اس ملک کی سیاسی جماعتیں اندھی ہو چکیں۔ ان کے لیے ایک چھڑی کا بندوبست کرنا ہو گا، سفید چھڑی کا۔ ضرورت پڑے تو جو تنبیہہ کے لیے بھی اٹھائی جا سکے۔ تقدیر برحق، کشتی کو پانیوں پر نہیں چھوڑ دیا جاتا۔ ہمیشہ اسے ملاّح درکار ہوتے ہیں۔ وہ ملاّح کہاں ہیں؟
پہلے خالد مسعود خان سے رابطہ کیا‘ پھر ہمت جمع کرکے ڈاکٹر نثار چیمہ سے۔ صبر کے سوا اگرچہ کوئی چارہ نہیں۔ حادثے مگر جب ہوتے ہیں تو دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس وقت آدمی کو دل زدہ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے بہنے اور نہ بہنے والے آنسوئوں کے درمیان۔ ؎
دل کا اجڑنا سہل سہی پر بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے‘ بستے بستے بستی ہے
خالد مسعود خان کراچی کے اس ہوٹل میں مقیم تھے‘ آگ جسے چاٹ گئی۔ ان کا کالم پڑھا تو خبر ہوئی۔ پوچھا کہ باہر نکلنے میں کامیاب کیسے ہوئے۔ بتایا کہ پانچویں منزل سے ایک خستہ سیڑھی سے چوتھی منزل پر۔ چوتھی منزل سے جھولتی ایک رسی سے تیسری پر۔ تیسری سے سیڑھی کے ذریعے دوسری پر۔ دوسری سے پانی کے پائپ کے ذریعے پہلی منزل پر اور پہلی منزل سے چھلانگ لگا کر۔ پائوں دُہرا ہو گیا اور وہ بے ہوش رہے۔ فرش پر گدّا نہ بچھا ہوتا تو اللہ جانے کیا ہوتا۔ پاکستانی صحافت شاید اپنے بہادر ترین فرزندوں میں سے ایک سے محروم ہو گئی ہوتی۔
جواں سال اسامہ کے بارے میں ڈاکٹر نثار چیمہ نے بتایا کہ قدیم شرفا کی طرح‘ وہ ایک مثالی افسر تھے۔ درد مندوں کی دوا تھے۔ اس پر کوئی تعجب نہ ہوا۔ مرحوم کے تینوں ماموئوں سے نیاز حاصل ہے۔ اس گھرانے کا بیٹا ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ ؎
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا‘ جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
ذوالفقار چیمہ کو شہرت زیادہ ملی کہ پولیس میں تھے۔ زندگی کی شاہراہ پر، چوک اور اخبار میں۔ ان کے دونوں بھائی‘ بڑے جسٹس افتخار چیمہ اور چھوٹے نثار چیمہ‘ کسی طرح کم نہیں۔ جسٹس افتخار چیمہ کے بارے میں ایک سابق چیف جسٹس نے کہا تھا: اپنی دیانت کی میں قسم نہیں کھاتا‘ ان کی کھا سکتا ہوں۔ ایک عشرہ ہوتا ہے کہ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال سے ڈاکٹر نثار چیمہ کا تبادلہ ہوا۔ شہر کا شہر بے قرار تھا۔ پریس کلب اور ضلع کونسل سمیت کئی شہر ی اداروں نے ان کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔ حقیقتِ حال بتانے دو بار میں وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی سے ملنے گیا۔ دوسری بار صاف صاف انہوں نے معذرت کر لی۔ ''میں مجبور ہوں‘‘۔
ہم سب مجبور ہیں‘ سبھی لاچار۔ سب کچھ ہم نے اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔ ہمارے حکمران ہمارے اعمال کی سزا ہیں اور خدا لگتی یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر بھی۔ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی قوموں کا ادبار کبھی تمام نہیں ہوا کرتا۔ اللہ کے آخری رسولؐ کے سوا‘ کس کا قول‘ قولِ فیصل ہے۔ ارشاد عالی جناب ؐ کا بالکل واضح ہے۔ دعائیں نہیں‘ ایسے میں فقط جدوجہد ثمربار ہوتی ہے‘ سچائی، صبر، حکمت اور ایثار کے ساتھ۔
وہ صداقت اور وہ صبر و ایثار کہاں ہے؟ وہ دانش جو صحرائوں اور جنگلوں میں راہ اجاگر کر دیتی ہے۔
حادثوں سے مفر نہیں۔ تقدیر کا وہ کبھی الگ نہ ہونے والا حصہ ہیں مگر ہوٹل میں اس طرح آگ لگے کہ مسافروں کو کوئی مطلع تک نہ کرے۔ اترنے کے لیے سیڑھی نہ ہو۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں‘ تیس برس سے جو فساد کا شکار ہے، فائر بریگیڈ کافی نہ ہوں؟ اسی شہر میں جس کے اہلِ خیر‘ کسی بھی اچھے کام کے لیے اربوں کے عطیات دیتے ہیں۔ جہاں صرف ایک آدمی‘ ہر روز ایک لاکھ بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے‘ اخبار اور ٹی وی میں تذکرے کی تمنا کے بغیر!
فائر بریگیڈ کا نظام‘ سول کی بجائے اگر فوج کے ہاتھ میں ہوتا؟ ہوٹلوں اور بڑی عمارتوں کی نگرانی کا؟ پی آئی اے اور دوسری فضائی کمپنیوں میں‘ جہازوں کی دیکھ بھال اگر باوردی افسروں کی نگران نگاہوں تلے ہوا کرتی؟
خود کو پھر میں نے ملامت کی۔ تمہاری عقل کیا گھاس چرنے گئی ہے؟ یحییٰ خان کیا اسی فوج سے نہ اٹھے تھے؟ عساکر کو اقتدار سونپ کر بھی کسی قوم پر کبھی سویر طلوع ہوئی ہے؟ طاقت کرپٹ کرتی ہے اور زیادہ طاقت اور بھی۔ جو کچھ فوج ایک عشرے میں بناتی ہے‘ آخری ایک دو برس میں برباد ہو جاتا ہے۔ پھر وہی جمہوریت والے آدھمکتے ہیں۔ جمہوریت کھائو‘ جمہوریت پہنو‘ جمہوریت کے گھر میں رہو‘ جمہوریت سے تعلیم پائو‘ جمہوریت سے علاج کرائو‘ طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔
ایک سوال کل سینیٹر سراج الحق سے پوچھا تھا‘ عمران خاں سے بھی پوچھنا چاہیے۔ کشمیریوں کی خون آلود گردن مولانا فضل الرحمن سے چھڑانے کے لیے وہ ایک تحریک کیوں برپا نہیں کرتے؟ عجیب ملک ہے، کوئی بتانے والا نہیں کہ قوم کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ جب ادراک ہی نہیں، تجزیہ ہی نہیں تو منزل مراد کی طرف پیش رفت کیسے ہو؟ ملک بھر میں ایک پائو خالص دودھ نہیں مل سکتا۔ خالص شہد کی ایک بوتل مہیا نہیں۔ بازار میں بکنے والے آٹے کا 66 فیصد ناقص ہے۔ 70 فیصد شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ دوا کی ایک گولی دستیاب نہیں‘ جس پر بھروسہ ہو۔ اسحق ڈار‘ شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف ہر شام‘ ہر شب ترقی کے برق رفتار گھوڑے کی خبر دیتے ہیں۔ منزلوں پر منزلیں جو مارتا جا رہا ہے۔ عمران خاں کا جواب بالکل واضح ہے۔ اقتدار مجھے دے دو‘ سارے مسئلے حل کر دوں گا۔ ٹیکس میں وصول کرکے دکھائوں گا۔ پولیس میں ٹھیک کر دوں گا۔ کرپشن میں نمٹا دوں گا۔ میں‘ میں اور صرف میں۔
کیسے آپ نمٹا دیں گے؟ آپ کی پارٹی میں نوسرباز بھرے ہیں، خود آپ کے صدر دفتر میں، حتیٰ کہ دوسری جماعتوں، خفیہ ایجنسیوں اور کھرب پتی کاروباریوں کے مخبر۔ پارٹی کی 90 فیصد توانائی باہمی جھگڑوں پہ برباد ہوتی ہے۔ کسی صوبے میں ڈھنگ کا کوئی عہدیدار نہیں۔ پارٹی آپ چلا نہیں سکتے۔ موزوں امیدواروں کو ٹکٹ آپ دے نہیں سکتے۔ پولنگ سٹیشنوں پر ایجنٹ آپ مقرر نہیں کر سکتے۔ افسر شاہی، عدالت اور پولیس کے پیچیدہ نظام کی اصلاح تو کجا، نجکاری تک کے لیے کوئی منصوبہ آپ بنا نہیں سکے۔ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل تک کے لیے چھوٹے چھوٹے تھنک ٹینک آپ تشکیل نہ دے سکے۔ مسائل کون حل کرے گا؟ سندھ کے فیصل واڈا؟ پنجاب کے اعجاز چوہدری یا شاہ محمود؟ خود فریبی وہ جنگل ہے، جس کا کوئی آخری کنارہ نہیں ہوتا۔
خورشید شاہ نے ایک تھپڑ پوری قوم کے منہ پر رسید کیا کہ اب اقتدار ملا تو 90 دن میں کرپشن ختم کر دیں گے۔ غالباً ڈاکٹر عاصم کو احتساب کمشن سونپ کر۔
نہیں، مایوسی کوئی راستہ نہیں۔ یہ اس ذات بے ہمتا پر اظہارِ عدم اعتماد ہے، جو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے۔ یہ بیس کروڑ انسانوں کو احمق بلکہ حیوان قرار دینا ہے، لاکھوں نہیں تو ہزاروں، جس میں دردِ دل رکھتے ہیں۔ ان کے سوا جو یکسر فریب خوردہ ہیں، سب جانتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کرنا ہو گی۔ حادثے ورنہ اسی طرح ہوتے رہیں گے۔ بدعنوان اور نالائق اس پر مسلط ہیں۔ سٹیل مل، واپڈا، ایک حد تک تیل اور گیس تلاش کرنے والی او جی ڈی سی اور ریلوے کی بھی۔ ریل میں جو کچھ خواجہ سعد رفیق کو کرنا تھا، وہ کر چکا۔ اب وہ سستا رہے ہیں۔ سب دوسروں کی طرح، سب کچھ اللہ کے حوالے کرکے۔ اب کاروبار ہے، اور سیاست ہے اور بے بسی ہے۔
سیاسی جماعت نہ سہی، ایک پریشر گروپ ہی سہی۔ ایک تھنک ٹینک اور ایک پریشر گروپ۔ مدت سے دوستوں کا اصرار ہے ۔ وسائل مہیا کرنے پر وہ آمادہ ہیں۔ وسائل درحقیقت مسئلہ ہی نہیں، بلکہ راہِ عمل متعین کرنے کا۔ پنجابی کی ضرب المثل یہ ہے: اک در بند، سو در کھلے۔ خلوص کے ساتھ ریاضت کرنے والوں کو ہمیشہ وہ برکت عطا کرتا ہے۔ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ غم حادثوں کا نہیں، بے بسی کا ہے۔ کم از کم اس بے چارگی کو تو اٹھا پھینکنا چاہیے۔
اس ملک کی سیاسی جماعتیں اندھی ہو چکیں۔ ان کے لیے ایک چھڑی کا بندوبست کرنا ہو گا، سفید چھڑی کا۔ ضرورت پڑے تو جو تنبیہہ کے لیے بھی اٹھائی جا سکے۔ تقدیر برحق، کشتی کو پانیوں پر نہیں چھوڑ دیا جاتا۔ ہمیشہ اسے ملاّح درکار ہوتے ہیں۔ وہ ملاّح کہاں ہیں؟