تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-12-2016

بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ

اسرائیلی صدر نے اپنے دو روزہ دورہ بھارت کے دوران سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لئے بھارت کی بھر پور حمایت کاا علان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور بھارت دو مختلف نہیں بلکہ ایک ہی منزل اور ایک ہی رستے اور نظریے کے مسافر ہیں۔ روس کے بعد اسرائیل، بھارت کو اسلحہ فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ صرف ایک سال میں اسرائیل نے بھارت کو 2 ارب ڈالر کی فوجی ٹیکنالوجی فراہم کی ہے جبکہ دونوں ملک عرصے سے پاکستان اور گلف ریاستوں کے متعلق سیاسی اور انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی کر رہے ہیں۔ مودی پر اپنا سب کچھ لٹانے والے عرب ممالک شاید نہیں جانتے کہ ان کے ہاں ٹیکنیکل، آئی ٹی اور معاشیات کے شعبوں میں اعلیٰ منصب پر تعینات بھارتی شہری اسرائیل کے مخبر بنے ہوئے ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ یہ کھیل تازہ نہیں بلکہ پنڈت نہرو نے سوشلزم کے نعرے اور کمیونسٹ روس کی دوستی کے پردے میں 1950ء سے ہی شروع کر رکھا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے فلسطینیوں اور عربوں کی جان کے دشمن اسرائیل کو ممبئی میں قونصل خانہ کھولنے کی با قاعدہ اجازت دے رکھی تھی لیکن سفارتی تعلقات یہ کہہ کر قائم نہ کیے کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ممبئی میں اسرائیل کے اسی قونصل خانے کے ذریعے 'را‘ اور موساد کے مابین تربیتی اور باہمی معلومات کا آغاز ہوا۔
35 سال قبل ستمبر 1968ء میں جب بھارت نے 'را‘ کی بنیاد رکھی اور میشور ناتھ کائو کو اس کا سربراہ مقرر کیا تو وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ہدایت کی کہ 'را‘ کی تربیت اسرائیلی موساد کی طرز پر کی جائے۔ چنانچہ کائو نے موساد سے خفیہ رابطے بڑھادیے۔ 
یہ وہ وقت تھا جب چین، شمالی کوریا اور پاکستان میں فوجی اور سیاسی روابط بڑھنا شروع ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی جس پر امریکی سی آئی اے نے جنرل ایوب خان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ موساد اور 'را‘ کی ایک رپورٹ نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے فوجی لیبیا اور ایران کی فوج کو چین اور شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دے رہے ہیں۔ 'را‘ اور موساد کے تعلقات 1977ء تک خفیہ رہے تا آنکہ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی موساد اور 'را‘ کی مشترکہ رپورٹ دیکھ کر چونک اٹھے کہ پاکستان کا فوجی حکمران جنرل ضیاالحق ایٹمی صلاحیت کی جانب تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے۔ یہ خبر اس لیے بھی اہمیت کی حامل تھی کہ فرانس سے پلوٹونیم ری پراسیسنگ پلانٹ کے حصول کے لیے پاکستانی کوششیں پہلے ہی باہر آ چکی تھیں، لیکن کہوٹہ میں یورینیم کی تیاری خفیہ تھی۔کارٹر انتظامیہ کے سخت دبائو پر فرانس نے اپنی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا، لیکن کہوٹہ کے بارے میں یہ رپورٹ بھارت کے لیے ناقابل برادشت ہوتی جا رہی تھی۔ ایک دن اچانک مرار جی ڈیسائی نے جنرل ضیا الحق کو فون کر کے کہا: ''جنرل، جو کچھ آپ کہوٹہ میں کر رہے ہیں مجھے اس کی ایک ایک تفصیل کا علم ہو چکا ہے‘‘۔ بھارتی 
وزیر اعظم کی اس احمقانہ دھمکی نے جنرل ضیا کو چوکنا کر تے ہوئے یہ راز کھول دیا کہ 'را‘ یہ کام اکیلے نہیں کر سکتی۔ 
پاکستان کو اچانک اپنے ذرائع سے خبر ملی کے عرب اسرائیل جنگ کا ہیرو جنرل موشے دایان کٹھمنڈو میں خفیہ طور پر پہنچ کر بھارت کی اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقاتیں کرنے میں مصروف ہے، جس میں انڈین ایئر فورس کے افسر بھی موجود ہیں۔ ادھر مرار جی ڈیسائی کا فون سنتے ہی جنرل ضیاالحق کو یہ سمجھنے میں ذرا سی دشواری نہ ہوئی کہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر بھارت اور اس'را‘ئیل کوئی سٹرائیکنگ آپریشن کرنے جا رہے ہیں۔ چنانچہ جنرل ضیا نے ایک لمحے کی تاخیرکی بغیر کہوٹہ کے ارد گرد زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا جال بچھا دیا، جس سے بھارت نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لیے۔ 
1980ء کی دہائی میں جب امریکہ کو کہوٹہ کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہو چکیں تو امریکہ کی تمام توجہ افغانستان پرروسی فوجوں کے قبضے کی جانب مبذول ہو گئی اور پاکستان کا شمال مغربی حصہ روسی مداخلت کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین کی چھائونی میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یہ ایسا موقع تھا جب پاکستان امریکہ کی مجبوری اور مغرب سمیت تمام عرب ممالک کا لاڈلا بن گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کاایٹمی پلانٹ امریکی یلغار سے محفوظ ہوگیا۔ لیکن ع'را‘قی ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل کی دیدہ دلیری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہاں ایک جملہ معترضہ یہ کہ افغان جہاد میں پاکستان کی شمولیت پر میاں نواز شریف نے2013ء کے انتخابات سے پہلے مظفر آباد (آزاد کشمیر میں) ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فوج پر الزام دھر دیا کہ ''دہشت گرد یہ خود ہی بناتے اور پیدا کرتے ہیں‘‘۔ آج اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے جس کا سہرا میاں نواز شریف اپنے سر باندھتے نہیں تھکتے تو وہ اسی افغان جہاد میں شمولیت کی وجہ سے ممکن ہوا ورنہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھنے دینے کے اقدامات مکمل کر رکھے تھے۔
موساد اور 'را‘ کے تعلقات دن بدن بڑھتے رہے کیونکہ روسی کمیونزم سے متاثر لیبیا، شام، اردن، عراق، مصر سمیت دوسرے عرب ممالک کی نئی نسل جو روس کے زیر اثر تھی، ان میں روس اور بھارت کی قریبی دوستی کی وجہ سے باہمی تعلقات بڑھتے جا رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بھارت امریکہ کا مخالف اور فلسطین کے یاسرعرفات کا بہترین دوست ہے اور چونکہ بھارتی فوجی افس'را‘ن مختلف مشن انجام دینے کے لیے عرب ممالک میں اکثر جایاکرتے تھے اس لیے ان کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں تمام معلومات 'را‘ کو مل جاتی تھیں جو انہیں موساد کے حوالے کردیتے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
1990ء کی دہائی کے آغاز میں مقبوضہ کشمیر میں جب تحریک آزادی کے لیے عوام پہلی مرتبہ وسیع پیمانے پرسڑکوں پر نکلنا شروع ہوئے تو بھارتی وزیر اعظم نرسمہا رائو کی منظوری سے اسرائیل اور بھارت میں مکمل سفارتی روابط قائم ہو گئے۔ ساتھ ہی امریکہ میں طاقتور یہودی لابی پر بھارت کی جانب سے دبائو بڑھنا شروع ہو گیا کہ پاکستان کو دہشت گرد ریا ست قرار دلوانے میں مدد کی جائے، جس پر امریکہ نے پاکستان کو چھ ماہ کے لئے واچ لسٹ پر رکھنے کا اعلان کر دیا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں مسلح جد و جہد میں تیزی آتی گئی اور ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ بھارت کے ہاتھ پائوں پھولنا شروع ہو گئے۔ پھر یک لخت مقبوضہ کشمیر میں نوجوان اس'را‘ئیلی سیاحوں کی بھر مار شروع ہو گئی۔ یہ منظر سب کے لیے حیران کن تھا کہ جب یہاں کے پنڈت اپنے گھر بار چھوڑ کر ہزاروں کی تعداد میں دوسری جگہوں پر منتقل ہو رہے ہیں تو وادی میں ان سیاحوں کے ہجوم کیوں آگئے ہیں جبکہ یورپی اور امریکی سفارت خانوں نے اپنے شہریوں کو کشمیر آنے سے منع کر رکھا تھا۔جلد ہی یہ راز کھل کر سامنے آ گیا کہ یہ سیاح در اصل موساد کے ایجنٹ ہیں جوکشمیریوں کی تحریک آزادی کے خلاف کائونٹر آپریشن کے لیے بھارت کی مدد کے لیے آئے ہیں۔کشمیری مجاہدین نے سیاحوں کے بھیس میں آئے موساد کے ایجنٹوں میں سے ایک کو قتل اور دوسرے کو اغوا کر لیا جس نے اپنے مشن کی ایک ایک تفصیل سے آگاہ کر دیا۔ باقی کہانی کسی وقت پھر! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved