زبانوں کی کون سی کمی ہے؟ اور ہر زبان میں شعراء بھی ہوتے ہیں مگر اردو کے شعراء کا کمال یہ ہے کہ معاشرے کو ایسی خوبصورتی سے نظم کرتے ہیں کہ بات بات پر اُن کے حوالے دینا پڑتے ہیں۔ میرؔ، غالبؔ، اکبرؔ، داغؔ اور اقبالؔ کے ساتھ ساتھ فیضؔ، فرازؔ اور ان کے دیگر معاصرین قدم قدم پر یاد آتے ہیں اور مشکل آسان کردیتے ہیں۔
جونؔ ایلیا ہی کو دیکھیے۔ انہوں نے اپنی ذات کا حوالہ دے کر معاشرے کا المیہ یوں بیان کیا ہے ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں!
ہماری حکومت بھی کچھ اِسی قسم کی روش پر گامزن ہے۔ بھارت کے معاملے میں اسلام آباد کی پالیسیوں کو شاید نئی دہلی کا کوئی سانپ سُونگھ گیا ہے! سفارت کاری کے رموز جاننے والوں کو تو ہم نہیں جانتے مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جو رویّہ بھارت نے ہمارے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قابل فہم ہے نہ قابل قبول۔ اور یہ بات ایک ہم نہیں، تقریباً ہر عام پاکستانی پوری شدت سے محسوس کر رہا ہے۔ گویا ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے!
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس قومی غیرت کے دل میں خنجر بن کر اتری ہے۔ سکھوں کے مقدس ترین شہر امرتسر میں منعقد کی جانے والی یہ کانفرنس اس بات کو مزید ثابت کرگئی کہ پاکستان کے لیے بھارت صرف دُکھ ہیں۔ ہمارے حکمران نازیبا اور غیر منصفانہ رویّہ سہتے رہنے پر بھی بھارت کے معاملے میں ؎
اٹھائے جا ان کے ستم اور جیے جا
یونہی مسکرائے جا، آنسو پیے جا
کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
امرتسر میں سکھوں کا مقدس ترین معبد گولڈن ٹیمپل بھی ہے اور گولڈن ٹیمپل کی حدود میں ایک وسیع و عریض تالاب بھی ہے۔ مودی سرکار نے بہتر دو طرفہ تعلقات سے متعلق ہماری ہر خواہش اور کوشش کو اِس تالاب میں ڈبکیاں دے کر ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر ہم ہیں کہ اب تک ع
اِک ستم اور مِری جاں، ابھی جاں باقی ہے
کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جس کی ہم دہائی دیتے نہیں تھکتے اور جسے انصاف پسند اور خدا جانے کیا کیا قرار دینے سے گریز نہیں کرتے وہ عالمی برادری، حسبِ عادت و معمول، محض تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
ایک تھے چوہدری صاحب۔ ویسے تو ان کی خدمت کرنے والے کم نہ تھے مگر کرم دین ان کا خاص خادم تھا اور اُس پر چوہدری صاحب ناز بھی بہت کرتے تھے۔ ایک دن کرم دین کے بیٹے نے کہا ابّاجی، مجھے چوہدری صاحب کی بیٹی اچھی لگتی ہے۔ آپ رشتے کی بات کریں۔ یہ سن کر کرم دین کے پیروں تلے سے زمین کو تو سرکنا ہی تھا، سرک گئی! اس نے بیٹے کو بہت ڈانٹا۔ مگر بیٹا بضد رہا اور کہا کہ کم از کم ایک بار تو چوہدری صاحب سے بات کر دیکھیں۔
خیر، کرم دین ہمت کرکے چوہدری صاحب کے پاس پہنچا۔ وہ دیگر خدام کے جھرمٹ میں تھے۔ کرم دین نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔ چوہدری صاحب نے کہا بھئی تو اپنا بندہ ہے، بول جو بولنا ہے۔
کرم دین نے جب بیٹے کی فرمائش بیان کی تو چوہدری صاحب کا متھا گھوم گیا۔ سب کے سامنے انہوں نے کرم دین کی خوب ''خاطر‘‘ کی۔ پھر کسی نے کہا جانے دیں چوہدری صاحب، اپنا ہی بندہ ہے۔ غلطی ہوگئی، معاف کردیں۔ چوہدری صاحب نے خدمات سے بھرا ماضی یاد کرتے ہوئے کہا جا، چلا جا۔
کرم دین کپڑے جھاڑتا ہوا بولا۔ ''تو پھر چوہدری صاحب، میں آپ کی طرف سے انکار سمجھوں!‘‘
بھارت اور ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوگیا ہے۔ وہ بار بار ذلّت سے دوچار کرتا ہے اور ہم ہر بار کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں ''تو پھر میں آپ کی طرف سے انکار سمجھوں؟‘‘
کنٹرول لائن کی صورتِ حال ڈیڑھ دو ماہ سے ایسی رہی ہے کہ بہتر تعلقات کی رہی سہی امیدوں نے بھی دم توڑنا شروع کردیا ہے۔ سیاست اور سفارت کے میدان میں ہم جو کچھ بھی کر سکتے تھے، کر گزرے ہیں۔ اور مثبت سوچ کے ساتھ جو کچھ بھی ہم نے کیا ہے وہ کبھی کبھی ضرورت یا گنجائش سے زائد دکھائی دیا ہے۔ پاکستان پر آرڈر کا مال تیار کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھارت کیا کر رہا ہے؟ جو کچھ وہ کر رہا ہے کیا وہ آرڈر کا مال نہیں؟
پاکستان بہتر تعلقات کا خواہش مند ہے۔ خطے میں امن کے لیے لازم ہے کہ بھارت سمیت تمام چھوٹے بڑے ممالک سے معاملات درست ہوں۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے انعقاد سے کئی دن پہلے بھارت کی طرف سے بیانات آرہے تھے کہ پاکستان کو اس کانفرنس میں تنہا کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ کانفرنس سے دو دن قبل پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے بھی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کو اس عالمی سفارتی میلے میں تنہا کرنے کے معاملے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا۔
سوال بھارت سے زیادہ افغانستان کا تھا۔ افغانستان میں حقیقی امن و استحکام یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے اس کانفرنس میں شریک ہونا ناگزیر سمجھا۔ گویا ؎
اُس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کِیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سَر کے بَل گیا!
یہ وہی افغانستان ہے جو ہمارے ہزار احسانات کے باوجود بھارت کے آغوش میں محوِ استراحت ہے۔
پاک چین راہداری منصوبہ کیا شروع ہوا ہے، بھارت کے لیے اپنے مذموم جذبات پر قابو پانا مشکل ہوگیا ہے۔ بات بات پر قَے ہو رہی ہے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے سے مستقل بنیاد پر امتیازی سلوک اِس کا بیّن ثبوت ہے۔ تسلیم شدہ سفارتی آداب بھی بالائے طاق رکھ دیئے گئے ہیں۔
امرتسر میں وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور اُن کے ساتھ جانے والی میڈیا ٹیم سے جو سلوک روا رکھا گیا وہ پوری قوم کی نظر میں حکومت کو مزید گِرانے کا سبب بنا ہے۔ پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو امرتسر میں پاکستانی میڈیا ٹیم ہی سے روکنے کی کوشش کی گئی اور اس پر انہوں نے سکیورٹی اور پروٹوکول کے ایک افسر کو ڈان بھی دیا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہائی کمشنر سے یہ گندا سلوک روا رکھا جاسکتا ہے تو پھر ایک عام پاکستان کے لیے مودی سرکار کے دل و دماغ میں کس درجے کا احترام ہوگا!
سرتاج عزیز نے اسلام آباد واپسی کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ وہ امرتسر میں پاکستانی میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنس کرنا چاہتے تھے مگر ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ سرتاج عزیز گولڈن ٹیمپل دیکھنا چاہتے تھے مگر اِس کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ بہانہ؟ وہی سکیورٹی کا، اور کیا؟ مودی سرکار کی ڈولی اٹھائے پھرنے والے کہار ہی بتاسکتے ہیں کہ سرتاج عزیز کے گولڈن ٹیمپل جانے سے کس کے لیے کون سا سکیورٹی رسک پیدا ہو جانا تھا!
ہنگامی پریس کانفرنس میں سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی بریک تھرو کی توقع کے ساتھ گئے ہی نہیں تھے۔ وہ خود اگر یہ بات کہہ رہے ہیں تو ظاہر ہے سچ ہی کہہ رہے ہوں گے۔ ایسے میں یہ سوال سوچنے کی صلاحیت رکھنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں ابھرے گا کہ جب کسی بریک تھرو کی توقع تھی ہی نہیں تو پھر گولڈن ٹیمپل والے شہر جاکر خود کو پیتل کا ثابت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
سرتاج عزیز نے بتایا کہ افغانستان کو مستحکم کرنا پاکستان کی ترجیحات میں نمایاں ہے اور اس کے لیے کسی بھی فورم پر جانے کے لیے تیار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ فریق ثانی کیا چاہتا ہے؟ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں مودی سے بغل گیر رہنا گوارا کیا اور پاکستان پر کیچڑ ہی اچھالتے رہے۔ سرتاج عزیز نے بھی تسلیم کیا کہ جو کچھ اس کانفرنس میں اشرف غنی نے کہا وہ دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بہتر نہیں تھا، بلکہ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے افغان صدر کے موقف کو قابل مذمت بھی قرار دیا۔
ہمارے حکمرانوں کے پیروں میں مجبوریوں کی ایسی کون سی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں کہ جس در سے ذِلّت ملے اُسی پر بار بار جاتے ہیں ہم نئی دہلی اور کابل کی طرف لپک رہے ہیں اور یہ دونوں ہمیں دیکھ کر صرف منہ بنانے پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ شدید ناپسندیدگی کی قَے بھی فرما رہے ہیں! خاص طور پر بھارت ماتا کی قَے تو ہم بار بار بھگت رہے ہیں۔ اِس قَے کے جواب میں ہمارے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے۔ یہ کہ ؎
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی!