بیل
اگر مرکّھنا ہو تو آپ خواہ اُسے نہ بھی کہیں کہ آ بیل مجھے مار‘ وہ خدمت سرانجام دے دے گا۔ یہ بُل فائٹنگ کے بھی کام آتا ہے لیکن کام زیادہ تر اس کے ساتھ لڑنے والے کا ہی تمام ہوتا ہے۔ کبھی کبھار یہ ہل چلانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے لیکن ٹریکٹر کی ایجاد کے بعد یہ زیادہ تر فربہ ہونے میں مصروف رہتا ہے۔ رنگ و نسل کی ویرائٹی کے لیے بھی مشہور ہے۔ کنوئیں پر جوتا جائے تو اپنے تئیں کئی میل کا فاصلہ طے کر جاتا ہے کیونکہ آنکھوں پر کھوپے چڑھے ہوتے ہیں۔ اس کا لخت جگر بچھڑا کہلاتا ہے جبکہ دُختر نیک اختر بچھڑی۔ صرف اللہ میاں کی گائے ہوتی ہے‘ اللہ میاں کا بیل نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب
گائے
بھارت میں ہو تو گئو ماتا کہلاتی ہے یعنی کوئی ایک ارب لوگوں کی ماں۔ اس کا دودھ دوہنے کے لیے بچھڑا اس کے نیچے چھوڑتے ہیں جو ابھی دوچار منہ ہی مارتا ہے تو اسے ہٹا کر بڑے آرام سے کیلے پر باندھ دیا جاتا ہے تاہم گائے کبھی کھلی پھرتی ہو تو اس کی تلافی کر دیتی ہے۔ اس کی کھال سے جوتے وغیرہ بنتے ہیں تاہم گدھے کی کھال اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ چارے کے علاوہ اس کی خوراک دفتر بھی ہے، جبھی کہا جاتا ہے کہ آں دفتر را گائو خورد۔ اس کی زبان گائو زبان کہلاتی ہے اور دُم گائو دُم۔ اس کا دودھ پیلے رنگ کا ہوتا ہے اور عموعاً تپ دق میں مبتلا ہونے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ گائے کی شکل والا گائودی کہلاتا ہے۔
بھینس
اس کی سب سے پہلی اور بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ڈوبتی نہیں‘ اس قدر وزنی ہونے کے باوجود سائنس دان آج تک اس کی وجہ دریافت کرنے میں مصروف ہیں اور ناسا والے دن رات بیکار بیٹھے رہتے ہیں۔ منقول ہے کہ ایک شخص بھینس چوری کر کے لے آیا۔ کھوجیوں نے بھی آ دبوچا۔ انہوں نے کہا کہ یا تو بھینس دے دو یا قسم۔ اُس نے قسم دے دی۔ کچھ دیر بعد اس کے پڑوسی نے کہا کہ تم نے جھوٹی قسم اُٹھائی ہے‘ تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ یہ کم بخت اگر دودھ پیتے مرتے ہیں تو انہیں مر ہی جانا چاہیے! اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ عقل بڑی کہ بھینس تو اسے کہیں کہ پہلے بھینس دکھائو‘ اس کے بعد فیصلہ کروں گا۔ بھینسیں بین بڑے شوق سے سنتی ہیں۔
اُونٹ
اس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوتی اس لیے پوچھ کر اسے شرمندہ نہ کریں۔ شُتر غمزے کی ترکیب سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کتنا حسین و جمیل جانور ہے۔ بیٹھنے سے پہلے یہ کبھی نہیں بتائے گا کہ وہ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کا بچہ بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے جتنا کہ ایک مکمل اونٹ۔ اس کی مادہ کو سانڈنی کہتے ہیں حالانکہ اُونٹنی ایک اچھا خاصا نام تھا۔ زیادہ سے زیادہ آپ بھینس کو سانڈنی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ سانڈ کی مادہ ہوتی ہے۔ فارسی میں اسے ناقہ کہتے ہیں‘ پولیس والا ناکہ نہیں۔ یہ جانور سواری کے کام بھی آتا ہے لیکن اس پر سوار ہونے اور اترنے کے لیے سیڑھی درکار ہوتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک لومڑی جنگل میں بھاگی جا رہی تھی، کسی نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ شکاری جنگل پر چڑھ دوڑے ہیں اور اونٹوں کو شکار کر رہے ہیں۔ پوچھا‘ تم تو اونٹ نہیں ہو‘ کہنے لگی وہ سمجھیں گے کہ ایں ہم بچہ شتر است یعنی یہ بھی اونٹ کا بچہ ہے! شُترکینہ کا بہت ذکر سنا ہے لیکن ہمیں کبھی اس سے واسطہ نہیں پڑا۔
بھیڑ
اگرچہ یہ بھیڑ چال کی وجہ سے مشہور ہے لیکن ہم نے اس کی چال کو ہمیشہ ہی نارمل پایا ہے۔ سردیوں میں اس کی اُون اتار لی جاتی ہے تاکہ یہ خود ٹھٹھر کر اللہ کو پیاری ہو جائے۔ لفظ بھیڑیا محض دھوکہ ہے کیونکہ اس کا بھیڑ سے کوئی تعلق دُور کا بھی نہیں ہوتا جبکہ اس کا میاں سیدھا سادہ بھیڈو کہلاتا ہے۔ بھیڑ ہو جانا بھی ایک سراسر غلط محاورہ ہے کیونکہ ہم نے آج تک کسی کو بھیڑ ہوتے نہیں دیکھا‘ خود کئی بار ہو گئے ہوں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کالی بھیڑ والا محاورہ بھی کچھ ایسا درست نہیں ہے کیونکہ جب کالی بھیڑیں خال خال موجود ہیں تو محاورہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے میمنے نے جس شیر کو غچہ دیا تھا وہ ابھی تک بھیڑ کے انتظار میں اُسی جگہ کھڑا ہے۔
بکری
یہ زیادہ تر بزکشی کھیل کھیلنے کے کام آتی ہے۔ یہ بکرے کی وہ ماں ہوتی ہے جو ہر دم اس کی خیر منانے میں مصروف رہتی ہے، لیکن ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھتی ہے کیونکہ جناب پرویز رشید جیسے کئی بکروں کی قربانی بالآخر دینی پڑتی ہے؛ حالانکہ اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوا کرتا۔ اس کے دودھ کو تکلفاً ہی دودھ کہا جا سکتا ہے۔ بھیڑ ہونے کے ساتھ ساتھ بالعموم بکری ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ بیوی سے روٹھ کر گھر سے نکل جائیں تو اس کی دُم پکڑے اور یہ کہتے ہوئے واپس بھی آ سکتے ہیں کہ نہیں بھئی بکری میں نے گھر نہیں جانا۔ اس میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ مثلاً سینما ہال میں صرف بکرا بلایا جا سکتا ہے‘ بکری نہیں۔ ایک یادگار شعر ہے ؎
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بکری
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں پر مر گئی بکری
گھوڑا
یہ صرف دوڑانے کے کام آتا ہے‘ مثلاً بحرِ ذخّار میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے‘ حالانکہ سمندر میں گھوڑے دوڑنے دوڑانے کو عقل تسلیم ہی نہیں کر سکتی۔ گھوڑا گاڑی اُسے کہتے ہیں پڑے پڑے ایک دم جو گھوڑے میں تبدیل ہو جائے۔ محاورے کے مطابق گھوڑا صرف میدان میں دوڑتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں‘ اسپ تازی اور اسپ باسی۔ گھوڑ دوڑ پر جُوا بھی لگتا ہے حالانکہ اس کے لیے گھوڑوں کا ہونا ضروری نہیں جیسا کہ یار لوگ سڑک پر بیٹھے ہوئے گزرتے موٹر سائیکلوں وغیرہ پر شرط لگا لیتے ہیں۔ سویّاں بنانے والی مشین بھی گھوڑی کہلاتی ہے حالانکہ وہ بھاگتی ہرگز نہیں۔ ایک دوسرے پر سوار ہو جانا گھوڑی بننا کہلاتا ہے۔ گدھے اور گھوڑے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔
ہاتھی
اس کے بارے میں مشہور ہے کہ ہاتھی کس کا ساتھی‘ اس لیے اس سے کوئی اُمید لگانا عقل مندی نہیں ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے چار اندھے درکار ہوتے ہیں جو اس کی سونڈ‘ دم‘ پائوں‘ کان اور دانت دیکھ کر بیان کر سکیں۔ اس کا دھوکے باز ہونا اسی سے ظاہر ہے کہ اس کے کھانے کے دانت اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ منقول ہے کہ ایک بار شیر نے ہاتھی سے پوچھا‘ تمہیں معلوم ہے کہ جنگل کا سب سے طاقتور جانور کون ہے‘ جس پر ہاتھی نے اُسے سونڈ میں لپیٹا اور کوئی پچاس فٹ پرے پھینک دیا۔ شیر مٹی جھاڑتا ہوا اٹھا اور ہاتھی سے کہنے لگا کہ اگر تمہیں معلوم نہیں تھا تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات تھی؟ ہاتھی کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا‘ اس کے باوجود اسے ہاتھی کہتے ہیں۔
شیر
جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے لیکن ہاتھی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا۔ شیر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ وقت پڑنے پر بھیڑ بھی ہو جاتا ہے۔ منقول ہے کہ جنگل میں شیر کی شادی کا جشن برپا تھا‘ دیگیں پک رہی تھیں تو ایک چوہا بھی اِدھر اُدھر پُھرتیاں دکھاتا پھر رہا تھا۔ کبھی وہ تمبو قناطوں والوں پر رعب جھاڑتا اور کبھی دیگیں پکانے والوں پر۔ کسی نے اس سے پوچھ لیا کہ شادی تو شیر کی ہو رہی ہے‘ تمہارا یہاں کیا کام ہے‘ تو وہ بولا‘ شادی سے پہلے میں بھی شیر ہوا کرتا تھا! پنجاب کو ایشیا کا ٹائیگر اور لاہور کو پیرس بنانا شریف برادران کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔اس جماعت کا انتخابی نشان بھی شیر ہے اور میاں صاحب جہاں بھی جاتے ہیں‘ شیر آیا‘ شیر آیا‘ دوڑنا کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں اس لیے اس کا چڑیا گھر میں رہنا زیادہ مناسب ہے۔
آج کا مطلع
اچانک رک گئی ہے جو ہوا، کچھ ہونے والا ہے
کہ جو کچھ ہو چکا اُس سے سوا کچھ ہونے والا ہے