تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     07-12-2016

مارے گئے سفید دھن والے

دسمبر کی پہلی تاریخوں میں ملک کا نظارہ کیا ہے ؟لاکھوں لوگ قطاروں میں لگے ہوئے ہیں ۔نوٹ بندی کو کئی دن ہو گئے لیکن عوام کو کوئی راحت نہیںملی ۔اس میں شک نہیں کہ سرکار ہر دن تابڑ توڑ انتظام کر رہی ہے۔ جیسے ڈوبتا ہوا بد حواس آدمی ہر طرف ہاتھ پائوں مارتا رہتا ہے ‘ہماری سرکار بھی اس مشکل وقت سے بھی بچ نکلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن نہ تو مشکل کا کوئی حل دکھائی پڑ رہا ہے اور نہ ہی سرکاری کوششوں کا !ابھی کالا دھن ظاہر کرنا ‘پکڑنے اور چھاپہ مارنے کی بات تو سب بھول گئے ہیں ۔ابھی تو سب اسی میں سبھی کھو گئے ہیں کہ نئے نوٹ عام عوام تک کیسے پہنچیں ؟اگر یہ پریشانی یکم جنوری تک بھی بنی رہی تو لوگوں کا اس سرکار پر سے اعتماد اٹھ جائے گا ۔سرکار پر سے ہی نہیں ‘روپیہ نام والی کرنسی سے بھی !پرانی کرنسی سے اٹھ ہی گیا ہے ‘اب نئی سے بھی اٹھ جائے گا۔ بدعنوان اور دہشت گرد بھی نئی سرکاری کرنسی میں صرف نئے دو ہزار کے نوٹ کا بھی استعمال کریں گے اور محترم مودی صاحب کو دل سے دعا دیں گے۔ اب عام لوگ نوٹ اور کرنسی کے بجائے سونا ‘چاندی ‘زمین ‘ڈالر ‘پائونڈوغیرہ کو ہی اپنی ملکیت کی صورت میں سنبھالنے لگیں گے ۔بینکنگ ‘ڈیجیٹائزیشن ‘کاغذی ٹرانسفر وغیرہ کا بخار اپنے آپ اتر جائے گا ۔ غور کریںکہ ملک کی اس سے 90 فیصد عوام جو نقد پر مدار رکھتی ہے ‘اس کا کیا ہوگا؟ انگریزی میں چلنے والی بینکوں کی تجارت ملک کے کتنے لوگوں کے پلے پڑے گی ؟ایسا نہیں ہے کہ سرکار میں بیٹھے لوگ قطعی بے وقوف ہیں ۔وہ اپنی کرتوت کو سمجھ رہے ہیں ۔پھر بھی وہ مجبور ہیں ۔ اب انہوں نے سونے کا شوشا چھوڑ دیا ہے ۔اس گڑھے مردے کو اکھاڑ کر وہ اس کے ہاتھ پائوں ہلوا رہے ہیں۔ لوگوں کے دل میں فضول کی دہشت پیدا کر رہے ہیں ۔اب سرکار حکومت کرنا چھوڑ کر گھر گھر میں جا کر لوگوں کا سونا تلاشے گی۔ 22 - 23 دن میں اس نے ایک بھی بڑے لیڈر کو یا بڑے امیر یا بڑے افسر کو نہیںپکڑا ۔وہ کیا خاک کالادھن ختم کرے گی ؟اب کالے دھن کے بننے کی رفتار دوگنا ہو گئی ہے۔بیچارے سفید دھن والے مارے جا رہے ہیں ۔انہیں اپنے پیسے پانے کے لیے بھی بھکاریوں کی طرح لائن میں لگنا پڑ رہا ہے ۔
بھاجپا کی جیت کا راز
ملک کے سیاستدان اور مودی کے مخالف لیڈر حیران ہیں کہ مہاراشٹر اور گجرات کے مقامی چنائوں اور ایم پی کے چھوٹے چنائوں میں بھاجپا کیسے جیت گئی ؟اگر نوٹ بندی کے فیصلے سے عام عوام کی زندگی تکلیف میں آگئی ہے تو اس نے بھاجپا کو اتنے زوردار ڈھنگ سے کیوںفتح دلوائی ؟یہ سوال بے حد ضروری ہے۔اس کے دوجواب ہو سکتے ہیں ۔پہلا تو یہی کہ جو میں8 نومبر سے ہی کہہ رہا ہوں ۔وہ یہ کہ ملک کا عام آدمی یہ مان کر چل رہا ہے کہ مودی نے نوٹ بندی کا یہ فیصلہ اپنے مطلب کے لیے نہیں کیا ہے اور نہ ہی بھاجپا کے لالچ کے لیے ۔یہ فیصلہ ملکی مفاد کے لیے کیا گیا۔ لوگوں کو جو مشکلات ہو رہی ہیں ‘وہ صرف اس لیے ہو رہی ہیں کہ بینکوں میں نئے نوٹ نہیں ہیں ۔وہ جیسے ہی آتے جائیں گے ‘ان کی مشکلات دور ہوتی چلی جائیں گی ۔وہ اس بات سے مطمئن ہیں کہ کالادھن ختم ہونے سے امیروں پر نکیل کسی جا سکے گی۔وہ امیروںکو آنے والی پریشانیوں سے خوش ہیں ۔ان بیچاروں کو پتا ہی نہیں ہے کہ امیر لوگوں نے قطاروں میں کھڑے ہوئے بنا ہی کروڑوں اربوں کھربوں سفید کر لیے ہیں ۔جو بھی ہو ‘ اسی طبقے کے علاوہ بھاجپا کی جیت کا دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ مقامی چنائوں میں سدا ملکی مدعوں کا اثر کم ہی ہوتا ہے ۔نوٹ بندی کا اصلی اثر تو دوتین ماہ بعد ہی پتا چلے گا ۔ عام آدمی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا سارے ملک کی جی ڈی پی کا آنکڑہ اوپر گیا یا نیچے گیا ‘ڈالر70 کا ہو ا یا100 کا ہوا اور اقتصادی ترقی 7 فیصد ہوئی یا 7.5 ہوئی ۔وہ تو تب بھن بھنائے گا ‘جب کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہو جائیں گی ‘مزدوری یا تنخواہ اسے کم ملے گی یا وہ بے روزگا ہو جائے گا ۔ابھی پارلیمنٹ میں جو نیا انکم ٹیکس قانون ترمیم ہو اہے ‘اگر اس سے سرکار کے پاس اربوں ‘کھربوں روپیہ جمع ہو گیا اور سرکارنے ملک کے تیسرے طبقے کے سوکروڑلوگوں کو سیدھا فائدہ پہنچا دیا تو ملک میں مودی ہی مودی کا نعرہ لگے گا ‘چاہے اکانومی کا کباڑہ ہو جائے !اس وقت مقامی چنائو ہو یا نوٹ بندی ‘اپوزیشن کا حال خستہ ہے۔ اس کی بات لوگوں کے گلے ہی نہیں اتر رہی ۔ادھر نوٹ بندی کے بعد بدحواس سرکار آئے دن نئی نئی رعایات اعلان کر رہی ہیں ۔اب بھاجپا نے اپنے ارکان پارلیمنٹ سے ان کے دو ماہ کے کھاتوں کا حساب مانگا ہے۔ یہ نوٹنکی ہے ۔کیا اسے پتا نہیں کہ لیڈر اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ وہ اپنا کالادھن بینکوں میں رکھیں گے ؟عوام جانتا ہے کہ سارے لیڈر ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔
فلم سے قبل قومی ترانہ 
قومی ترانہ کا مکمل احترام ہو اس بات کا کون نہیں احترام کرے گا لیکن سپریم کورٹ کے دو ججوں نے ایک عجیب سا فیصلہ دے دیا ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ ہر سینما گھر میں ہر فلم سے پہلے قومی ترانہ ہونا چاہیے اور پردے پر ترنگا لہرانا چاہیے ۔اس موقع پر سینما گھر کے دروازے بند کر دیے جانے چاہئیں اور لوگوں کو خبردار کی پوزیشن میں کھڑے رہنا چاہیے ۔دس دن میں اس اصول کی فرمان برداری ہونی چاہیے ۔
مان لیں کہ اس فرمان کو ماننے میں کچھ ناظرین سے غلطی ہو جائے یا کچھ جان بوجھ کر کھڑے نہ ہوں تو عدالتیں کیا کر لیں گی؟کیا انہیں یا سینما مالکوں کو گرفتار کر لے گی ؟اگر ایسا ہی کرنا ہے تو کیا آپ بھارت کو سوویت یونین اور مائو کے چین کی طرح پولیس سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں ؟یہ بڑی اٹ پٹی بات ہے کہ لوگ اپنی انٹر ٹینمنٹ کے لیے موڈ میں فلم دیکھنے جائیں اور وہاں کھڑے ہو کر گہرائی سے قومی ترانہ پڑھیں ۔آپ کی دلیل یہ ہے کہ ربڑی کھانے کے پہلے آپ کریلا ضرور کھائیں ‘کیونکہ کریلا شوگر کے لیے مفید ہوتا ہے ۔ایسا کرکے آپ ربڑی اور کریلے دونوں کا مزا چوپٹ نہیں کر رہے کیا؟اگرسینما دیکھنے کے پہلے قومی ترانہ ضروری ہے تو کھانا کھانے ‘باتھ روم جانے اور سہاگ رات منانے کے پہلے بھی قومی ترانہ لازمی کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے ؟ وطن پرستی سکھانے کے یہ سستے اور مزاحیہ طریقے ہیں ۔انہیں لے کر طرح طرح کے مسئلے سینما گھروں میں کھڑے ہونے لگیں گے۔وہ سینما گھر نہیں ‘اکھاڑے بن جائیں گے ۔اس فیصلے کے پیچھے جو جذبات ہیں‘ان کا احترام سبھی کو کرنا چاہیے لیکن چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ عدالت کی ایک بڑی بینچ کو یہ معاملہ دوبارہ غور کرنے کے لیے فی الفور حوالے کر دے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved