تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     04-12-2016

ایک فوجی دبکا

جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کے سولہویں سربراہ کے طور پر 'چھڑی‘ سنبھال چکے ہیں۔ انہوں نے ٹھیک تین سال بعد اسے جنرل راحیل شریف سے اسی طرح وصول کیا، جس طرح جنرل راحیل نے اسے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے حاصل کیا تھا۔ توقع ہے کہ ٹھیک تین سال بعد اسی مقام پر وہ ان کے جانشین کے سپرد کر دی جائے گی۔ اب جنرل راحیل کے دور پر بلا تکلف تبصرے کئے جا سکتے اور دل کے پھپھولے پھوڑے جا سکتے ہیں۔ بہت سے دانشور ان سے توقع لگائے بیٹھے رہے کہ وہ نوازشریف حکومت کے ساتھ وہی کچھ کر گزریں گے جو ان کے ممدوح جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا۔ اب یہ ساری کھسیانی بلیاں کھمبے نوچ رہی ہیں۔ جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ کھلی اور بند محفلوں کا موضوع بنا رہا۔ ان کی طرف سے اگرچہ بہت پہلے اعلان کیا جا چکا تھا کہ وہ وقت مقررہ پر ریٹائر ہو جائیں گے پھر بھی ایسے لوگ سرگرم رہے، جو ان کا جنرل کیانی بنانا چاہتے تھے۔ کہا جاتا ہے بات تین سال سے شروع ہو کر ایک سال تک آ گئی لیکن نوازشریف ایک انچ بھی ہل کر نہیں دیئے۔ جنرل راحیل کے قریب (یا دور) پائے جانے والے یہ سب فی سبیل اللہ کر رہے تھے یا کچھ ادھر کا اشارہ بھی تھا، یہ بات کھلتے کھلتے کھلے گی۔ ان کے بعض قریبی حلقے بھی وثوق سے کہتے ہیں کہ وہ قیام کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، ان کا فیصلہ بھی اٹل تھا۔
جنرل راحیل کی بارعب شخصیت، تحرک اور پیشہ ورانہ اہلیت پر جب لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی مہارت کا تڑکا لگا، تو ان کا قد آسمان کو چھونے لگا۔ وہ رخصت ہوئے ہیں تو دستور کے مطابق حکومت قائم ہے۔ لیکن یہ کہنا ممکن نہیں کہ کشتی نے ہچکولے نہیں کھائے۔ جنرل کیانی کے دور میں دہشت گردی سے نبٹنے کا سفر شروع ہوا تھا۔ انہیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا تھا کہ بعض دہشت گرد گروپوں کو بعض مذہبی اور سیاسی حلقوں کی تائید حاصل تھی۔ وہ انہیں امریکہ کے خلاف مصروف جہاد سمجھ کر ان کی پیٹھ ٹھونکتے تھے۔ عوامی سطح پر بھی ان کو مجاہد سمجھنے والے غول درغول موجود تھے۔ زرداری گیلانی حکومت کی ساکھ ایسی تھی کہ رائے عامہ کو قابو کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ایسے میں جنرل کیانی (اور آئی ایس پی آر) نے یہ بیڑا اٹھایا۔ میڈیا پرسنز کے ساتھ گھنٹوں ملاقاتیں ہوئیں، ایک ایک سوال کا کانٹا نکالا، ایک ایک الجھن کو سلجھایا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو قومی استدلال مہیا کیا اور ''امریکہ کی جنگ‘‘ کو پاکستان کی جنگ بنا گزرے کہ اس میں نشانہ بننے والے پاکستانی تھے۔ ان ہی کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی، ان ہی کے علاقوں پر اپنے جھنڈے لہرائے جا رہے تھے۔ان ہی سے داد شجاعت بھی طلب کی جا رہی تھی۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ جنرل کیانی نے پروپیگنڈے کے محاذ پر بھی کمان سنبھالی اور سول حکومت کی بے عملی کو زائل کرنے میں کامیاب رہے۔ جنرل راحیل نے آکر اس معاملے کو بہت آگے بڑھا دیا۔ سیاسی قیادت پہلے سے بڑھ کر یک سو ہو چکی تھی، پے در پے وارداتوں نے ہر شخص کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر وحشیانہ حملہ تو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور پورا ملک فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔ آپریشن ضرب عضب نے حالات کا رخ بدل دیا۔ کراچی آپریشن نے اس شہر کو نئی توانائی بخشی اور یہاں ریاست کی رٹ نئے سرے سے قائم ہوئی۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر قدم درست سمت میں اٹھا۔ بے تدبیری بھی دیکھنے میں آتی رہی،لیکن بڑی کامیابی کے سامنے چھوٹی غلطیاں ہیچ ہو جاتی ہیں۔ ان کو درست کرنے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ان کا خاتمہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ جنرل پرویز مشرف کو تحفظ دینے میں جنرل راحیل خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ اگر ان پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا جاتا تو کئی ہنگاموں سے بچا جا سکتا تھا۔ اس موضوع پر دونوں طرف سے دلائل دیئے جا سکتے ہیں۔ اصول اور حکمت یا (مصلحت) کے حوالے سے کئی صفحات کالے کئے جا سکتے ہیں لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ سیاست ریاضی کا کھیل نہیں ہے۔ یہاں دو+ دو کبھی تین ہوتے ہیں اور کبھی پانچ ہو جاتے ہیں۔یہ یاد رکھا جائے گزشتہ چند سال کے دوران کئی بے لگام عناصر کی طرف سے فوجی حلقوں کی قربت کا تاثر دیا جاتا رہا۔ سیاست اور صحافت دونوں میدانوں میں یہ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی افسران میں سے بھی کئی فضا میں زہر گھولتے اور سول حکومت کو ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ اگر ان کی بروقت گوشمالی کر دی جاتی انہیں آسمانی پشت پناہی کا تاثر دینے سے روک دیا جاتا تو ماحول میں بہت سی کثافت نہ گھل پاتی۔ 
جنرل قمرجاوید باجوہ کی شہرت ایک آئین پسند، قابل اور دانشور جرنیل کی ہے۔ انہوں نے دنیا کے بہترین اداروں میں تعلیم پائی اور تربیت حاصل کی ہے۔ ان کا دامن تجربے سے مالامال ہے۔ انہیں نامزدگی سے پہلے انتہائی تکلیف دہ صورت حال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا، جب بعض مذہبی اور سماجی حلقوں کی طرف سے ان کے عقیدے کے بارے میں بے سروپا کہانیاں عام کی گئیں۔ انہیں قادیانی قرار دے کر ان کے والد کامدفن ربوہ بتایا گیا۔ اور تو اور پروفیسر ساجد میر جیسا سنجیدہ شخص بھی اس بھرّے میں آگیا اور سوشل میڈیا کے جوہڑ میں چھلانگ لگا دی۔ بعد میں انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے جرات کا مظاہرہ کر دکھایا لیکن کئی عناصر پھر بھی چین سے نہیں بیٹھے۔گکھڑ منڈی میں محو آرام ان کے والد کی روح کو انہوں نے بے چین کئے رکھا۔ اس غلیظ مہم کے پیچھے کارفرما ہاتھوں تک پہنچنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر بہتان تراشی کا سدباب ممکن نہیں۔اگر یہ دہشت گرد محفوظ کمین گاہوں میں موجود رہے تو اپنا گندا کھیل پھر شروع کر دیں گے۔ سول ، ملٹری تعلقات کو دستور کے دائرے میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی سرکوبی کی جائے۔ہمارے بہادر سپہ سالار (یعنی آئی ایس پی آر) کا ایک دبکا ہی ان کے لئے کافی ہوگا۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved