ہماری دنیا کا یہ تضاد بھی خوب ہے کہ دو یکسر مختلف اعمال کے نتائج یکساں ہوا کرتے ہیں۔ کسی کو کھانے کے لیے کچھ نہ ملے تو وہ مر جائے۔ اور دوسری طرف وہ بھی مر جاتے ہیں جو ذہن کو زحمت دیئے بغیر یعنی نتائج کی پروا کیے بغیر کھاتے چلے جاتے ہیں۔ جو حال اسیری میں ہوا کرتا ہے وہی یا کچھ کچھ ویسا ہی حال مادر پدر، بے لگام آزادی میں بھی ہوا کرتا ہے۔ ہم دن رات یہ تماشا دیکھتے ہیں اور پھر اس تماشے میں گم رہنے کو زندگی سمجھ کر مطمئن ہو رہتے ہیں۔ راوی چَین بالکل نہ لکھ رہا ہو یا چَین ہی چَین لکھ رہا ہو ... ہر دو صورتوں میں انجام یا نتیجہ ایک سا ہی سامنے آتا ہے۔ ایک دوسری سے بالکل مختلف حالتوں کا ایک ہی نتیجہ ظاہر ہونے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے دو ''ڈسٹوپین‘‘ ناولز کا حوالہ دینا لازم ہے۔ جارج آرویل کے ناول ''1984‘‘ میں ایسا ماحول پیش کیا گیا ہے جس میں سخت پابندیاں ہیں، جبر ہے۔ اور لوگ گھٹن کے پنجرے میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف آلڈس ہکسلے کا ناول ''بریو نیو ورلڈ‘‘ ہے جس میں ہر انسان کو مکمل آزادی بخش دی گئی ہے اور دل و دماغ کو سُنّ کرنے والی ''راحتیں‘‘ بھی زائد از ضرورت تناسب سے فراہم کردی گئی ہیں۔ نتیجہ؟ یہ، نام نہاد آزادی سے ہم کنار انسان بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے!
ایک زمانہ تھا کہ اہل پاکستان میڈیا کی شدید قلت سے ''ہم کنار‘‘ تھے۔ لے دے کر بس ایک سرکاری ٹی وی چینل دستیاب تھا۔ گھر بیٹھے شائستہ اور حدود و قیود سے آشنا تفریح کے متلاشی افراد کی کل کائنات یہی پی ٹی وی تھا جو آج راندۂ درگاہ ہے۔ یا پھر ریڈیو پاکستان تھا۔ کھلی ڈلی اور قدرے آزاد تفریح کے شوقین سنیما ہال کا رخ کیا کرتے تھے۔ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی سے ''حقیقی‘‘ تفریح کا حصول ''خیال است و محال است و جنوں‘‘ والا معاملہ تھا۔ بہر حال، سرکاری ٹی وی پر چند ایک ڈرامے پیش ہوتے تھے جو بہ سر و چشم قبول کیے جاتے تھے۔ عوامی زبان میں کہیے تو مجبوری کا نام شکریہ۔
ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو وی سی آر آیا۔ کچھ مدت کے بعد وی سی آر کی کوکھ سے لیڈ سسٹم نے جنم لیا۔ اِس کے بعد سیٹلائٹ ٹی وی کے دور نے انٹری دی۔ ڈش اینٹینا لگاکر گھر بیٹھے دنیا کے ٹی وی چینلز دیکھنے کی سہولت میسر ہوئی۔ سیٹلائٹ ٹی وی نے کیبل ٹی وی کو جنم دیا۔ اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی! بقول اُستاد قمرؔ جلالوی مرحوم ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو!
کیبل سسٹم نے تفریح کے متلاشی افراد کے لیے اتنی آسانی پیدا کردی کہ ڈھنگ سے جینا مشکل ہوگیا۔ جب میڈیا کی بھرما رنہ تھی اور ایک آدھ چینل پر گزارا تھا تب زندگی میں خلاء ضرور تھا مگر ساتھ ہی ہی ساتھ اتنی فراغت بھی میسّر تھی کہ ہر کام کی بات کو کام کی بات تسلیم کرتے ہوئے برتا جاتا تھا۔ میڈیا کی فراوانی کیا ہوئی کہ ہم تو ہر کام کی بات سے گئے۔ قلت سے ''ہم کنار‘‘ رہنے کے بعد میڈیا کی بہتات سے ''دوچار‘‘ ہوکر ہم بے تعلّق سے معمولات میں گم ہوتے چلے گئے۔ اندھیرے میں کچھ سُوجھتا نہ تھا۔ اور اب روشنی ملی ہے تب بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا! بقول فرازؔ ؎
یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے
کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے!
اب سوال یہ نہیں ہے کہ ہم کیا دیکھیں۔ اِس سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ کیا نہ دیکھا جائے! اور ڈرامے صرف تفریحی چینلز تک محدودد نہیں، نیوز چینلز بھی یومیہ بنیاد پر طرح طرح کے ''ڈرامے‘‘ پیش کر رہے ہیں۔ نیوز چینلز کی مہربانی سے تقریباً سبھی کچھ الٹ، پلٹ کر رہ گیا ہے۔ معاملات کی اصلیت کو ہم تک پہنچانے کے نام پر خدا جانے کیا کیا ہمارے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہے۔ اور ہم قدرے لاشعوری حالت میں سب کچھ سنتے اور اس کا غیر محسوس طور پر اثر قبول کرتے جارہے ہیں۔ ایک بار پھر مجبوری کا نام شکریہ۔ ؎
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں!
ٹیکنالوجی کی ترقی اتنی ہمہ گیر اور برق رفتار ہے کہ کوئی بھی معاملہ سمجھ میں آرہا ہے نہ قابو میں۔ پریشانیاں ہیں کہ محسوسات کے پانیوں میں پتھر مارنے سے باز نہیں آرہیں مگر کم بختوں نے سَروں پر سلیمانی ٹوپی رکھی ہوئی ہے، دکھائی نہیں دیتیں! تختۂ دار کہیں دکھائی دے رہا ہے نہ کہیں رسن کی دید ہے مگر پھر بھی ہم ہیں کہ بندھے بندھے سے ہیں۔ ؎
نہیں جب پاؤں میں زنجیر کوئی
تو پھر یہ پاؤں میں زنجیر کیا ہے!
میڈیا (اور پھر ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق نازل ہونے والے سوشل میڈیا) کی مہربانی ہے کہ ہم الجھے ہوئے بھی ہیں اور اپنی الجھن کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم بھی ہوچکے ہیں! نتیجہ یہ ہے کہ کچھ پسندیدہ اور بہت کچھ ناپسندیدہ، جو کچھ بھی سامنے دھرا ہے وہ ناچار قبول کرنا پڑ رہا ہے۔ ؎
کھینچ کر تیغ یار آیا ہے
اِس گھڑی سر جھکا دیئے ہی بنے
میڈیا سے ہمارا بھی دیرینہ اور گہرا تعلق رہا ہے اور ہے مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہم اور ہمارے ''پیٹی بھائی‘‘ مفت میں بدنام ہیں۔ ہم اب محض پلیٹ فارم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قیامت تو ہم پر ٹھہرنے والی ٹرینوں نے برپا کر رکھی ہے۔ اداکاری اور سیاست کے درمیان ریس جاری ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ فنکار اچھی سیاست کر رہے ہیں یا سیاست دان معیاری اداکاری فرما رہے ہیں! عوام بھولے سائیں ہیں۔ وہ کبھی کبھی میڈیا والوں کو ذمہ دار قرار دے کر لپیٹ دیتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ یار لوگ جو کچھ بھی چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور ہمیں عبث بدنام کرتے ہیں۔ ؎
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
میڈیا والے تو بے چارے ''مفت ہوئے بدنام کسی سے ہائے دل کو لگاکے‘‘ کی منزل سے گزر رہے ہیں۔ میر تقی میرؔ کے پیرائے میں کہیں تو ہم مجبوروں پر مختاری کی تہمت ناحق لگائی گئی ہے۔ یار لوگ جو کچھ بھی چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور ہمیں عبث بدنام کرتے ہیں۔
میڈیا کے آنگن میں روزانہ شام کے اوقات میں الزامات اور جوابی الزامات کا چراغاں ہوتا ہے۔ ٹاک شو کے نام پر ''تاک شو‘‘ ہوتا ہے یعنی تاک تاک کر نشانے لگائے جاتے ہیں! سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پلے ہوئے مرغوں کو میدان میں لاتی ہیں۔ سیاسی مرغوں کی یہ یومیہ لڑائی اب قوم کی سائیکی کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب ناٹک ہے، ڈھکوسلا ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لوگ ناٹک اور ڈھکوسلا ہی تو دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ اگر سیاست دان اور فنکار سنجیدہ نہیں ہیں تو کیا ہوا؟ عوام کون سے سنجیدگی کی منزل میں ہیں؟ اسی کو تو کہتے ہیں جیسی روح ویسی فرشتے!
قوم بے تعلق سے معاملات میں ایسی کھوئی ہوئی ہے کہ ہر وہ معاملہ ذہنوں کے کاٹھ کباڑ میں گم ہوکر رہ گیا ہے جو ہمارے بنیادی مفادات سے متعلق ہے۔ اہلِ وطن ہر اُس معاملے میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں جس کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ میڈیا وہ دکان ہے جس میں دکان دار تو باہر کھڑا ہے اور باہر کے لوگ دکان داری فرما رہے ہیں۔ سوچ، پالیسی اور حکمتِ عملی اپنی جگہ۔ معاملہ یہ ہے کہ شوبز اور سیاست کے لوگ اب اپنے اپنے جھنڈے تھام کر اپنے اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں اور کامیابی سے ہم کنار بھی۔
معاشرے کو مستحکم اور متوازن رکھنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے والے میڈیا ہاؤسز کم ہیں۔ اُن کی آواز اِس وقت اُسی کیفیت سے دوچار ہے جس سے نقار خانے میں طوطی کی آواز دوچار ہوا کرتی ہے۔ یہ دو چار چینل لاکھ کوشش کر گزریں، بات تو اُنہی سُنی جاتی ہے جو واضح اکثریت میں ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی مرضی کا راگ الاپتے ہیں۔ کوئی ممکنہ نتائج سے کتنا ہی ڈرائے، لوگ من بھاتی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ ع
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کے ملاپ سے ایک ایسی تلوار تیار ہوئی ہے جس کے آگے گردن جھکا دینا محض مجبوری کا سودا نہیں بلکہ اِس سے بہت آگے جاکر اُسی کیفیت کی اسیری اختیار کرنے کا معاملہ ہے جس کے لیے میرزا محمد رفیع سوداؔ نے کہا تھا ع
ساغر کو مِرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں