آج میں اہل وطن کے ساتھ پھر اسی غم میں شریک ہوں‘ جو روزانہ ہمارے دلوں میں اترتا ہے۔ شاید آپ کا ذہن اس طیارے کی طرف جائے جو 50 کے قریب زندہ انسانوں کو جلاتے ہوئے حویلیاں کی پہاڑیوں پر اتر گیا۔ مگر جب وہ زمین پر اترا تو شعلے ہی شعلے تھے۔ جہاز بھی جل رہا تھا۔ مسافر بھی جل رہے تھے اور آفرین ہے گردونواح کے ان پہاڑی انسانوں کو‘ جنہوں نے بے یارومدد گار مسافروں کی مدد کرنے کے لئے اپنی جانیں دائو پر لگا دیں۔ اس وقت تک وہاں پر جدیددور کا کوئی بھی انتظامی مدد گار نہیں پہنچ پایا تھا۔ پہاڑوں کے ان باسیوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ پتھریلی چوٹیوں پر زندہ جلتے ہوئے یہ انسان کون ہیں؟ شاید ان کی پاکیزہ روحانی کیفیتوں کو اندازہ ہو گیا ہو کہ جلنے والوں میں پاکستانیوں کی ایک خوبصورت روح بھی شامل ہے۔ یہ ایک نوجوان تھا‘ جو وطن کے ترانے گاتا ہوا‘ دین کی راہ پر چل پڑا اور پھر بڑھتا ہی چلا گیا۔ ایک زمانہ تھا‘ اس کا ترانہ ''دل دل پاکستان‘ جان جان پاکستان‘‘ زبان زدعام تھا۔ پاکستانیوں کے لئے ان کا وطن اور ان کا دین‘ ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ ہمارے قومی ترانے گانا بھی عبادت ہے اور وطن کی شان میں لکھے گئے گیت گانا بھی عبادت ہے۔ اہل پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے کہ ہم اپنے وطن اور دین کو الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ بہت کوشش کی گئی۔ بہت نظریات لادے گئے۔ بڑی منطق جھاڑی گئی۔ لیکن پاکستانیوں کے اندر سے ان کے مذہب اور ان کی وطن پرستی کو جدا نہیں کیا جا سکا۔ مجھے فضائی حادثوں کی تفصیل معلوم نہیں۔ لیکن جس طرح حویلیاں کے لوگوں نے مسافروں سے بھرے ہوئے ایک طیارے کو شعلوں کی چادر لپیٹ کر پہاڑوں پر گرتے دیکھا‘ ان دیہاتیوں میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ طیارے کے اندر کون ہے؟ پاکستانی بھی ہو سکتے تھے۔ چینی بھی ہو سکتے تھے اور دنیا کی دوسری قوموں کے لوگ بھی ہو سکتے تھے۔ لیکن بیرونیوں کی تعداد صرف تین تھی۔ باقی سب پاکستانی تھے۔ حویلیاں کے دیہاتیوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کس کی مدد کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں؟ لیکن جلنے والے سب انسان تھے۔ سب کے جسموں سے نکلنے والے شعلے ایک ہی جیسے تھے۔ وہ بھی تمام انسانوں کی طرح ایک جیسے تھے اور پھر ایک ایسی حقیقت سامنے آئی‘ جس سے ہر روز ہمارا واسطہ پڑتا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں۔ وہ حقیقت یہ تھی کہ انسان جب موت کے مرحلے سے گزر کر مٹی میں جاتا ہے‘ تو پھر اس کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے۔
حویلیاں کی پہاڑی چوٹیوں پر راکھ بن کر گرتے ہوئے طیارے کے ٹکڑوں اوراس کے مسافروں کے جسموں کے دہکتے انگاروں کی کوئی شناخت نہیں ہو پا رہی تھی۔جو حقیقت قبر میں دفن رہنے و الے مرحومین تک بہت دیر میں پہنچتی ہے‘ وہ چند لمحوں میں ہمارے زندہ مسافروں نے راکھ میں بدل کر دیکھ لی۔ اصل حقیقت یہی ہے۔ نظام قدرت‘ زمین کے اندر دفنائے ہوئے مردہ جسموں میں بتدریج اترتی ہوئی موت کو مٹی بنا کر زمین کا حصہ بنا دیتا ہے۔ اسی موت نے ہم سب کی آنکھوں کے سامنے زندہ انسانوں کو چند لمحوں کے اندر راکھ میں بدل کر بکھیر دیا۔ یہی ہماری حقیقت ہے۔ ساری سائنسی طاقت استعمال کر کے بھی ہمیں پتہ نہیں چل پایا کہ مرنے والے کون تھے؟ پہچانے بھی کیسے جاتے؟ مٹی مٹی میں مل گئی تھی اور جو عمل برسوں میں مکمل ہوتا ہے‘ ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں کے اندر مکمل ہو گیا اور اب ہم ڈی این اے ٹیسٹ کرتے ہوئے تلاش کرتے پھر رہے ہیں کہ کون کیا تھا؟ کس کا اپنا تھا؟ کس کا دوست تھا؟ کس کے ساتھ کون سے رشتے میں جڑا ہوا تھا؟ سب ٹوٹ گیا۔ سب بکھر گیا۔ زندگی کی حقیقت یہی ہے۔ ہمارے پاس صرف آنسو رہ جاتے ہیں۔ ہمیں انہی آنسوئوں کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ ان آنسوئوں کے سوا صرف یادیں ہوتی ہیں‘ جو ہمارے ذہنوں میں تڑپتی رہتی ہیں۔
پاکستان میں ہوا بازی کے دوران جو سانحے رونما ہوئے ان کی تاریخ دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ سفر کے اس محفوظ ترین ذریعے کا ہم نے کیا حال کیا؟ دنیا کے وہ ممالک جہاں فضائی سفر کا اوسط ہم سے کہیں زیادہ ہے‘ و ہاں رونما ہونے والے سانحوں کا اوسط ہمارے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ ہم تھوڑے سے کھٹاراا طیاروں کو اڑاتے ہوئے تقریباً ان تمام ملکوں کو شکست دے چکے ہیں‘ جن کے یہاں مسافر طیارے زیادہ اڑتے ہیں لیکن حادثوں میں ہم نے ان میں سے بیشتر کو شکست دے دی ہے۔ ہمارے فخر اسی طرح کے ہوتے ہیں۔درج ذیل فہرست پر ایک نظر ڈالئے اور یاد کیجئے کہ ہم نے فضائی حادثوں میں کیا کیا گنوایا؟پاکستان میں پیش آنے والے فضائی حادثات کی تاریخ کچھ یوں ہے۔پاکستان میں آخری فضائی حادثہ 20 اپریل 2012ء کو نجی ایئر لائن بھوجا ایئر لائن کی پرواز لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی تھی۔ اس میں 127 افراد سوار تھے۔پاکستان میں کسی طیارے کو تقریباً ساڑھے چار سال بعد حادثہ پیش آیا ہے۔کراچی میں 28 نومبر 2010ء کو ہوا تھا جس میں ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا اور اس حادثے میں 12 افراد مارے گئے تھے۔بین الاقوامی فضائی حادثوں اور ہنگامی مواقع پر نظر رکھنے والے نجی دفتر''ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس‘‘ کے مطابق اس حادثے سے قبل پاکستان میں 35 ایسے حادثے ہوئے ہیں جن میں 705 افراد ہلاک ہوئے۔پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب 28 جولائی 2010ء کو پیش آیا تھا‘ جب نجی ایئر لائن ایئر بلیو کی پرواز ‘مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی۔ اس میں 152 افراد سوار تھے۔اس سے قبل 10جولائی 2006ء کو سرکاری ہوائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا فوکر طیارہ ‘ملتان ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اْس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج‘ فوج کے دو بریگیڈئر اور بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔مسافروں کی اموات کا سبب بننے والے حادثوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو گیارہ حادثے اندرونِ ملک ہی پیش آئے‘ جن میں سے پانچ حادثے فوکر طیاروں کے تھے۔ 2006ء میں ملتان کا فوکر طیارے کا حادثہ ‘پی آئی اے کی تاریخ کا اندرونِ ملک سب سے جان لیوا حادثہ تھا ‘جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا۔ پاکستان میں اب تک فوجی مسافر طیاروں کے 10حادثے پیش آئے ہیں۔ آخری حادثہ پاکستان ایئر فورس کے فوکر طیارے کا تھا جو 20 فروری 2003ء کو پیش آیا۔ کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے میں اس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر 17 افسران سمیت مارے گئے تھے۔پاکستانی فضائیہ کے لئے اب تک مال بردار طیارے ہرکولیس سی ون تھرٹی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں‘ جن میں خصوصی کیپسول رکھ کر مسافروں کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ہرکولیس سی ون تھرٹی کے 4حادثوں میں سے 17 اگست 1988 ء کو بہاولپور کے قریب پیش آنے والا حادثہ قابلِ ذکر ہے‘ جو اس وقت کے صدر اور فوجی آمر‘ جنرل ضیا الحق سمیت 23اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت کا سبب بنا۔پاکستانی سرزمین پر گذشتہ 63 برس میں غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے 9فوجی اور غیر فوجی مسافر بردار طیاروں کو حادثے پیش آئے۔ان میں سے تین حادثوں میں افغانستان کے مسافر بردار طیارے گر کر تباہ ہوئے۔ 13 جنوری 1998ء کو افغان ہوائی کمپنی آریانا ایئر کا مسافر طیارہ خوڑک پہاڑی سلسلے میں توبہ اچکزئی کے علاقے میں گرا۔ اس حادثے میں 51 مسافر ہلاک ہوئے اور یہ 28 جولائی 2010‘ سے پہلے تک پاکستانی سرزمین پر سب سے زیادہ جان لیوا فضائی حادثہ تھا۔ 9جنوری 2002 ء کو امریکی ایئر فورس کا ہرکولیس سی ون تھرٹی ‘بلوچستان کی شمسی ائر بیس کے قریب گر کر تباہ ہوا اور 7مسافروں کی موت کا سبب بنا۔ یہ پاکستان میں کسی غیر ملکی طیارے کا آخری حادثہ تھا۔24 فروری 2003 ء کو ایدھی ایئر ایمبولینس کا سیسنا 402 طیارہ کراچی کے قریب 8مسافروں کی موت کا سبب بنا۔
جب پاکستان نے جنم لیا‘ تو آگ اور خون کے دریا بہہ رہے تھے۔ لیکن ہر انسان ایک روشن چراغ کی طرح تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ چراغ بجھتے گئے اور اندھیرے بڑھتے رہے۔ آج حال یہ ہے کہ جو حکمران ‘ قائد اعظمؒ اور شہید ملتؒ کی یادگار کے وارث بنے ہیں‘ وہ ایک ایک کر کے سارے چراغوں کو بجھاتے چلے جا رہے ہیں اور ہر بجھتا ہوا چراغ اپنے پیچھے تاریکی اور دھواں چھوڑتا جا رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ ان لوگوں پر‘ جنہوں نے بارہا حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کو چترال کے خطرناک سفر پر روانہ کیا؟ جو طیارہ بارہا مرمت کے مراحل سے گزرا ہو اور جسے طیارہ ساز کمپنی نے فٹنس سرٹیفکیٹ نہ دیا ہو‘ اسے زیراستعمال لا کر کیا پی آئی اے کے ذمہ داروں نے قاتلانہ حملہ نہیں کیا؟یہ پی آئی اے کے سفارشیوں کا وہ قاتلانہ حملہ ہے‘ جس کی مثال ہوابازی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔