سوموار کے روز میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا، اس لئے کہ ایک ہی وقت پر تین اہم قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس تھے اور سبھی اہم تھے۔ ایک کمیٹی میں پی آئی اے کی نئی پریمیم سروس کا پوسٹ مارٹم ہونا تھا کہ کیسے بڑے دعوئوں کے ساتھ شروع کی گئی اور اب مسلسل نقصان میں جارہی ہے۔ پی آئی اے کے معاملات میں زیادہ فائر ورک کا امکان تھا اور وہیں سے زیادہ خبریں نکلنے کا امکان بھی۔ ایک رپورٹر کے لیے وہ جگہ اہم ہوتی ہے جہاں سے اسے زیادہ سے زیادہ اور دلچسپ خبریں مل سکیں۔ سینیٹر مشاہداللہ اس کمیٹی کے سربراہ ہیں، لہٰذا یہ توقع بھی تھی کہ کارروائی دلچسپ ہوگی کیونکہ وہ پی آئی اے کے معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور کھل کر بات کرتے ہیں۔
دوسری کمیٹی میں ایل این جی ٹرمینل کی کہانی سامنے آنے کا امکان تھا۔ ایل این جی اپنی نوعیت کا کھانچہ رہا ہے۔ چھ برس قبل ایل این جی کا نام سننے کے بعد اس کے کئی سکینڈلز سامنے آئے۔ اس کی ڈیل میں مال اورکمیشن کا مارجن کافی ہے، ایک ہی دفعہ بڑا ہاتھ مارنے کے امکانات بہت ہیں۔ ایل این جی میں مال بنانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کو کمیشن ڈالروں میں ملتا اور بیرون ملک آپ کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ پاکستان لا کر پھر باہر لے جانے کے لئے آپ کو کسی ایان علی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لیے ہمارے سیاسی حکمران اور بیوروکریٹ ایل این جی کی ڈیل میں ہاتھ مارنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر کسی مقدمے میں پکڑے گئے تو بھی فوراً ڈاکٹر عاصم کی طرح سیاسی قیدی بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جسے چھڑانے کے لئے زرداری سے لے کر بلاول تک سب میدان میں کود پڑتے ہیں۔
یہ سب خبریں ملنے کے لالچ کے باوجود پتا نہیں میں نے کیوں موسمی تبدیلیوں سے متعلق قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں جانے کا فیصلہ کیا۔ بظاہر اس سُوکھی کمیٹی سے مجھے کیا ملنا تھا؛ تاہم میں نے یہ سوچ کر اسی کے اجلاس میں جانے کا فیصلہ کیا کہ دنیا میں موسمی تبدیلیاں بہت بڑی تباہی لا رہی ہیں، یہ بہت اہم موضوع بنتا جارہا ہے۔ موسم اب انسانوں کے دشمن بن گئے ہیں۔ مجھے اس کمیٹی میں بیٹھ کر ماہرین کو سننا چاہیے کہ ہمارے جیسے ملکوں کے عوام کو کیا خطرات لاحق ہیں۔ مجھے اس لیے بھی موسمی تبدیلیوں پر پریشانی ہے کہ ہمارے ضلع لیہ میں دریائے سندھ کے کٹائو کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمین دریا کھا گیا ہے۔ زمیندار لوگ اب سڑک پر آبیٹھے ہیں۔ جو کل تک اچھی خاصی زمینداری کرتے تھے آج وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔کل تک دوسروں کو نوکری دینے والے آج خود نوکر ہو رہے ہیں۔ ان کی قیمتی زمینیں دریا برد ہو رہی ہیں، لیکن کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں، شاید اس لئے بھی کہ لیہ کی خبریں ٹی وی چینلز کے لیے مصالحہ دار نہیں ہیں اور یہ اجڑے کسان ٹی وی چینلز کو اشتہار اور ریٹنگ نہیں دے سکتے۔ موسمی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار غریب لوگ بنتے ہیں۔ اس کا کچھ ذائقہ پچھلے کچھ دن ہم سب نے چکھا جب لاہور میں سموگ نے لوگوں کی زندگیاں عذاب بنا دی تھیں۔ دہلی میں بھی یہی کچھ ہوا۔ جس طرح لوگ ماحولیات کو تباہ کرتے جا رہے ہیں، خود اس کا نشانہ بنیںگے۔ موٹر وے پر سفر کریں تو چاروں طرف کسان اپنی فصلوں کو آگ لگاتے نظرآتے ہیں۔ لاہور اسلام آباد موٹر وے پر دھواں بعض دفعہ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ آپ کو یاد ہوگا، کچھ برس قبل سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کی بہن بھی اس وقت حادثے کا شکار ہوئی تھیں جب موٹروے پر فصلوں کے دھویں کی وجہ سے اندھیرا چھا جانے کے با عث گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی تھیں۔ اس حادثے میں تقریباً سات افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ پچھلے دنوں پھر اسی دھویں کی وجہ سے موٹروے پر حادثہ ہوا اور کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ زندگیاں جانے سے بھی کوئی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ سب اللہ کی مرضی کہہ کر بھول جاتے ہیں۔ گورنر کی فیملی کواس طرح کا حادثہ پیش آتا ہے تو بھی ایسے حوادث کو روکنے کے لیے کوئی مستقل انتظام نہیں ہوتا۔ پھر آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ ہماری بیوروکریسی کیسے کام کرتی ہے۔ موٹروے کے اردگرد فصل جلانے پر نہ صرف پابندی لگائی جاتی اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دی جاتیں، لیکن کسی کو پروا نہیں۔
خیر، بات ہو رہی تھی موسمی تبدیلیوں کی کمیٹی کے اجلاس کی۔ دنیا بھر میں اس ایشو پر شور بپا ہے کہ موسمی تبدیلیوں سے تباہی آرہی ہے۔ میرا خیال تھا کمیٹی کے تمام تیرہ ممبران موجود ہوں گے اور وزارت ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کی وزارت کے افسروں سے گھنٹوں بریفنگ اور سوالات ہوں گے۔ تاہم میری مایوسی کی حد نہ رہی جب دیکھا کہ اجلاس میں صرف دو سینیٹرز مشاہد حسین اور سلیم ضیاء موجود تھے۔ چیئرمین بادینی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ متعلقہ وزیر زاہد حامد بھی اجلاس میں موجود تھے۔ مشاہد حسین کچھ دیر بیٹھے اور حکومت کی تعریف کرنے کے بعد چلے گئے۔ شکر ہے بعد میں سینیٹر احمد حسن اور ایک خاتون سینیٹر بھی تشریف لے آئے چنانچہ تین سینیٹرز کے ساتھ یہ اہم اجلاس شروع ہوا۔
موسمی تبدیلیوں کے اثرات پر گفتگو شروع ہوئی تو وزارت موسمی تبدیلی و ماحولیات کے افسران کا ہر دوسرے سوال پر یہ کہنا تھا کہ یہ معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ سب ایشوز صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں۔ ایک افسر سے پوچھا گیا تو پتا چلا وہ اجلاس میں تیاری کر کے نہیں آئے۔ بولے، پنجاب حکومت سے پوچھ کر بتادیںگے۔ جس کام کے لیے اجلاس بلایا گیا تھا اس بارے میں کسی کو کچھ پتا نہ تھا۔ میں ان افسران کی اس اہم ایشو پر سمجھ بوجھ اور لاپروائی پر حیران ہوتا رہا اور سوچ میں پڑ گیا کہ آیا ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے؟ جن بیوروکریٹس کو موسمی تبدیلیوں کا پتا نہیں وہ کیا پالیسی بنائیں گے اور کس طرح ملک کو آگے لے کر چلیں گے؟ بیوروکریٹس کو یہ پتا ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، انہیں سیاستدانوں کو قابو کرنے کے طریقے آتے ہیں۔
اگر سب کام صوبوں کا ہے تو پھر موسمی تبدیلیوں کی وزارت کیوں قائم کی گئی؟ کیا کسی وزیر میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ یہ کہہ کر استعفیٰ دے دے کہ جناب! اس وزارت کا کوئی کام نہیں، وہ سارا دن دفتر بیٹھتے ہیں، سینکڑوں ملازم ہیں،کروڑوں کا بجٹ ہے لیکن کرنے کو کوئی کام نہیں، اس لئے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کے امور اب صوبوں کے پاس ہیں، میں قوم کا بجٹ ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا، لہذا میں مستعفی ہو رہا ہوں، اس وزارت کو ختم کردیا جائے۔کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے؟ سب جھنڈے والی گاڑی رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہر دوسرے سوال کا جواب موسمی تبدیلیوں کی وزارت نے یہی دینا ہے کہ یہ صوبائی معاملہ ہے تو پھر یہ وزارت کیا کر رہی ہے، ہم نے سفید ہاتھی کیوں پالا ہوا ہے؟
جو دستاویزات اجلاس میں پیش کی گئیں انہیں پڑھ کر دلچسپ انکشاف ہوا کہ اس سال نومبر میں مراکش میں موسمی تبدیلیوں کی بارہ روزہ کانفرنس ہو رہی تھی۔ پاکستانی بیوروکریسی کو اس بہترکیا موقع مل سکتا تھا، فوراً وفاقی وزیر زاہد حامد کو اطلاع دی گئی کہ سرجی تیار ہوجائیں۔ وزیر موصوف کے پاس اس وزارت کا ایڈیشنل چارج ہے کیونکہ مشاہد اللہ خان کے بعد یہ وزارت چارج پر ہی چل رہی ہے۔ اس دورے کے انتظامات ہونے لگے تو فیصلہ ہوا کہ سب لوگ جائیں گے۔ وزارت کے سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، دو جوائنٹ سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور تین سیکشن افسر۔ انچارج وزیر کی پی آراو خاتون افسر اور کئی دوسروں کو وفد میں شامل کیا گیا۔ اسی پر بس نہ کی گئی، وزارت خارجہ کے دو افسروں نے کہا وہ بھی اس وفد میں شامل ہوںگے۔ سول سوسائٹی کے کچھ لوگ بھی وفد میں شامل کر دیے گئے۔ یوں اٹھارہ لوگوں کا وفد مراکش میں بارہ روز موجود رہا۔ اکثریت ان افسروں کی تھی جن کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کوئی مجھے سمجھائے کہ جوائنٹ سیکرٹری ایڈمن کا موسمی تبدیلیوں کی کانفرس میں کیا کام تھا؟ یا پھر وفاقی وزیرکی پی آر او خاتون وہاں کیا کرنے جا رہی تھیں؟ موسمی تبدیلی کی وزارت کے دس افسر وہاں کیا کرنے گئے جوکچھ روز بعد ٹرانسفر ہو کر کسی دوسری وزارت میں کام کر رہے ہوںگے؟ جب پاکستان موسمی تبدیلیوں کے اثرات بھگتنے کے لیے تیار ہورہا ہے، ہم دنیا کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں اور وہ افسرکانفرس میں بھیج رہے ہیں جن کا پاکستان میں کام افسروں کی چٹوں پر پٹرول دینا، ٹی اے ڈے بنانا،کرسی میزخریدنا اور سرکاری گاڑیاں سیاستدانوں، ان کے خاندان میں تقسیم کرنا ہے۔
آپ اندازہ لگا لیں کہ اس ملک کو کیسے چلایا جارہا ہے۔ جب اجلاس میں پوچھا گیا کہ موسمی تبدیلیاں پاکستان پرکیا تباہی لارہی ہیں اور ان کا تدارک کیسے کریں گے تو متعلقہ افسران اور وزارت ماحولیات کا کہنا تھا کہ یہ سوالات ان سے نہ کریں کیونکہ اب یہ صوبائی محکمہ کا معاملہ بن چکا ہے۔ جب مراکش جانا تھا تو یہ مرکزی حکومت کے یہ اٹھارہ افسران بارہ روز تک مزے کرتے رہے۔
ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ ایک گھر میں گدھا اور بندر اکٹھے رہتے تھے۔ رات کو بندرکو بھوک لگتی تو وہ کچن میں جا کر آٹا کھا جاتا۔ واپسی پرکچھ سوکھا آٹا گدھے کے منہ پر مل دیتا۔ اگلی صبح مالک کھوتے کی پھینٹی لگانا شروع کرتا اور بندر ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھتا رہتا۔
یہی کچھ میرے پیارے زکوٹا جن کررہے ہیں۔ مراکش میں اٹھارہ افسران اور وزیر صاحب بارہ روز تک مزے کرنے کے بعد اب واپسی پر آٹا صوبوں کے منہ پر مل رہے ہیں۔۔۔۔!