ایک خوش پوش شخص گھر سے نکلا‘ رکشہ روکا اور نشست سنبھالنے کے بعد ڈرائیور سے کہا کہ فلاں جگہ پر لے چلو۔ رکشہ ڈرائیور نے دو طرفہ کرایہ چار سو روپے طلب کیا جس پر صاحب نے ہاں کر دی۔ مطلوبہ گلی میں پہنچ کر رکشہ رُکا‘ صاحب نے ایک گھر کے دروازے پر بیل کی‘ دروازہ کھل ااور صاحب خانہ نے مہمان کو بے نقط سنانا شروع کر دیں کہ پھر آ گئے ہو‘ ڈھیٹ کہیں کے۔ مہمان بے مزہ ہوئے بغیر کہتا ہی رہ گیا کہ بھائی جان میری بات تو سن لیں، مگر اُس نے ایک نہ سنی اور دھکا دے کر اسے واپسی کی راہ دکھائی۔ بے عزتی کرانے کے بعد موصوف رکشے میں بیٹھے اور واپس چلنے کو کہا۔ رکشہ ڈرائیور نے پوچھا صاحب بس اتنا ہی؟ جواب ملا اب وہ میری کوئی بات ہی سننے کے لیے تیار نہیں تو مزید ٹھہرنا فضول ہے۔ رکشہ ڈرائیور بولا‘ صاحب! اتنی دور، وقت اور کرایہ خرچ کر کے آپ صرف بے عزتی کرانے آئے تھے؟ یہ کام تو میں آپ کے گھر کے سامنے ایک پیسہ لیے بغیر کر سکتا تھا۔ آپ نے خواہ مخوا ہ زحمت کی۔
نریندر مودی جب سے برسر اقتدار آیا ہے اپنے انتہا پسندانہ ایجنڈا کے تحت پاکستان کو سفارتی تنہائی سے دوچار اور ہر علاقائی و بین الاقوامی فورم پردہشت گرد‘ دہشت گردوں کا سرپرست اور دہشت گردوں کی پناہ گاہ ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے مشورے‘ کشمیری اور پاکستانی عوام کے جذبات اور سفارتی نزاکتوں کو بالائے طاق رکھ کر نریندر مودی کی حلف برداری میں شریک ہوئے مگر نریندر مودی کا دل پسیجا نہ اس نے جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا۔ میاں صاحب کی نواسی کی شادی کے موقع پر جاتی اُمرا آمد کو ہمارے ہاں ہندوتوا کے علمبردار بھارتی وزیر اعظم کی قلب ماہیت سے تعبیر کیا گیا، غیر معمولی آئو بھگت سے اس کا دل جیتنے کی کوشش ہوئی اور یوں لگا جیسے چیونٹی کے گھر بھگوان آیا ہے، مگر مودی نے اسے اپنی شاطرانہ سفارتی چال قرار دیا۔ پٹھان کوٹ واقعہ پر میاں صاحب نے بھارتی دعوے اور بیانیے کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے گوجرانوالہ میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا اور بعض گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں مگر مودی‘ دوول ‘ راجناتھ اور منوہر پاریکر الزام تراشی سے باز آئے نہ شرارتوں سے‘ حتیٰ کہ کلبھوشن نیٹ ورک کا سراغ ملا اور پاکستانی اداروں کو یقین ہو گیا کہ بھارت سرکار پاکستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی اور فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں قائم اپنے نیٹ ورک ‘ کشمیری عوام کی جائز قانونی اور مقامی جدوجہد سے توجہ ہٹانے کے لیے ڈرامہ بازی کر رہی ہے۔
سارک کانفرنس کو ناکام بنانے کے لیے بھارت کا طرز عمل یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ وہ خطے میں امن چاہتا ہے نہ ہمسایوں سے خوشگوار تعلقات اور نہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل، جو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کے خاتمہ اور مفاہمت کی شاہ کلید ہے۔ چنانچہ جنرل راحیل شریف کے دور میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات اور سفارت کاری کا بنیادی پتھر قرار پایا اور پاکستان نے اعلان کیا کہ جموں و کشمیر میں مظالم کی بندش اور کور ایشوکو ایجنڈے کا موضوع بنائے بغیر دو طرفہ مذاکرت نہیں ہوں گے۔ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے افغانستان کی اشرف غنی حکومت نے سوات‘ خیبر ایجنسی‘ شمالی وزیرستان کے مفرور دہشت گردوں کو مختلف مقامات پر پناہ دے رکھی ہے، کبھی ہمارے شہریوں اور فوجیوں پر بھارت بمباری کرتا ہے اور کبھی افغانستان گولہ باری۔ جموں و کشمیر میں صرف پانچ ماہ میں سو سے زائد کشمیری ''پاکستان سے رشتہ کیا‘ لاالٰہ الاللہ ‘‘ کا نعرہ لگانے کے جرم میں شہید ہوئے‘ سینکڑوں زخمی اور بصارت سے محروم اور درجنوں خواتین بے آبرو۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری کی خلاف ورزی معمول بن چکا ہے اور بھارت کو افغان حکومت کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ‘ مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا موقف نواز شریف سے ہم آہنگ سہی مگر پاکستانی اور کشمیری عوام کو پسند نہ تھا۔ یہ کشمیری عوام کے علاوہ قبائلی علاقہ جات‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں موجودہ افغان حکومت کے زخم خوردہ پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور نریندر مودی کو خوش کرنے کی بھونڈی کوشش اور ہماری کمزور سفارت کاری کا اظہار ہے۔ ہم بھارت سے یہ پیشگی ضمانت بھی حاصل نہ کر سکے کہ امرتسر میں ہمارے اعلیٰ سطحی وفد سے بدسلوکی نہیں ہو گی‘ مشیر خارجہ اور اس کے ساتھیوں کو آزادانہ نقل و حرکت اور ملاقاتوں کی اجازت ہو گی اور بھارتی میڈیا کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملے گا۔
اقوام اور ممالک کے تعلقات میں یکطرفہ خیر سگالی کا رواج ہے نہ یہ کبھی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے‘ لوگ عزت ہمیشہ اس کی کرتے ہیں جو اپنی عزت کروانا چاہتا اور جانتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ جس خوش خلقی اور انکسار سے آپ کی عزت نفس مجروح ہونے کا اندیشہ ہو اس سے گریز بہتر ہے۔ ہزار سالہ غلامی نے بھارتی سیاست و قیادت کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، وہ احساس برتری کا شکار ہے جو احساس کمتری کی قسم ہے۔ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل سے لطف اندوز ہوتی ہے‘ تنگ نظری اس کے دل و دماغ میں رچی بسی ہے اور کمینہ پن اس کی فطرت ثانیہ ہے۔
سفارتی آداب سے مودی نابلد ہے اور مہمان نوازی برہمن قیادت کے مزاج کا حصہ نہیں۔ احساس کمتری کے مریض ہمارے بعض سیاست دانوں‘ دانشوروں اور صحافیوں کے سوا بھارتی سرشت سے ہر پاکستانی واقف ہے۔ پاکستان کا وجود بھارتی قیادت کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برساتا اور اس کی کسی بھی میدان میں کامیابی‘ ترقی اور خوشحالی زہر لگتی ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت کے پروردہ دہشت گردوں کی سرکوبی‘ چین اور روس سے فروغ پذیر دوستانہ تعلقات اور اقتصادی راہداری منصوبے کے ثمرات نریندر مودی اور اس کے ساتھیوں کے لیے سوہان روح ہیں اور اس معاملے میں اسے انکل سام کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے، جس کا ثبوت امریکی کانگرس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پاکستان کے خلاف بولی جانے والی زبان اور ہونے والی قانون سازی ہے۔ پاکستان میں ایسے احمقوں کی کمی نہیں جو آج بھی بھارت کے سامنے یکطرفہ طور پر سرنگوں ہونے اور اس کی ڈکٹیشن قبول کرنے کے پرچارک ہیں۔ وہ ''را‘‘ کے قدر دان اور آئی ایس آئی کے نقاد ہیں، انہیں پاکستان میں اجیت دوول ‘ مودی اور بال ٹھاکرے کے پیروکاروں سے زیادہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر پر غصہ آتا ہے اور انہی کے مشورہ پر میاں صاحب مودی اور اس کے غیر مہذب ساتھیوں سے اپنی اور اپنے وزیروں‘ مشیروں کی بے عزتی کراتے ہیں۔
2008ء میں ممبئی کا واقعہ ہوا تو شاہ محمود قریشی بطور وزیر خارجہ بھارت میں تھے مگر یہ جرأت اس وقت کی بھارتی حکومت کو نہیں ہوئی کہ وہ پاکستانی وزیر خارجہ سے سرتاج عزیز جیسا سلوک کرے؛ حالانکہ میڈیا اور انتہا پسند اپوزیشن نے آگ لگا رکھی تھی۔ ''پیس افینس‘‘ دوسروں کے سامنے بچھ جانے اور اپنی سبکی کرانے کا نام نہیں‘ دوسروں کو اپنی سفارت کاری سے سرنگوں کرنے کی تدبیر ہے، لیکن ہم اپنی نیک چلنی کا ثبوت دینے کے لیے مودی اور اشرف غنی کی کڑوی کسیلی سننے لگیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو امرتسر میں ہمارے سرکاری وفد کے ساتھ ہوا۔ پرویز مشرف پر ہمیشہ تنقید ہوئی کہ کارگل کے ہیرو نے کھٹمنڈو میں پاکستان کی ناک کٹوا دی، آگرہ سے ناکام لوٹا‘ مگر امرتسر کے کوچے سے پاکستانی وفد کا نکلنا؟ یہی کام عمران خان کے کسی ٹائیگر اور بلاول بھٹو کے جیالے سے بآسانی کرایا جا سکتا تھا، کچھ خرچ آتا نہ عالمی میڈیا اور برادری کو علم ہوتا۔کم خرچ بالا نشین!
جو کام مفت ہو سکتا تھا اس پر اتنے خرچ اور تام جھام کی ضرورت بھلا کیا تھی۔ مودی تو چلو بڑے ملک کا سربراہ ہے اب اشرف غنی سے بھی ہم بھاشن سننے لگے ہیں۔ چیونٹی کے بھی پرنکل آئے ہیں ع
بُت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے!