تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     09-12-2016

دوستوں کی خدمت میں

دس گیارہ برس ہوتے ہیں کہ لاہور میں ایک دوست کے ہاں کچھ ترک نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ نوجوان انگریزی روانی سے بولتے تھے اور گفتگو میں جہاں کوئی عربی لفظ آتا اسے پوری قرات اور صحیح مخارج کے ساتھ ادا کرتے۔ بات چیت آگے بڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ ترکی کے معروف اسلامی اسکالر فتح اللہ گولن کی خدمت تحریک کا حصہ ہیں اور پاکستان میںپاک ترک کے نام سے جدید تعلیم کے کئی سکول چلا رہے ہیں۔ اس تعارف کے چند دن بعد ان کی تحریک کے ایک سینئر راہنما پاکستان آئے توچند صحافیوں کو ان سے ملنے کے لیے مدعو کیا گیا جن میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ یہ صاحب ہمیں بتا رہے تھے کہ ترکی میں رجب طیب اردوان کی سیاسی فتح دراصل فتح اللہ گولن کی جیت ہے۔ انہوں نے ہمیں ترکی اور انگریزی میں چھپے ہوئے کچھ اخبارات بھی دکھائے جن کی مدد سے رجب طیب کی اے کے پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ان صاحب نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ گولن کی خدمت تحریک کے تحت چلنے والے اخبارات کی اشاعت اور ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کسی بھی دوسرے ادارے سے زیادہ ہے۔ ان کے اس دعوے کی تصدیق کے لیے کچھ ایسے دوستوں نے بھی کی جو ترکی میں کچھ وقت گزار چکے تھے ۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان میں اس تحریک کے قائم کردہ سکولوں نے ترکی کے سفارتخانوں کی حیثیت اختیار کرلی تھی جہاں سے پاکستان کے لوگوں کو بتایا جارہا تھا کہ رجب طیب اردوان عالم اسلام کے تازہ دم رہنما ہیں جو بکھری ہوئی امت اور کھوئی ہوئی عظمت وغیرہ اکٹھی کرنے کے درپے ہیں ۔ انہی دنوں ترک حکومت نے ان سکولوں کے اساتذہ کے ذریعے پاکستان میں کچھ صحافیوں سے رابطہ کیا کہ وہ مقامی ذرائع ابلاغ میں رجب طیب اردوان کا امیج بنانے میںتعاون کریں۔ اس سلسلے میں ایک پاکستانی صحافی نے اردوان کا انٹرویو انقرہ جاکر ریکارڈ بھی کیا مگر کسی وجہ سے وہ ٹی وی پر تو نہیں چل سکا البتہ ایک انگریزی جریدے میں شائع ضرور ہوا۔ 
پاک ترک سکولوں اور حکومت پاکستان کے درمیان تعلق نہایت خوشگوار رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان اداروں کے طرزِ عمل سے کبھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اور دوسرے یہ کہ خود ترک حکومت ان اداروں کی پشتیبانی کررہی تھی اس لیے پاکستانی حکومت ترکوں کی خوشنودی کے لیے ان اداروں کی باقاعدہ سرپرستی کرتی رہی۔ اس سرپرستی میں پہلی رکاوٹ اس وقت آئی جب 2013ء کے آخر میں ایک ترک پراسیکیوٹر زکریا اوزنے ترکی کے تین وزراء کے بیٹوں اور کچھ بیوروکریٹس کی کرپشن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ تحقیقات کا اعلان اردوان حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ طیب اردوان کا خیال تھا کہ زکریا اوز خدمت تحریک سے تعلق رکھتا ہے اس لیے فتح اللہ گولن کی منشا سے یہ کام رہا ہے۔ اس معاملے میں اردوان نے حکومتی طاقت کا ننگا استعمال کیا اور عدالتوں پر اثر ڈالنے سے لے کر زکریا کی برطرفی تک وہ سارے کام کیے جن کا کسی جمہوری ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ انہوں نے میڈیا کو بھی حکومتی کنڑول میں کرلیا تاکہ کوئی خبر یا کالم ان کے خلاف نہ آسکے۔ انہوں نے ترکی میں خدمت تحریک کے سکولوں اور دیگر اداروں کے خلاف ریاستی قوتوں کو کھلا چھوڑ دیا ، جب کچھ نہ ملا تو ان پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔6 ماہ پہلے ان کے خلاف فوجی بغاوت کی کوشش ہوئی تو اس کے پیچھے بھی انہوں نے فتح اللہ گولن کا ہاتھ تلاش کرلیااوران سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو بغاوت کی سازش تیار کرنے کے الزام میں دھر لیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ موصوف چالیس ہزار افراد گرفتار کرچکے ہیں۔ جب جیلوں میں گنجائش نہ رہی تو پینتیس ہزار ایسے قیدیوں کو رہا کیا جو اخلاقی جرائم میں ملوث تھے اور اس طرح پیدا ہونے والی گنجائش میں ڈاکٹروں، استادوں اور صحافیوں کو ٹھونس دیا، اس کے باوجود جگہ تنگ ہوئی تو بعض شہروں میں سٹیڈیم کی چار دیواری میں ان سازشیوں کو بند کرکے پہرہ لگا دیا۔ 
جب تک یہ لڑائی ترکی کے اندر رہی دنیا کو اس بارے میں کم ہی علم ہوا، لیکن ناکام فوجی بغاوت کے بعد طیب اردوان اپنی اس اندرونی لڑائی کو ملکی سرحدوں سے باہر لے آئے اور دنیا میں جہاں جہاں خدمت تحریک کے سکول موجود تھے، وہاں کی حکومتوں کے ذریعے انہیں بند کرانا چاہا اور جہاں کسی حکومت نے ثبوت وغیرہ کی بات کی تو اسے اپنا ہی فیصلہ دکھا دیا جس کے مطابق خدمت تحریک دہشت گردی کی تنظیم ہے۔ جہاں جہاں سے یہ ترک اساتذہ نکالے گئے انہیں ترکی پہنچتے ہی غداری کے الزام میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اب یہی سلوک وہ ان ایک سو آٹھ اساتذہ سے بھی کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان میں کام کررہے تھے۔ ان اساتذہ کو ملک بدر کرنے کی درخواست ترک حکومت نے پاکستان سے اسی وقت کر دی تھی جب طارق فاطمی نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک وزیرخارجہ کو فون کیا تھا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً کچھ نام نہاد ثبوت بھی حکومت پاکستان مہیا کیے جاتے رہے اور ایسی اطلاعات بھی دی گئیں جن سے معلوم ہوتا تھاکہ یہ ترک اساتذہ پاکستان میں بھی کوئی سازش کررہے ہیں۔ جب ہماری خفیہ ایجنسیوں نے ان اطلاعات کی تصدیق کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ سوائے تعلیم دینے کے یہ اساتذہ کچھ بھی نہیں کررہے۔ پاکستان نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی تو پھر ترک صدر بروئے کار آئے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ان کے دورے سے پہلے ان اساتذہ کو پاکستان سے نکال دیا جائے گا۔ ان کی توقع پوری ہوئی اور ہماری پیاری حکومت نے بغیر سوچے سمجھے ان اساتذہ کے ویزے منسوخ کردیے۔ وہ تو بھلا ہو عدالتوں کا جہاں ان اساتذہ کی کچھ سنی گئی اور انہیں عارضی ریلیف ملا ورنہ ہماری حکومت اپنے بچوں کے ان استادوں کو دوستی کی ٹکٹکی پر کسنے کے لیے بالکل تیار تھی۔ اس معاملے میں یہ بھی نہ سوچا گیا کہ کل کو ترکی میں ایک بار پھر فتح اللہ گولن کی ہمدرد حکومت آگئی تو ہم کیا کریں گے؟
اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے اس چارٹر پر بھی دستخط کررکھے ہیں جس کے مطابق کسی غیر ملکی شخص کے بارے یقین ہو کہ اسے اس کے ملک میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا، اسے اس کے ملک جانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان میں مقیم ان اساتذہ کے بارے میں ایک ہزار فیصد یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہیں ترکی پہنچتے ہی ناکردہ جرائم کی سزا دی جائے گی۔ اس صورت میں بطور ایک جمہوری ملک پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محض فرمائش پر کوئی فیصلہ نہ کرے بلکہ ٹھوس شواہد طلب کرے اور اپنے قوانین پر عمل کرتے ہوئے کسی میجسٹریٹ کے ذریعے ان کی جانچ پڑتال کرے۔ ا س کے بعد اگر کوئی مجرم نظر آتا ہے تو اسے ترکی کے حوالے کردے اور باقیو ں کو پاکستان میں آرام سے جینے دے۔ جب اس ملک میں تیس لاکھ افغان گزشتہ تیس برس سے رہ رہے ہیں تو چند درجن ترکو ں کے رہنے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی اور اس فیصلے سے ہم جیسے فقیروں کو بھی اطمینان ہوگا کہ ہماری جمہوری حکومت اپنے دوست کے مقابلے میں ملکی قوانین کی پاسداری مقدم سمجھتی ہے۔ ہمیں ترکی کے ساتھ قومی تعلق کا بھی پاس ہے اور اپنے وزیراعظم کے ترک صد ر سے تعلقات کا بھی، لیکن ان تعلقات کا کچھ احساس ترکی اور اس کے صدر کو بھی کرنا چاہیے۔ وہ اپنے ملک میں من مانی بے شک کرتے رہیں مگر ہم ان کی ہر خواہش کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ ہم یہ تو کرسکتے ہیں کہ ترک صدر کے داماد بیرات البیارک کو لاہور میں صفائی اور ٹیکسی چلانے کے پرکشش ٹھیکے بغیر کسی مقابلے کے عنایت کردیں مگر جذبہء انتقام کو سرد کرنے کے لیے جیتے جاگتے انسانوں کو کسی کے سپرد نہیں کرسکتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved