چیل
اس کے گھونسلے میں ماس نہیں ہوتا جبکہ کوئی بیوقوف ہی چیل کے گھونسلے میں ماس ڈھونڈنے جائے گا۔ چیل جب انڈہ چھوڑ رہی ہو تو سمجھ لیجیے کہ بہت گرمی پڑ رہی ہے؛ حالانکہ اس لوڈ شیڈنگ میں پہلے بھی سب کی جان نکل رہی ہوگی۔ اس کی اعلیٰ نسل گدھ کہلاتی ہے۔ ایک راجہ گدھ بھی ہوتا ہے لیکن رانی گدھ کا کبھی نہیں سنا کہ ہوتی ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہوتی تو ہمیں راجہ گدھ سے دلی ہمدردی ہے کیونکہ اس نے اگر چھڑے چھانٹ ہی رہنا تھا تو اسے راجہ بننے کی کیا ضرورت تھی۔ چیل اور پتنگ کو انگریزی میں کائٹ کہتے ہیں، البتہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہ نام چیل کو دیکھ کر رکھا گیا یا پتنگ کو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مردار خور پرندہ ہے۔
باز
شکاری پرندہ ہے۔ اسے ہاتھ پر بٹھائے رکھنا پڑتا ہے۔ ایک ہاتھ تھک جائے تو دوسرے ہاتھ پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسے شہباز بھی کہتے ہیں۔ شہباز برادران اب اپنی طرح کا شکار کھیلتے ہیں۔ بازہونے کے باوجود شکار سے باز نہیں آتا۔ سوچنا پڑے گا کہ اس کا نام کس احمق نے رکھا ہوگا۔ شاعر تو یہی کہتا ہے کہ جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے وہ اس کے لہو میں بھی نہیں، لیکن اگر یہ ہر وقت کبوتر پر جھپٹتا ہی رہے تو بھوکوں مر جائے۔ ایک اور شاعر کے مطابق کبوتر کبوتر کے ساتھ اڑتا ہے اور باز باز کے ساتھ۔ ہم نے دونوں کو ساتھ ساتھ اڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے، شاید باز اس وقت شکم سیر ہو۔ مادہ بازکو بھی باز ہی کہتے ہیں، بازنی نہیں۔
طوطا
اس کی ناک بالکل طوطے جیسی ہوتی ہے اور آنکھیں بھی طوطے ہی جیسی، اسی لیے اسے طوطا چشم کہتے ہیں۔ اس کا رنگ بھی طوطے جیسا ہی ہوتا ہے۔ عیاش پرندہ ہے۔ منقول ہے کہ ایک طوطا گھر سے نکلا تو دیر تک واپس ہی نہ آیا۔ دوسرے طوطوں کو فکر ہوئی تو وہ اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں دیکھا کہ ایک ریگستان میں نیم مردہ حالت میں پڑا ہے اور اس کے اوپر ایک چیل منڈلا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، یہاں کیا کر رہے ہو، گھر چلو، تو وہ بولا، شی۔۔۔۔چیل پھنسا رہا ہوں۔ کچھ طوطے باتیں بھی کرتے ہیں، زیادہ تر تو ٹیں ٹیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ پالتو طوطے کے لیے خاتون خانہ چوری تیار کرتی ہے اور اس سے پوچھتی ہے، میاں مٹھو چوری کھانی ہے؟ اس امید پر کہ اگر وہ انکار کردے تو خود کہا سکے۔
بگلا
اسے بگلا بھگت بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا ہے گویا کوئی چلہ کاٹ رہا ہے۔ مچھلی بزرگ سمجھ کر اس کے قریب سے گزرتی ہے تو یہ مچھلی کاکام تمام کرکے پھر تپسیا میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اعلی نسل کا بگلا راج ہنس کہلاتا ہے اور کئی اساطیری کہانیوں میں اس کا ذکر اور کارنامے بیان کیے گئے ہیں۔ بگلا اسے بگا (سفید) رنگ ہونے کی وجہ سے بھی کہتے ہیں ورنہ اور تو اس فضول سے نام کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ پگلا کا ہم قافیہ ہے۔ پانی سے بھرے کھیت میں اگر آپ کو سفید چادر بچھی نظر آئے اور آپ چادر کے لالچ میں آگے بڑھیں تو وہ بگلے ہوں گے جواس چادر کو ساتھ لے کر اڑجائیں گے اور آپ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے۔
کوّا
یہ وہ پرندہ ہے جس سے ہمیں ہر وقت واسطہ پڑتا ہے کیونکہ کوا اگر ہماری زندگی سے نکال دیا جائے تو یہ بالکل بے کیف ہوکر رہ جائے۔ کھانے کی جملہ اشیاء میں اپنے آپ کو ساجھے دار سمجھتا ہے اور ذرا سی غفلت دکھائیں تو یہ آپ کے آگے دستر خوان سے کوئی بھی چیز اچک کر یہ جا وہ جا۔کہا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے کوا کاٹتا ہے جو بالکل غلط ہے، ہم کئی بار جھوٹ بول کر اس کے سامنے سے گزرے ہیں لیکن اس نے کوئی توجہ نہیں کی۔ بدتمیز ہونے کے باوجود اس قدرحیا دار ہے کہ اسے کبھی کسی نے اپنی مادہ کے ساتھ اختلاط کرتے نہیں دیکھا جیسا کہ مرغ مرغی اور چڑیا چڑے اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ اس پر الزام یہ بھی ہے کہ کوئل کے انڈے پی جاتا ہے۔ کوئل اپنے انڈے سنبھال کر کیوں نہیں رکھتی۔
ہُد ہُد
شاید اس کی ہیئت کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے؛ حالانکہ اس کے ساتھ یہ سرا سر زیادتی ہے کہ بھلا ہد ہد کیا نام ہوا۔ لیکن اگر آپ اسے قریب سے دیکھیں تو آپ بھی قائل ہوجائیں گے کہ اس کے لیے موزوں ترین نام یہی ہوسکتا تھا۔ ہم اس کے بارے میں کوئی زیادہ جانکاری نہیں رکھتے لیکن یہ اپنے اندر کئی اوصاف جمیلہ ایسے ضرور رکھتا ہو گا کہ اسے اس قدر امتیازی نام دیا گیا۔ ویسے بھی اسے دیکھ کر دل، بلکہ پیٹ میںکھُد بُد ہونے لگتی ہے؛ حالانکہ آپ کوکسی حکیم نے نہیں کہا ہوگا کہ اسے اتنے غورسے دیکھیں۔ بہتر ہے کہ اس کی بجائے کسی اور پرندے کا تفصیلی معائنہ کرلیں۔
ممولہ
اس کا سائز تو بالکل معمولی ہوتا ہے لیکن اسے شاعر نے شہباز سے لڑا دینے کی تاکید کر رکھی ہے؛ حالانکہ اس کا نتیجہ سب کو پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اسی ترغیب پر قانون انسداد بے رحمی طیور کا نفاذ ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی اس کا محض ایک لقمہ ہی بنتا ہوگا؛ تاہم ممولہ ہونے کے باوجود کوئی ممولہ اتنا بیوقوف نہیں ہوسکتا کہ کسی کی ہلا شیری دینے پر شہباز سے پنگا لے بیٹھے کیونکہ ہر کسی کو اپنی حیثیت اور وجود کا پتا ہوتا ہے اور اس طرح کی احمقانہ دلیری دکھانے کے انجام کا بھی۔ سمارٹ اور خوبصورت پرندہ ہے اور شہباز کو اس کے ساتھ لڑائی کرنے سے ویسے بھی شرم آنی چاہیے جو حکومت کو تو آتی نہیں، شہباز کو کیسے آسکتی ہے؟
بُلبل
اسے بُلبُلِ ہزار داستا بھی کہتے ہیں اگرچہ ہمیں اس سے ایک بھی داستان سننے کا موقع نہیں ملا۔ گلاب کے پھول کی عاشق ہے اور ہر جائی نہیں، صرف اسی پر اکتفا کرتی ہے؛ حالانکہ باغ میں اور بھی رنگا رنگ پھول اپنی بہار دکھا رہے ہوتے ہیں۔ غالباً مسز سروجنی نائیڈو کو بھارت میں بلبل ہند کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اب تک اس خطاب کو پانے کی کوئی بھی بھارتی خاتون منظر عام پر نہیں آئی۔اسے عندلیب بھی کہتے ہیں کہ شاعر اس کے ساتھ مل کر آہ و زاریاں کرنے کے لیے بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ چنانچہ جس دوران پھول نہ ہوں یہ خود بھی شاعروں کی تلاش میں رہتی ہے کہ اس کے ساتھ مل کر آہ و زاری کے کار خیر کو سر انجام دے سکے۔ بلبل کے مذکر کو بلبلہ کہلانا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں۔
کوئل
آم کھاتی نہیں لیکن شعرائے کرام کے بقول یہ امبوا کی ڈالی پر ہی دستیاب ہو سکتی ہے۔ رنگ اس قدر کالا کہ ایسا لگتا ہے سیاہی سے ہی بنائی گئی ہے۔ کُوک اگرچہ اُداس آواز ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی کُوک ایک خوشگوار تاثر چھوڑتی ہے۔ کوئلے کی طرح کالی ہونے کی وجہ سے ہی شاید اسے کوئل کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا مذکر بھی کوئلہ ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔ لمبی دم والا سمارٹ اور خوبصورت پرندہ ہے۔ ہر صبح یہ اس وقت تک کوکتی رہتی ہے جب تک کہ آپ جاگ نہ جائیں، بیشک آپ کتنے ہی ڈھیٹ کیوں نہ ہوں۔ کوا بھی کالا ہوتا ہے لیکن اس کا سر اور گردن آف وائٹ ہونے کی وجہ سے اس کی سیاہی قابل برداشت ہو جاتی ہے۔
آج کا مطلع
تم بات کرو ہو نہ ملاقات کرو ہو
کاہے کو یہ سنگینیٔ حالات کرو ہو