تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-12-2016

ان کے سوا جانا کہاں

جنید جمشید سے میری پہلی ملاقات تب ہوئی جب اس عظیم النسل پوٹھوہاری نے گلوکاری کے کیریئر کا آغازکیا۔
اس کی ٹیم کا پہلا ملی نغمہ پچھلے سارے ملی نغموں سے یکسر مختلف اور نمایاں تھا۔ ملی نغمہ گانے والوں کی وضع قطع، ان کے گلے میں لٹکی ہوئی گٹاریں، ڈرم، گول گھومتا ہوا کیمرہ‘ ان سب چیزوں نے مل کر سماں باندھ دیا۔ اس ملی نغمے کی تیاری شکرپڑیاں کی پہاڑی کے دامن میں واقع ''روز گارڈن‘‘ میں کی گئی۔ ملی نغمہ لکھنے والے نے اسے صحیح معنوں میں خون جگر سے کشید کیا تھا۔
دِل دِل پاکستان 
جان جان پاکستان 
اس گروپ نے کچھ ابتدائی آلاتِ موسیقی میرے کالج کے زمانے کے دوستوں سے خریدے‘ جو اب ملک میں ایک معروف ریسٹورنٹ چین کے مالک ہیں۔ پھر قدرت نے جے جے کو ملک گیر شہرت رکھنے والا سٹار بنا دیا۔ یہ سٹار چند برسوں میں ایسا برانڈ بن گیا‘ جس کی ٹیم کا سامنا کوئی بھی نہ کر سکا۔ اس ٹیم کا ہر ایک رکن اپنی جگہ علیحدہ علیحدہ برانڈ ہے اور سٹار بھی۔
شہرت کے آسمان کی بلندیوں پر پہنچ کر جے جے کی نہ جانے کون سی ادا اس کے بادشاہ کو پسند آ گئی۔ انگریزی لباس اتر گیا، کلین شیو چہرے پر سنتِ رسولِ عربیؐ نے بسیرا کر لیا۔ وضع قطع 100 فیصد دیسی، سادہ اور روایتی پاکستانی بن گئی۔ اس تبدیلی پر جے جے کے دوست پریشان ہو گئے۔ کچھ کا خیال تھا کہ باقی ہم پیشہ فنکاروں کی طرح جے جے بھی جلد ہی یُوٹرن لے گا‘ اور اپنے ابتدائی پیشہ کی طرف لوٹ آئے گا۔ کچھ دیگر کی رائے میں اتنی چکا چوند روشنیاں اور دلچسپیاں ساتھ ساتھ دنیا کی لذتیں بلکہ دولت بھی اس کا راستہ روک لے گی۔ مگر کٹی پھٹی پتھریلی زمین کے خمیر سے اٹھنے والے جے جے نے کسی طرح کے بھی جلوے کے دام میں آنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ نہ کہنا کنجوسی ہو گی کہ جے جے نے ڈاکٹر سر محمد اقبال کی یاد تازہ کروا دی۔ جو کیفیت علامہ اقبال کے اپنے لفظوں میں یوں بیان ہوتی ہے۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے، جلوۂ دانشِ فرنگ 
سُرمہ ہے میری آنکھ کا، خاکِ مدینہ و نجف 
جے جے نے مدینہ کی غلامی کا طوق گلے میں لٹکا لیا اور رزق کی تلاش کا وسیلہ تج دیا۔ صوفی نے یہ راز دنیاداروں کے لیے پہلے سے بیان کر رکھا ہے۔
جنہاں تکیہ رب دا
اُنہاں رزق ہمیش 
پلے رزق نہ بندھدے 
پنچھی تے درویش 
ترجمہ (جو اپنے رب پر تکیہ کر بیٹھتے ہیں ان کو وافر رزق ملتا ہے۔ درویش اور پرندے رزق کے پیچھے مارے مارے نہیں پھرتے اور نہ اسے جمع کرکے اپنے پاس رکھتے ہیں)۔
جے جے کو موسیقی چھوڑنا مہنگا نہ پڑا بلکہ موسیقی کو جے جے کا جانا مہنگا پڑ گیا۔ اس نے رزق کا 100 فیصد حلال ذریعہ اپنے قدموں میں پڑے پایا۔ آج مردانہ ملبوسات میں جے جے کے نام پر چلنے والا برانڈ لاجواب ہے اور باکمال بھی۔
توکل اور رزق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا حساب کتاب رکھنے والوں کے لیے بڑا مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ ویسا ہی فیصلہ جس کی طرف احمد فراز نے اشارہ کیا تھا۔ لیکن اگر کوئی اندر سے دنیا کے سارے آسرے چھوڑ کر ایک بات طے کر لے کہ وہ دنیاوی اعتبار سے بے آسرا آدمی ہے‘ اور وہ صرف اللہ رب العزت کے سہارے جی سکتا ہے‘ تو پھراس کے لیے مواقع کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ایسے دروازے جو اس فیصلے سے پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے۔ حساب کتاب کی دنیا، دل والوں کی دنیا سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ فراز نے اسے اپنے انداز میں بیان کیا۔
میرا قلم نہیں، تسبیح اُس مبلغ کی 
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب کرتا ہے 
اللہ توکل والے بے پروا جے جے پر اس کے مہربان رب نے مہربانیوں کی بارش کر دی۔ ہم کوتاہ نظر لوگ مہربانیوں کو صرف نفع نقصان کے حوالے سے ہی پہچانتے ہیں۔ جس صاحب نظر کے اندر کی آنکھ روشن ہو جائے‘ جسے انگریزی زبان میں (Third Dimension) یعنی تیسری آنکھ بھی کہا جا سکتا ہے‘ وہ بیدار ہو جائے تو اس کے لیے عُسر اور یُسر کے پیمانے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اقبال نے اس مشکل مضمون کو کتنی آسانی سے بیان کیا ملاحظہ فرمائیے۔
دل کی دنیا بادشاہی اور شکم سامانِ موت 
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟
جے جے نے دل کھول کے رکھا۔ وہ اتنا وسیع القلب تھا کہ اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو معاف کر دینے کا ظرف بھی رکھتا تھا۔ لوگوں نے اس کی اعلیٰ ظرفی پر بھی کم ظرفی والے تبصرے کیے۔ اس نے من کی صفائی کرنے کے بعد کراچی کی صفائی کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا‘ جھاڑو پکڑا اور گندی نالیوں کو صاف کرنے کے لیے ان میں جا گھسا۔ ہم سارے صفائی کو نصف ایمان کہتے ہیں‘ لیکن سپریم کورٹ کے باتھ روم سے لے کر عبادت گاہوں کے طہارت خانوں تک اپنی غلاظت کا ڈھیر آنے والوں کے لیے جمع کرکے چھوڑ جاتے ہیں۔ 
جے جے نے ایک بڑے آدمی کی زندگی گزاری۔ اپنی جیون ساتھی کے ساتھ اکٹھے جینے اور اکٹھے مرنے کا وعدہ سچ کر دکھایا۔ میں ہمیشہ دوستوں سے کہتا ہوں کہ کبھی چھوٹا موٹا امتحان بھی مت مانگو۔ ہم اس کائنات میں اشرف المخلوقات تو بے شک ہیں لیکن ہماری حقیقت کائنات کے مرکزی ذرے ہگس بوساں سے بھی چھوٹی ہے۔ قدرت نے اس بڑے آدمی کی شہادت کے سانحے کو اس زمین پر ایک بڑی خبر بنا دیا۔ جے جے کے دل کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ بھی اللہ کی راہ میں کھلا تھا۔ اس کی زندگی کے دو کام قابل تقلید ہیں۔ پہلا‘ ہمارے پیارے نبی ؐسے جے جے کی محبت، تابعداری آپ ؐ کی مداح سرائی اور نبی آخر الزماں پہ غیر متزلزل ایمان۔ بلکہ آپ ؐ کے دیدار اور آپ ؐ کی ملاقات کی بے تاب خواہش بھی۔ دوسرے جے جے کی اس پاک سرزمین سے غیر مشروط وابستگی اور وطن کی مٹی سے عشق‘ جس کا اظہار جے جے نے عین عالمِ شباب میں یوں کیا تھا:
ایسی زمین اور آسماں ان کے سوا جانا کہاں
بڑھتی رہے یہ روشنی چلتا رہے یہ کارواں
دِل دِل پاکستان‘ جاں جاں پاکستان
دِل دِل سے ملتے ہیں تو پیار کا چہرہ بنتا ہے
پھول اک لڑی میں پروئیں تو پھرسہرہ بنتا ہے 
دِل دِل پاکستان جاں جاں پاکستان
ایسی زمین اور آسمان ان کے سوا جانا کہاں
بڑھتی رہے یہ روشنی چلتا رہے یہ کارواں
دِل دِل پاکستان جاں جاں پاکستان
دِل دِل پاکستان جاں جاں پاکستان
گھر اپنا تو سب کو جی جان سے پیارا لگتا ہے 
ہم کو بھی اپنی ہر ارمان سے پیارا لگتا ہے 
دِل دِل پاکستان جاں جاں پاکستان
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا 
الوداع مسٹر اینڈ مسز جنید جمشید الوداع!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved