تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-12-2016

ہمارے جانور(2)

گدھا
درویش صفت جانور ہے۔ اگر چاہے تو دس دن تک کھڑا رہ سکتا ہے۔ بار برداری اور دولتّیاں جھاڑنا اس کے اصل کام ہیں۔ اپنے مالک اور آس پاس کو اپنی سُریلی آواز سے مست رکھتا ہے اس کا خردماغ ہونا بھی ضروری ہے۔ گائو آمدو خررفت کا مطلب ہے کہ آپ نے گدھے کے عوض گائے خرید لی۔ اس کی مادہ گدھی زیادہ کارآمد چیز ہے اور دیہاتی علاقوں میں رغبت سے پالی جاتی ہے وفادار جانور ہے‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ ؎
جتھے دی کھوتی
اوتھے آن کھلوتی
کتّا
کہتے ہیں کہ بھونکتے ہوئے کُتے کاٹا نہیں کرتے‘ البتہ اگر وہ کاٹنا چاہیں تو بھونکنا بند کر کے کاٹ بھی سکتے ہیں۔ گھر کا پہرہ دیتا ہے اور چوروں اور مہمانوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔ اس کی وفاداری مشہور ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے کتوں کی دکان پر جا کر ایک کتا پسند کیا اور دکاندار سے پوچھا‘ کیا یہ وفادار بھی ہے تو دکاندار بولا‘ صاحب اس کی وفاداری کا نہ پوچھیے‘ اسے پچیس مرتبہ بیچ چکا ہوں لیکن یہ ہر بار میرے پاس آ جاتا ہے ۔ سگ باش‘ برادر خورد مباش‘ کا مطلب آپ سمجھتے ہی ہوں گے۔ دُنیا دار کُتے کو سگِ دُنیا کہتے ہیں۔ مشہور امریکی مزاح نگار مارک ٹوین لکھتا ہے کہ ہم اتنے غریب ہوا کرتے تھے کہ رات کو چوروں کو ڈرانے کے لیے کُتوں کی طرح خود بھونکا کرتے تھے!
بلی
یہ ہر روز ایک چوہا باقاعدگی سے کھاتی ہے اور جب نو سو چُوہے پُورے ہو جائیں تو حج پر چلی جاتی ہے۔ خواب صرف چھیچھڑوں کے ہی دیکھتی ہے۔ منقول ہے بلی نے چوہے کو بِل سے سر نکالتے دیکھا تو اسے پانچ روپے کا کڑکتا نوٹ دکھاتے ہوئے بولی‘ اگر اُس بل سے نکل کر اِس بل میں آ جائو تو یہ نوٹ تمہارا۔ چوہا نوٹ دیکھ کر للچایا تو بہت لیکن تھوڑی دیر تک سوچنے کے بعد بولا‘ فاصلہ بہت کم ہے اور معاوضہ بہت زیادہ ہے‘ معاملہ گڑ بڑ معلوم ہوتا ہے‘ اس لیے میری معذرت۔ رات بھر چھینکے کی طرف لپکتی اور اچھلتی رہتی ہے جو بالآخر اس کے بھاگوں کِسی دن ٹوٹ ہی جاتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ بلی کو پہلے دن ہی مار دینا چاہیے ورنہ صرف پچھتاوا ہی باقی رہ جاتا ہے۔ یہ اپنے گھر کے سامنے شیر ہوتی ہے۔
خرگوش
اس کے کان اپنے نہیں ہوتے‘ گدھے کے اُتار کر لگائے گئے ہوتے ہیں۔ پالتو جانور ہے اور کسی قدر فالتو بھی۔ تیز رفتار جانور ہے لیکن کچھوے کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ ہو تو ہار جاتا ہے‘ ہم نے خود کہیں پڑھا تھا‘ اس دن سے اس کچھوے کی تلاش ہے تاکہ اسے شاباش دے سکیں اور خرگوش اگر کہیں ملے تو اُسے کہیں کہ ڈوب مرو۔ اول تو وہ اس ذلّت کے بعد خود ہی ڈوب مرا ہوگا۔ اس کے رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ڈیزائن بھی۔ اس کا گوشت پکا کر کھایا بھی جاتا ہے لیکن یہ گوشت اتنا بے مزہ ہوتا ہے کہ اس سے بہتر ہے صبرکر لیا جائے اور دال وغیرہ سے کام چلا لیا جائے۔ کتوں کی دوڑ کا مقابلہ ہو تو ان کے آگے اسے چھوڑا جاتا ہے‘ چنانچہ کُتے دوڑ دوڑ کر بے حال ہو جاتے ہیں لیکن یہ ہاتھ نہیں آتا۔
ہرن
اسے آہُو چشم اسی لیے کہتے ہیں کہ اس کی آنکھیں بالکل ہرن جیسی ہوتی ہیں۔ بارہ سنگھا بھی اسی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ منقول ہے کہ دو شکاری دوستوں نے چھوٹا جہازکرائے پر لیا اور جنگل جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے چھ بارہ سنگھے شکار کیے۔ واپس آنے لگے تو جہاز کے پائلٹ نے کہا کہ جہاز چھوٹا ہے اور بارہ سنگھے زیادہ وزنی۔ یہ ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ شکاریوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے سال بھی چھ بارہ سنگھے شکار کئے تھے‘ وہ بھی چھوٹا جہاز تھا اور ہم نے اُس پر لاد لیے تھے۔ یہ سن کر پائلٹ لاجواب ہو گیا ۔ چنانچہ جہازابھی پانچ سات منٹ تک ہی اڑا تھا کہ دھم سے نیچے آ رہا۔ اتفاق سے دونوں شکاری محفوظ رہے۔ ملبے سے باہر نکلتے ہوئے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے تو وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر بولا‘ وہی جگہ ہے جہاں ہم پچھلے سال گرے تھے!
گیدڑ
اس کا کام صرف گیدڑ بھبکیاں دینا ہے۔ یہ اپنی موجودگی کا احساس رات کو دلاتا ہے۔ اس کی اصل قیمتی چیز گیدڑ سنگھی ہے جسے یہ بہت سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے۔ جنگلی اور دیہاتی علاقے کا باسی ہے لیکن جب بھی اس کی شامت آئے‘ آبادی کا رخ کرتا ہے۔ گیدڑ کٹ اسی سے منسوب ہے۔ منقول ہے کہ ایک گیدڑ کو اخبار کا ایک پرزہ کہیں سے مل گیا تو اس نے گیدڑ برادری کو اکٹھا کیا اور کہا کہ یہ میرے پاس پرمٹ ہے‘ اگر ہم گائوں کی سیر کرنے چلیں تو کُتے ہمیں کچھ نہ کہیں گے۔ سب خوش خوش چل پڑے۔ جب گائوں کے قریب پہنچے تو کتوں نے حملہ کر دیا اور وہ اُلٹے پائوں بھاگے۔ ایک نے لیڈر گیدڑ سے کہا کہ انہیں پرمٹ دکھائو جس پر وہ بولا کہ قدموں پر زور دو‘ یہ سب کے سب ان پڑھ ہیں!
لُومڑی
بہت چالاک اور ہشیار جانور ہے۔ لُومڑ پیچیاں مارنے کے لیے مشہور ہے۔ منقول ہے کہ ایک بار وہ سخت بھوک کے عالم میں کھانے کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی کہ اُسے ٹُنڈ مُنڈ درخت پر ایک کوّا بیٹھا نظر آیا جس کی چونچ میں پنیر کا بڑا سا ٹُکرا تھا۔ پنیر دیکھ کر اس کے مُنہ میں بہت سا پانی بھر آیا۔ وہ کوّے سے بولی‘ پیارے کوّے ‘ سُنا ہے تم گانا بہت اچھا گاتے ہو‘ سارے جنگل میں تمہارے گانے کی دھوم ہے‘ اپنی خالہ کو ایک گانا تو سنا دو۔ اس کا خیال تھا کہ کوّا جونہی گانے کے لیے چونچ کھولے گا‘ پنیر کا ٹکڑا نیچے گر پڑے گا اور اس کاناشتہ ہو جائے گا۔ کوّے نے یہ سُن کرپنیر کا ٹکڑا پنجے میں دبایا اور بولا‘ خالہ جان‘ کون سا گانا پسند کروگی‘ فلمی یا کوئی پکّا راگ...؟
ریچھ
بھاری بھرکم جانور ہے اور جنگل ہی میں دستیاب ہے۔ برفانی ریچھ برف کا بنا ہوتا ہے ۔ شہر والوں کے قابو میں آ جائے تو مداری اسے تماشے پر لگا لیتے ہیں۔ سیاہ اور بُھورا دونوں رنگوں میں ہوتا ہے ۔ منقول ہے کہ دو دوست دریا کے کنارے جا رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ دریا میں ایک کمبل تیرتا آ رہا ہے۔ سردی کا موسم تھا جس کے علاج کے لیے ایک نے دریا میںچھلانگ لگا دی۔ جب کمبل تک پہنچا تو وہ کمبل کی بجائے ریچھ تھا جس نے اسے جکڑ لیا۔ جب زیادہ دیر ہو گئی اور دوست باہر نہ نکلا تو دوسرے نے اُسے کہا کہ اگر کمبل بھاری ہے تو اسے چھوڑ دو اور باہر نکل آئو‘ جس پر اس نے جواب دیا کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں‘ کمبل مجھے نہیں چھوڑتا!
بندر
نقل اتارنے میں اس کا ثانی نہیں۔ جنگل کا رہائشی ہے‘ اگر شہر والوں کے ہاتھ لگ جائے تو مداری ریچھ کی طرح‘ یا اس کے بھی ساتھ‘ اسے تماشے پر لگا لیتے ہیں۔ منقول ہے کہ ایک سوداگر ٹوپیوں کا ایک گٹھڑا اٹھائے کہیں جا رہا تھا۔ گرمی کا موسم تھا‘ ایک سایہ دار درخت دیکھ کر وہیں لیٹ گیا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ جاگا تو دیکھا کہ گٹھڑا خالی ہے اور شاخوں پر بیٹھے لاتعداد بندر ٹوپیاں پہنے ہوئے ہیں۔ اس نے ہش ہش کر کے انہیں ڈرانے کی کوشش کی لیکن بندربھی اس کی نقل اتارتے ہوئے ہش ہش کرنے لگے۔ اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے اپنی ٹوپی اتار کر زمین پر پٹخ دی۔ جواب میں بندروں نے کہا کہ ہم کوئی کچّی گولیاں نہیں کھیلے۔ سو‘ اچھے بچے بنو اور ٹوپی دوبارہ پہن لو!
آج کا مطلع
کبھی قرار‘ کبھی اضطراب میں ہونا
یہی ہے تیرے حساب و کتاب میں ہونا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved