تاریخ انسانی شاہد ہے کہ جب بھی کبھی انسان ،اعتقادی، اخلاقی اورمعاشی اعتبار سے پستیوں کی گہرائیوں میں جا گرا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انبیاء علیہم السلام کا مبعوث فرمایا۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمودکے لوگ جب بداعتقادی کی تمام حدود کو عبور کر چکے تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو صحیح عقیدہ سمجھانے اور ان کی بداعتقادی کو دور کرنے کے لیے حضرت نوح، حضرت ہود ، حضرت صالح علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ قوم سدوم کے لوگ بے راہ روی کی انتہا پرپہنچ چکے اور ہم جنسیت کو اپنا وتیرہ بنا چکے تھے ایسے عالم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو ان کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ قومِ شعیب کے لوگ کاروباری معاملات میں بے اعتدالی کا شکار ہو چکے تھے وہ نفع حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے اخلاقی ضابطوں کو پامال کرنا شروع ہو چکے تھے اور ناپ تول میں کمی کرنا ان کا شعار بن چکا تھا ۔ان کی اصلاح کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔
نبی کریم ﷺ جس علاقے میں مبعوث کیے گئے اس علاقے کے لوگ گو نسلی اور تاریخی اعتبار سے حضرت ا براہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے وارث تھے اوراللہ تبارک وتعالیٰ کے گھر بیت اللہ کے گردو نواح میں آباد تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان میں ہر قسم کی بداعتقادی اور بدعملی اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ان کی بداعتقادی کا عالم یہ تھا کہ شجر وحجر ، سورج ، چاند اور ستارے کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکایا کرتے تھے، اپنے ہاتھوں سے خود بتوں کو تراش کر ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے گھر میں نصب کر دیا کرتے اور انہی کے سامنے جھکا کرتے تھے۔ اس بداعتقادی کے ساتھ ساتھ ان میں طرح طرح کے عیوب بھی موجود تھے۔ اپنی بیٹیوں کی پیدائش پر شرمندگی محسوس کرتے اور اپنے رفقاء اور ساتھیوں کے طعنوں سے بچانے کے لیے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، شراب کے جام لنڈھایا کرتے اور ہر وقت نشے میں مست رہا کرتے تھے۔ یہ لوگ نا انصافی اور ظلم کی تمام حدوں کو عبور کر چکے تھے۔ جب ان میں سے کوئی بڑا شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو استثنیٰ حاصل ہوتا اور اگر کوئی چھوٹا شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو کڑی سزا دی جاتی۔ جوا، قمار بازی، قحبہ گری اپنے پورے عروج پر تھی۔ گویا کہ انسانیت اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس کو اپنی منزل کا سورا غ نہیںمل رہا تھا ۔
ایسے عالم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت پر رحم کرنے کاارادہ فرمایا ۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺ کو اولاً جزیرۃ العرب اور حتمی اور منطقی طور پر پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمادیا۔ نبی کریم ﷺ اپنے سماج میں پائی جانے والی بد اعتقادی اور بے راہ روی پر غمگین رہا کرتے تھے اور آپ کو ان کے نا پسندیدہ مشاغل میں کسی بھی قسم کی کوئی کشش محسوس نہ ہوتی چنانچہ آپ ﷺنے خلوت نشینی اختیار کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس مقصد کے لیے غارِ حرا کو منتخب فرما لیا۔ غارِ حرا میں آپ ﷺانسانی رویوں، کائنات کی حقیقت ، تخلیق انسانیت کے مقاصد، انسانوں کی درماندگی ، ان کی وحشت کودور کرنے والے ،ان کی فکری اور اعتقادی بے راہ روی کوختم کرنے والے اسباب و ذرائع اوردیگر اہم امور پر غور فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی غار حرا میں آپﷺکے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج کر آپﷺکے سر پر تاج امامت و نبوت کو رکھ دیا اور رسول اللہﷺ پر حکمت و دانائی کے دروازے کھول دیے اور آپ کو ان تمام مسائل اور پیچیدگیوں کا حل بتلا دیا گیا کہ جن پر عمل پیرا ہو کر بھٹکی ہوئی انسانیت کو اپنی منزل مل سکتی تھی۔
مولانا الطاف حسین حالی نے غارِ حرا میں حضرت رسول اللہﷺ کے تفکر وتدبر اور وہاں پر آنے والی وحی کے بعد پیدا ہونے والے انقلاب کے حوالے سے اس امر کا ذکر فرمایا ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
حضرت رسول اللہ ﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر جزیرۃ العرب میں توحید کی عظیم دعوت کا آغاز کیا۔ آپﷺ نے سب سے پہلے عرب کے معاشرے میں موجود بداعتقادی کے خلاف علم جہاد کو بلندکیا۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے اہل عرب کو اس امر سے آگاہ کیا کہ یہ بت ، سورج ، چاند، ستارے کسی قسم کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہو سکتے۔ آپ نے ان کو ایک اللہ کی بارگاہ اور چوکھٹ پر جھکنے کا سبق پڑھایا۔ اہل عرب آپ کی اس دعوت پر آپ کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ آپﷺ کو طرح طرح کی اذیتوں اورتکالیف کا نشانہ بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے ہر طرح کی اذیتوں ، تکالیف اور مشکلات کو جھیلنا گواراکر لیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت سے دستبردار نہ ہوئے۔
دعوت توحید کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے اہل عرب کو بد عملی سے نکلنے کی ترغیب دی۔ آپ ﷺنے انہیںبیٹیوں کو زندہ در گور کرنے سے منع فرمایا، انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت قرار دیا۔ آپ نے ان کو بدکرداری کے راستے سے ہٹا کر عفت، طہارت، تزکیہ اورشرافت کا درس دیا اور ان کو زنا کاری کی بجائے نکاح کی ترغیب دی۔ آپ ﷺنے معاشرے میں موجود معاشی استحصال کے تمام دروازوں کو بند کیا ۔ آپﷺنے سود کی لعنت سے معاشرے کو نجات دی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے انسانیت کو اس بات سے آگاہ کیا کہ سود کھانا اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ آپ ﷺنے عورت کی عظمت کو اجاگر کیا اور اس کی طرف بڑھنے والی بے راہ رو نگاہوں اور ہاتھوں کو روکنے کے لیے اس کو پردے داری کا سبق پڑھایا۔ پردے کے ذریعے عورت کی عزت اور آبر و ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی۔ آپ نے معاشرے میں جاری ناانصافی اور استحصال کے خاتمے کے لیے اس بات کو واضح کیا کہ جرم کرنے والا شخص خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اس کو ہر صورت اس کے جرم کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ آپ کے عہد مبارک میں بنو مخزوم کی ایک صاحب اثر عورت نے چوری کی۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے اس کے ہاتھ کو کاٹنے کا حکم دیا۔ حضرت اسامہ ابن زید جو کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کے محبوب صحابی ہیں انہیں بارگاہ رسالت مآب میںبطور سفارشی بھیجا گیا ۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا تھا اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کو کاٹ ڈالوں گا ۔
آپ نے قحبہ گری کا خاتمہ کیا اور غلامی کی حوصلہ شکنی کی۔ آپﷺ نے نسلی تفاخر کے تمام دروازوںکو بند کر دیا اور عرب وعجم کے درمیان فضیلت کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ کو قرار دیا۔ آپﷺ نے خاندانی وجاہت اور حسب ونسب کو مدارِ نجات قرار دینے کی بجائے اعمالِ صالحہ کو مدارِ نجات قرار دیا اور آپﷺ کے اپنے صحابہ میں بھی ایسے احساسات کو بیدار کیا کہ وہ دوسروں کی عزت حسب ونسب کی بجائے اعمال صالحہ کی بنیاد پر کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اچھے اعمال ہی کی وجہ سے صحابہ کرام میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنی تئیس سالہ عہد مبارک میں ایک ایسے انقلاب کو برپا کیا کہ جس نے جزیرۃ العرب کو روشن کر دیا۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کے بعد یہ انقلاب جزیرۃ العرب سے باہر نکل کر روم اور ایران اور بعد ازاں پوری دنیا تک پہنچ گیا۔ حضرت رسول اللہ ﷺ بجاطور پر محسن انسانیت ہیں ۔ آج بھی انسانیت اپنی درماندگیوں اور گمراہیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔