انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرنے پر پاکستان کی مذمت نہ کرے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسٹرٹرمپ ‘پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کا ''اہم ترین غیر نیٹو اتحادی ‘‘ قرار دے دیں۔ صدر اوبامہ کے دور میں ‘جنوبی ایشیاکے حوالے سے غالب رجحان یہ دیکھنے میں آیا کہ اوباما انتظامیہ‘ نے پاکستان کو بتدریج دور اور بھارت کو قریب کرلیا۔ نئی دہلی کے لیے ضروری ہے کہ وہ 2016 ء کے بعد وضع کردہ امریکی پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے پر اصرار کرے ۔ درحقیقت بھارت بہتر سمجھتا اگرمسٹر ٹرمپ‘ پاکستان کے حوالے سے اسی سوچ پر قائم رہتے‘ جس کا اظہار اُ نہوںنے 2012ء کو اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کیا تھا کہ ''پاکستان‘ اسامہ بن لادن کو چھ سال تک پناہ دینے پر ‘ہم سے معذرت کب کرے گا‘‘؟
Massachusetts Institute of Technology میں ایٹمی ہتھیاروں اور سکیورٹی امور کے ماہر‘ پروفیسر ویپن نارنگ نے کہا کہ ''ایک چیز جو بھارت کو پریشان کر سکتی ہے‘ وہ کشمیر پر کسی قسم کی ثالثی کی پیش کش ہے ‘ جس کا تاثر چاہے وہ کتنا ہی دھندلا سہی‘ ابھرا ہے‘‘۔ پروفیسرنارنگ کی 
بات درست ہے کہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان‘ کشمیر کے تنازع اور تشدد پر‘ امریکہ ثالث بن کر دونوں کے درمیان موجود ہو۔ انہوںنے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا: ''اُڑی اور نگروٹ حملوں کے بعد، انڈیا کے لیے ایسی کوئی بات سننا ممکن نہیں۔ تاہم ایسی فون کالز‘ جس کا پاکستان کی طرف سے چرچا کیا گیا‘امریکی پالیسی اور عالمی سکیورٹی کے لیے مسائل کھڑے کرسکتی ہیں‘ خاص طور پر جب فون کالز کا تعلق‘ دوحریف ایٹمی طاقتوں سے ہو۔ اس کی وجہ سے ایٹمی تصادم کا خطرہ حقیقت بن سکتا ہے‘‘۔ بیشک جب ٹرمپ کو جنوبی ایشیا کی صورت ِحال پر مناسب بریفنگ مل جائے گی تو وہ 2011 ء کے بعد سے‘ پاک بھارت تعلقات میں آنے والی تبدیلی کے خدوخال کو بھی سمجھ جائیںگے ۔ چنانچہ اُنہیں احساس ہوگا کہ جن امکانات کا اُنہوں نے اپنی فون کال میں نواز شریف کے ساتھ وعدہ کیا تھا‘ وہ ناقابل ِ حصول ہیں۔ اس احساس کو بذات ِخود کوئی مثبت پیش رفت قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ امریکہ کے قدم پیچھے ہٹانے سے‘ پاکستان اپنے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو غیر ضروری دبائو میں دیکھے گا۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی انتظامیہ بجا طور پر سمجھ رہی ہو کہ ٹرمپ کے وعدے ‘اُن کے روایتی لاابالی پن کا اظہار تھے لیکن عوامی رائے اور فوج کا نئے امریکی صدر کے متعلق قائم ہونے والا منفی تاثر‘ تعلقات کو مزید گراوٹ کا شکار کردے گا۔ کیا اس فون کال سے پہنچنے والے نقصان کو پورا کرنے کی کوئی صورت ہے؟ ہوسکتا ہے کہ بھرپور بریفنگ کے بعدمسٹر ٹرمپ اپنے کسی خطاب میں‘ جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی پالیسی بیان کر دیں ۔ تاہم پاکستانی وزیر ِاعظم فون کال کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات ریکارڈ پر لے آئے ہیں کہ اگلے امریکی صدر کی پلاننگ کیا ہے؟ نیز وہ جنوبی ایشیا میں کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں؟ بہرحال جو بھی ہو‘ یہ خطرہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یہ فون کال‘ امریکہ کے پاکستان اور انڈیا کے بارے میں سفارتی خدوخال پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ مسٹر ٹرمپ یہ بات سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں جاری مسلسل تنائو‘ ایٹمی تصادم کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اگر چہ امریکہ‘ بھارتی اور پاکستانی فیصلہ سازوں کو براہ ِراست متاثر نہیں کرتا لیکن جب صورت ِحال انتہائی خطرے کے نشان کے قریب پہنچ جائے‘ تو پھر طرفین امریکی ردِعمل کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ 
اُڑی حملے کے بعد ‘ جنوبی ایشیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے اس خدشے کو محسوس کرتے ہیں کہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ چھڑ سکتی ہے ۔ مسٹر ٹرمپ کی نواز شریف کو فون کال ظاہر کرتی ہے کہ فی الحال یہ بحث ختم نہیں ہوگی‘ بلکہ اگلے چار سال تک جاری رہے گی۔ گزشتہ بدھ کی شام کو مسٹر ٹرمپ کی ٹیم نے‘ فون کال اپنا ورژن بھی پیش کیا کہ نو منتخب صدر‘ مسٹر ٹرمپ اور پاکستانی وزیر ِاعظم نواز شریف نے بامقصد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ مستقبل میں مضبوط ورکنگ ریلیشن شپ رکھیں گے۔ مسٹر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ مضبوط ذاتی تعلقات رکھنا چاہیں گے‘‘۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved