تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     04-12-2016

باغوں کا شہر آلودگی میں نمبر ون

گرد آلود لاہور۔۔۔۔ یہ ہے تحفہ حکمرانوں کا لاہوریوں کے لئے۔ ہر سڑک ادھڑی ہوئی‘ گلی گلی میں کھدائی، بیشتر چوک اپنی تزئین و آرائش کے منتظر، شہر کے بیچوں بیچ بڑی بڑی کھائیاں، مٹی کے پہاڑ بلکہ پہاڑیوں کا ایک سلسلہ، کھائیاں ایسی کہ اگر یارش کا پانی ان میں بھر جائے تو آنے جانے والوں کے لئے موت کا کنواں ثابت ہوں۔ یہ سارا نقشہ ملتان روڈ کا ہے جہاں اورنج لائن ٹرین کے میگاپراجیکٹ کے لیے کام جاری ہے۔ ویسے ''جاری‘‘ کا لفظ اس میں اضافی ہے کیونکہ شہر کے عین وسط میں اس مصروف ترین شاہراہ پر کھدائیوں کے بعد کام بس رینگتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی اورنج لائن ٹرین کا مقدمہ عدالت میں ہونے اور کبھی فنڈز کی کمی کے باعث یہ میگا پراجیکٹ بیشتر وقت بند ہی رہتا ہے۔ 
موٹرسائیکلوں ٹرکوں اور بسوں کا دھواں سیسے، کرومیم‘ زنک، نائٹروجن آکسائیڈ اور سلفر کے ذرات لیے ہوتا ہے جو آکسیجن کے ساتھ پھیپھڑوں میں گھس کر انسانی صحت پر وار کرتا ہے جس کا نتیجہ مسلسل کھانسی، خراب گلے‘ دائمی نزلہ اور زکام کی صورت میں نکلتا ہے۔ دمے کے مریضوں کے لئے یہ دھواں زیادہ تکلیف دہ ہے، انہیں سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک عام آدمی کے مسائل ہیں جو ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں سفر نہیں کرتا، جسے اپنی ریڑھی یا چھابہ سڑک کے کنارے لگانا پڑتا
ہے جہاں گردو غبار کا ایک طوفان موجود رہتا ہے۔ جو لوگ سائیکلوں‘ موٹر سائیکلوں اور رکشوں میں سفر کرتے ہیں، جن کا روز کا کاروبار اسی مرّہ علاقے میں ہے، ان کی حالت دگرگوں ہے۔ خیر، محفوظ تو وہ بھی نہیں جوگرد سے اٹی سڑکوں پر گاڑی کے شیشے چڑھا کر گزرتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی ایک خوفناک حقیقت ہے، جس کا ازالہ نہ کیا گیا تو اس کے مضر اثرات سے بچنا محال ہو جائے گا۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ آلودگی اور اس سے متعلقہ موضوعات میں چونکہ کوئی سنسنی موجود نہیں ہیں اور نہ ہی یہ کسی بریکنگ نیوز کا حصہ بنتے ہیں اس لیے میڈیا میں ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ان پر سر سری سی بات ہوتی ہے۔ شاید ہمارے دماغوں میں ریٹنگ کا پرزہ نصب ہے، ہم اسی سے مسائل، معاملات اور ایشوز کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ آلودگی جیسے موضوعات میں ہمارے لیے کوئی کشش نہیں ہوتی۔
پچھلے دنوں جب دھواں اور دھند مل کر سموگ کی صورت میں لاہور شہر پر مسلط ہوئے اور لاہوریوں کی آنکھوں میں چبھن اور جلن ہونے لگی تو چند روز ٹی وی چینلز پر سموگ زیر بحث رہی۔ ذرا سی دھوپ نکلی اور ہوا چلی تو سموگ بظاہر غائب ہو گئی لیکن فضا اب بھی اتنی ہی آلودہ ہے اور میگا پراجیکٹس اس میں اضافہ کر رہے ہیں۔
صرف لاہور میں ایک سڑک کو کھلا کرنے کے لیے سینکڑوں درخت کاٹ دیے گئے۔ اس شہر میں جہاں سات سو انڈسٹریل یونٹ کام کر رہے ہیں، انڈسٹری کا بائی پروڈکٹ یعنی آلودہ پانی اور دھواں ماحول کا حصہ بن کر آلودگی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس گنجان آباد شہر کی فضا کو تازہ اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے انڈسٹری کے فضلے کو ٹھکانے لگانے اور مزید درختوں کی ضرورت ہے جبکہ یہاں پہیہ الٹا چل رہا ہے۔ لگے لگائے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق گلبرگ لبرٹی رائونڈ ابائوٹ سے بذریعہ جیل روڈ شادمان تک سڑک کو سگنل فری کرنے کے لیے 196درخت کاٹے گئے۔ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین نے جہاں پوری فضا کو اتھل پتھل کر دیا ہے، وہاں یہ 27کلو میٹر طویل پراجیکٹ تقریباً سات سو درختوں کو کھا گیا ہے۔ اسی طرح کینال روڈ کو چوڑا کرنے کے پراجیکٹ نے تقریباً 1300 درختوں سے زندگی چھین لی۔ درخت ماحول دوست ہوتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کے بیشتر اثرات خود سہہ کر فضا کو آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ جب ہوا کو صاف کرنے والے درخت کاٹ دیے جائیں گے تو آلودہ فضا انسانی بقا کے لیے خطرہ بن جائے گی۔
آج جو نت نئی بیماریاں سامنے آ رہی ہیں یہ سب حضرت انسان کا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ چین اس وقت صنعتی ترقی کے لحاظ سے اگر دنیا کو لیڈ کر رہا ہے تو اس کی ترقیٔ معکوس کی ایک تصویر یہ بھی ہے کہ دنیا میں چین آلودگی کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں ایک گائوں ایسا ہے جس کا ہر دوسرا فرد کینسر کا مریض ہے۔ یہ گائوں کینسر ویلج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گائوں کے آس پاس انڈسٹریل یونٹ کام کر رہے ہیں۔ وہاں سے خارج ہونے والا آلودہ دھواں فضا میں شامل ہوتا ہے اور اس میں سانس لینے والے خطرناک بیماریوں کاشکار ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف انسانی ترقی کی ناقابل یقین تصویر ہے اور دوسری طرف اس کے انسانی صحت اور زندگی پر خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس حالت کو دیکھ کر اس عہد کے ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا کہ انسان نے خود کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ اسی صورت حال پر ہم اپنے جوں ایلیا صاحب کی زبان میں یوں تبصرہ کرسکتے ہیں کہ ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔۔۔۔!
اور یہ ملال تو ہمیں چھو کر بھی نہیں گزرا کیونکہ احساس زیاں اور ملال تو ان کے نصیب میں ہوتا ہے جو خود احتسابی کرتے ہیں۔ لیکن ہم خود احتسابی کی منزل سے بہت دور ہیں۔ ہم پر صرف دوسروں کا احتساب فرض ہے اور یہ کام ہم بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔
بات شروع ہوئی تھی اورنج لائن میٹرو ٹرین کے میگا پراجیکٹ سے۔ خادم اعلیٰ پنجاب اب اس پراجیکٹس کے متاثرین پر رحم کریں، اسے جلد از جلد مکمل کروائیں۔ جہاں جہاں کھدائیاں ہو چکی ہیں وہاں شہریوں کی زندگی اس وقت تک نارمل نہیں ہو سکتی جب تک کام مکمل نہیں ہو جاتا۔ مٹی کی پہاڑیاں ختم کی جائیں۔ کھائیاں بھر دی جائیں تبھی شہری صاف فضا میں سانس لے سکیں گے۔ میگا پراجیکٹس کے نام پر شہر کو ادھیڑنا بھی بند کریں۔ کبھی جو باغوں کا شہر کہلاتا تھا اب آلودگی میں ملک کا نمبر ون شہر بن چکا ہے۔ باغ اجڑ رہے ہیں۔ درخت کٹتے جا رہے ہیں۔ فلائی اوور، انڈر پاسز اور میگا پراجیکٹس جاری ہیں۔۔۔۔!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved