تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-12-2016

اڑھائی گھنٹے ۔2

کمرے کے اندر سے آتی آوازوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کمرے میں دس بارہ لوگ موجود ہیں‘ ظاہر ہے سب اسی کمرے کے مکین نہ تھے۔ ساتھ والے کمرے میں بھی ہلچل محسوس ہو رہی تھی تاہم اس کمرے میں زیادہ ہنگامہ آرائی کا احساس تھا۔ اندر سے کسی نے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا کمرہ نمبر 509 سے ہوں۔ دروازہ بمشکل کھولا اور مجھے فوراً اندر آنے کا کہا‘ میں نے کہا میں کون سا باہر کھڑا ہونا چاہتا ہوں‘میرا اپنا سانس اکھڑ رہا ہے۔ میں جیسے ہی اندر آیا انہوں نے دروازہ بند کیا اور نیچے والی درز میں گیلا تولیہ پھنسا دیا۔ کمرے کے اندر حالات نسبتاً بہت بہتر تھے۔ دو میں سے ایک شیشہ توڑ دیا گیا تھا۔ باہر سے آنے والی تازہ ہوا میں بھی دھواں شامل تھا۔ تاہم آکسیجن کی مقدار اتنی ضرور تھی کہ سانس آرہا تھا۔ کمرے میں دس بارہ لوگ تھے۔ کھڑکی کا شیشہ کرسی مار کر توڑا گیا تھا۔ ایک نوجوان اسی دوران کمرے کی چادروں اور کھڑکی کے پردوں کو گانٹھیں دے کر نچلی منزل تک پہنچنے کے لیے بندوبست کر چکا تھا۔ چادروں سے بنی رسی کو پلنگ کے پائے سے باندھا ہوا تھا۔
ہوٹل کی تعمیر میں خوبصورتی کی پہلو نے جو مسائل کھڑے کئے تھے اس کا اندازہ اس ہنگامی حالت میں ہو رہا تھا۔ پہلی تین منزلیں بتدریج ایک دوسرے سے چھوٹی تھیں اور تیسری منزل کے بعد دیوار سیدھی ہوئی تھی۔ چادریں ڈیڑھ منزل نیچے تک پہنچ سکی تھیں جبکہ ہم پانچویں منزل پر تھے۔ مزید یہ کہ میں نے چادروں کی موٹی گرہیں کھینچیں تو وہ کھسک رہی تھیں۔ پہلی منزل کی چھت کے نیچے ہوٹل کی عمارت سے آگے نکلی ہوئی دکانیں اور دفاتر تھے۔ یہ منزل خاصی اونچی تھی اس کے بعد دوسری اور تیسری منزلیں خاصے بے ڈھنگے طریقے سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ ایسی بے ترتیب تعمیر کی وجہ سے نیچے اترنا مزید مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی تک نیچے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اور ایمبولینسیں ہی پہنچی تھیں‘ فائرفائٹرز اور ریسکیو والے پہلی منزل پر بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ ان کے پاس خود اوپر آنے کے لیے مناسب سازو سامان نہیں تھا امدادی کاروائی شروع کرنا تو اگلا مرحلہ تھا۔
تین ریسکیو ورکرز بمشکل خود دوسری منزل تک پہنچے اور دو عدد سیڑھیاں اوپر لانے میں کسی طرح کامیاب ہو گئے۔ تیسری منزل تک پہنچنے کی کوشش میں خود ایک ورکر سیڑھی سمیت دوسری منزل پر گر گیا۔ پیشہ ورانہ مہارت کی قلعی آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی تھی۔ نیچے الگ قسم کی افراتفری مچی ہوئی تھی اوپر دوسری قسم کی افراتفری تھی۔ نیچے والوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اوپر کیسے پہنچیں اور اوپر پھنسے ہوئے ہوٹل کے مکینوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ نیچے کیسے پہنچیں؟ سیڑھیاں صرف دو تھیں اور لمبائی میں چھوٹی تھیں۔ ہمیں کھڑکی میں کھڑے ایک گھنٹے سے زائد گزر گیا تھا اور ریسکیو ورکرز کو بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کریں؟ وہ دوبارہ نیچے اتر کر پہلی منزل پر چلے گئے۔ جونہی وہ نیچے اُترے کھڑکی میں کھڑے سب لوگوں کے دل پھر سے بیٹھ گئے۔ ایک صاحب جنہوں نے اپنا اٹیچی کیس بڑی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا بلند آواز میں گالیاں دینے لگ گئے۔ ایک نوجوان کہنے لگا، سائیں! گالیاں دینے سے کیا فائدہ؟ وہ کہنے لگا وہ میری تمیز والی گفتگو بھی کب سن رہے تھے جو گالیاں سنیں گے۔
سامنے سڑک سے ایک لمبی گاڑی آتی نظر آئی جس کی چھت پر بڑے سائز کی دوہری سیڑھی پڑی تھی۔ اُمید و بیم میں مبتلا ہم سب لوگوں کو اس گاڑی کی آمد سے تھوڑی امید پیدا ہوئی مگر گاڑی سائز میں بڑی تھی اور ہوٹل میں داخلے کا راستہ تنگ تھا۔ یہ گاڑی عملی طور پر بے کار تھی۔ اس اثنا میں ریسکیو ورکرز کہیں سے ایک لمبی سیڑھی لے آئے اور دوبارہ اوپر آنے کی کوشش میں لگ گئے۔ دھواں تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا اور سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ کسی کو ابھی تک یہ پتہ نہیں تھا کہ آگ کہاں لگی ہوئی ہے اور اصل صورتحال کیا ہے۔
شور اور چیخ و پکار میں مجھے فون کی گھنٹی کی آواز سنائی نہ دی تھی۔ اس دوران سارہ نے کئی دفعہ فون کیا۔ یہ غالباً اس کی پانچویں کال تھی جو مجھے سنائی دی۔ میں کمرے کے غسل خانے میں چلا گیا اور فون آن کیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ سارہ کمرے میں موجود دو تین ازحد پریشان اور مسلسل چلانے والوں کو سنے۔ اس سے خدا جانے وہ کیا سوچتی کہ صورتحال کتنی خراب ہے؟ صورتحال خراب تو تھی مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے اس شور شرابے سے کچھ زیادہ ہی خراب صورتحال کا اندازہ ہو۔ سارہ نے بتایا کہ وہ ٹی وی دیکھ رہی ہے اور ابھی کسی کو وہاں بھی پتہ نہیں کہ آگ کا مرکز کہاں ہے اور وہ کہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر اس دوران نیچے سے لاؤڈ سپیکر پر کوئی صحیح صورت کا بتاتا تو لوگوں کا اضطراب، پریشانی اور ہر لمحہ بڑھتی ہوئی بے یقینی میں کمی ہو سکتی تھی مگر کوئی چیز بھی منظم انداز میں نہیں چل رہی تھی۔
خدا خدا کر کے ریسکیو ورکرز نے تیسری منزل سے چوتھی منزل تک سیڑھی لگائی اور اس کے اوپر ایک اور سیڑھی لگا کر پانچویں منزل تک رسائی حاصل کی اور ہمارے ساتھ والے کمرے میں رسی پھینکی۔ ہمارے کمرے میں اٹیچی کیس والے صاحب نے دوبارہ سے سندھی میں گالیاں دینی شروع کر دیں کہ سیڑھی ادھر کیوں نہیں لگائی؟ میں نے کہا شکر کریں کہ وہ ہمت کر کے کسی نہ کسی طرح اس ناقص اور ناکافی سامان کے ساتھ پانچویں منزل تک سیڑھی پہنچانے میں کامیاب تو ہوئے ہیں۔ ہم سب اس ساتھ والے کمرے میں چلتے ہیں اور باری باری نیچے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان صاحب نے اپنا اٹیچی کیس اُٹھایا اور ساتھ والے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔ ایک نوجوان نے کہا کہ اٹیچی کمرے میں رکھ جائیں وہ کہنے لگے آپ اپنی زبان بند رکھیں اور زیادہ مشورے نہ دیں۔ ساتھ کے کمرے والے اتنے مہمان دیکھ کر پریشان ہو گئے اور کہنے لگے پہلے ہم نیچے اُتریں گے۔ میں نے کہا آپ لوگ پہلے اُتریں۔ بعد میں لوگ اسی ترتیب سے اُتریں جس ترتیب سے اس کمرے میں آئے ہیں۔
اس کمرے میں ایک چھوٹی چھوٹی داڑھی والا نوجوان انچارج کے فرائض سنبھالے ہوئے تھا۔ مجھے پہچان گیا اور کہنے لگا خالد صاحب! آپ پہلے اُتریں۔ میں نے کہا نہیں! پہلے اس کمرے والے اُتریں گے۔ اٹیچی کیس والے صاحب نے اب اپنا اٹیچی کیس چادر سے باندھ کر گلے میں لٹکا لیا اور کہنے لگا پہلے میں اُتروں گا۔ کھڑکی سے جھانکا تو پتہ چلا کہ سیڑھی کھڑکی سے دو تین فٹ نیچے ہی ختم ہو گئی ہے اور یہ بالکل پتلی سی سیڑھی تھی جو بمشکل دیوار کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی۔ نیچے دیکھ کر وہ صاحب گھبرا گئے اور مجھے کہنے لگے۔ آپ بزرگ ہیں۔ پہلے آپ اُتریں۔ میں نے رسی کو بازو سے لپیٹا اور بسم اللہ پڑھ کر ایک ٹانگ کھڑکی سے نیچے لٹکائی اور پاؤں سے سیڑھی کو ٹٹولا۔ جونہی میرا پاؤں سیڑھی سے ٹکرایا میں نے دوسری ٹانگ باہر نکالی اور سیڑھی پر دونوں پاؤں ٹکا لیے۔ سیڑھی ہوا میں جھول رہی تھی اور میرا سارا وزن تقریباً بازو سے لپٹی ہوئی رسی پر تھا۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا جو آہستہ آہستہ طے ہوا۔ چوتھی منزل سے تیسری منزل تک پہنچنے کا مرحلہ کافی آسان تھا۔ اس کے بعد ایک منزل پائپ پر گھسٹ کر طے کی۔ کالج کی سیڑھیوں کی ریلنگ پر پھسلنا یاد آ گیا۔ جونہی میں تیسری منزل پر پہنچا وہاں کھڑے ریسکیو ورکر نے کہا کہ آپ نیچے والی منزل پر چھلانگ لگا دیں نیچے گدے پڑے ہوئے ہیں۔ اندھیرے اور دھوئیں میں‘ میں نے نیچے دیکھے بغیر چھلانگ لگا دی۔ بے ترتیب گدوں پر میرا بایاں پاؤں رپٹ گیا اور میں دیوار میں جا لگا۔ پھر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
یہ کیفیت شاید چار پانچ منٹ رہی ہو گی۔ میں نے دیکھا مجھے دو ورکر اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ میں اب ٹھیک ہوں۔ اور اُٹھ کر چلنے لگا تو ورکر نے پوچھا آپ نے جوتا پہنا ہوا ہے؟ میں نے کہا ہاں پہنا ہوا ہے۔ وہ کہنے لگا ٹھیک ہے۔ آگے بہت شیشے تھے اس لیے پوچھا ہے۔ پہلی منزل کافی اونچی تھی اور اس کے لیے سیڑھی رینجرز والے لائے۔ اس کے انتظار میں دس منٹ تک رُکنا پڑا۔ میں نیچے پانچ بج کر بیس منٹ پر آیا۔ یہ اڑھائی گھنٹے ایسے تھے جو سالوں کے برابر تھے اور اس نے بے شمار چیزیں بے نقاب کیں۔
اڑھائی کروڑ آبادی والے شہر میں اونچی عمارتوں سے ایمرجنسی انخلا کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ہنگامی حالات سے نپٹنے کی ٹریننگ کا نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ فائر بریگیڈ کا رسپانس ٹائم شرمناک تھا۔ کوئی سنار کل درست حالت میں نہیں تھا۔ مناسب اور ضروری سازوسامان تو ایک طرف، مناسب سیڑھیاں موجود نہیں تھیں۔ ہوٹل میں داخلی راستے پر موجود بیرئرز جو سیکورٹی کے لیے تھے سیفٹی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ یہی عمومی صورتحال ہے کہ سکیورٹی کے بندوبست نے ہماری سیفٹی داؤ پر لگا دی ہے۔ ہوٹل کا الارم سسٹم، ایمرجنسی انخلا کا بندوبست اور بجلی کے نظام کی خرابیاں اپنی جگہ‘ مگر ان کی چیکنگ پر مامور سرکاری ادارے کیا کر رہے ہیں؟ کیا سرکاری ادارے صرف اس لیے ہیں کہ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے بجائے اس صورتحال سے پیدا گیری کا سامان پیدا کریں؟ حادثے ہوتے ہیں‘ خبر چھپتی ہے‘ انکوائری کمیٹی بنتی ہے اور پھر معاملہ وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔ بارہ قیمتی جانیں اس حادثے کی نذر ہو گئیں مگر یہ سب کچھ سرکار کی نا اہلی کے طفیل ہوا جو ہر معاملے میں اپنے فرائض سرانجام دینے میں مسلسل نا کام نظر آرہی ہے۔ مجھے تو یہ سب کچھ ڈھائی گھنٹوں میں نظر آ گیا خدا جانے ارباب اقتدار کو یہ سب کچھ کیوں نظر نہیں آرہا؟ (ختم )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved