تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-12-2016

سارا جہاں ہمارا

جس طرح پاکستان کے حکمران اور قومی سیاست میں مبتلا لیڈران کرام‘ پاناما کی بھول بھلیوں میں پھنسے ہیں‘ اسی طرح پرانے زمانے کے لوگ کوہ نور ہیرے کے چکروں میں پھنسے ہوئے تھے اور اب تک پھنسے ہوئے ہیں۔ پاناما لیکس بھی دراصل ایک کوہ نور ہیرا ہے‘ جس نے ہمارے ملک کے امیرترین خاندان کوپھنسا رکھا ہے۔ ابھی تک کسی کو یہ معلوم نہیں کہ پاناما کی دولت اصل میں کس کے پاس ہے؟ قطری شہزادے سے لے کر دختروطن مریم نواز تک‘ ہر ایک کی تحویل میں لاتعداد دولت کے قصے کہانیاں سننے میں آ رہے ہیں۔ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں‘ کس کے پاس کتنی دولت ہے؟ اس خاندان میں صرف جناب نوازشریف ‘ غریب اورمفلس نظر آتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے‘ جیسے کوہ نور کی کہانیاں صدیوں سے طلسم ہوشربا کی طرح مختلف واقعات اور تصورات کو جنم دیتی آ رہی ہیں‘ اب پاناما کی دولت پر قیاس آرائیوں کا ایک نیا سلسلہ جنم لے گا‘ جس کی ہزارداستانیں‘ آنے والے زمانوں میں دہرائی جائیں گی۔آج تک کسی کو اندازہ نہیں کہ کوہ نور ہیرے کی قیمت کیا ہے؟ ہر کسی کا اپنا اندازہ ہے اور ہر کسی نے اپنے تصورات کے مطابق اس کی کہانیاں بیان کی ہیں۔ مگر یوں لگتا ہے کہ اب پاناما کی دولت کے قصے کوہ نور ہیرے کی کہانیوں سے آگے نکل جائیں گے۔ اس کہانی کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کا ہیرو یعنی ہمارے بادشاہ سلامت‘ خود بہت غریب ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق ان کے کھیسے میں دوچار روپے ہوں تو ہوں‘ ورنہ جسے دولت کہتے ہیں‘ وہ ہمارے وزیراعظم کے پاس نہیں۔ انہوں نے اپنے سمدھی کو وزیرخزانہ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کی ساری دولت کا چارج ‘سمدھی صاحب کے پاس ہے اور باقی ماندہ دولت میاں صاحب کے بال بچوں نے سنبھال رکھی ہے۔ جب اہل قلم نے ان خزانوں کی کہانیاں لکھیں‘ تو لوگ ''الف لیلیٰ‘‘ اور کوہ نور ہیرے کی کہانیاں بھول جائیں گے۔ آئندہ نسلیں جو نئے قصے کہانیاں پڑھیں گی‘ وہ صرف پاناما کی دولت اور اسحق ڈار کے کنٹرول میں رکھے گئے دو خزانے ہیں۔ ایک خزانہ پاکستانی عوام کا ہے‘ جو اب پاناما کے کرداروں کے کنٹرول میں ہے اور دوسرا خزانہ ہمارے وزیراعظم کا ہے‘ جس کا کنٹرول جناب اسحق ڈار کے پاس ہے۔ مستقبل میں جو نئی کہانیاں لکھی جائیں گی‘ ان کے خاکے زیادہ تر ہمارے وزیراعظم کی دولت‘ ان کے بال بچوں کی دولت اور ان کے سمدھی کی دولت کے گرد گھومیں گے۔ گھومتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ کوہ نور ہیرے کی لامحدود قیمتیں بے وقعت ہو جائیں گی اور ہمارے حکمران خاندان کی دولت‘ نئی چمک دمک کے ساتھ ‘ نئی کہانیوں پر قابض ہو جائے گی۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے بااختیار لوگ‘ بڑے بڑے بادشاہ‘ بڑے بڑے حکمران آئے اور چلے گئے۔ لیکن دولت کی جتنی کہانیاں ہمارے حکمران خاندان سے منسوب ہوںگی‘ ان کے سامنے کوئی تاریخی خزانہ نہیں ٹھہر پائے گا۔ ہمیں اپنے حکمران خاندان پر فخر ہے۔ رہنے کو گھر نہیں ہے‘ سہارا جہاں ہمارا۔ اب کوہ نور ہیرے کی کہانیاں بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ 
''کوہ نور کا شمار دنیا کے متنازع ترین ہیروں میں ہوتا ہے۔یہ ہیرا کئی صدیوں تک معرکہ آرائیوں اور سازشوں کا موضوع بنا رہا ہے اور مغل شہزادوں، ایرانی جنگجوؤں، افغان حکمرانوں اور پنجابی مہاراجوں کے قبضے میں رہا ہے۔105 قیراط وزنی یہ قیمتی پتھر 19 ویں صدی کے وسط میں برطانویوں کے ہاتھ آیا اور اب شاہی زیور کے طور پر ٹاور آف لندن میں نمائش کے لئے رکھا ہوا ہے۔اس ہیرے کی ملکیت بہت سارے ہندوستانیوں کے لئے جذباتی معاملہ ہے۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ برطانیہ نے یہ ہیرا ان سے چرا لیا تھا۔ولیم ڈیلرمپل اور انیتا آنند نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام''کوہ نور: دنیا کا بدنام ترین ہیرا‘‘ جس میں مصنفین نے اس بیش قیمت ہیرے کے گرد گھومنے والی افسانوی کہانیوں یا غلط فہمیوں کا احاطہ کیا ہے۔ 1849ء میں جب کوہ نور گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی کے ہاتھ آیا تو انہوں نے اس کی باضابطہ تاریخ کے ہمراہ‘ اسے ملکہ وکٹوریا کو بھیجنے کی تیاری کی۔انہوںنے اس ہیرے کی تحقیق کا کام دہلی میں ایک جونیئر اسسٹنٹ مجسٹریٹ تھیو میٹکاف کو سونپا ‘جو جوئے اور پارٹیوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔لیکن میٹکاف نے افواہوں اور گپ شپ سے کچھ زیادہ ہی استفادہ کر لیا۔ اس وقت سے لے کر لاتعداد مضامین میں وہی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ کوہ نور کے حوالے سے وکی پیڈیا پر بھی اس بات کو حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ذیل میں کوہ نور سے متعلق ان چھ ''افسانوی کہانیوں‘‘ کا ذکر ہے جس کا تذکرہ کتاب میں کیا گیا ہے۔
کوہ نور جب برطانیہ آیا تو اس کا وزن 3۔190 میٹر قراط تھا اور اس سے ملتے جلتے کم از کم دو ہیرے اور بھی تھے۔ دریائے نور (اندازاً 195-175 میٹرک قراط وزنی) جو اب تہران میں ہے، اور مغل اعظم ہیرا (9۔189 میٹرک قراط) جس کے بارے میں جدید جوہریوں کا خیال ہے کہ وہ اورلوف ہیرا ہے۔ یہ تینوں ہیرے 1739ء میں ہندوستان پر ایرانی حکمران نادر شاہ کے حملے کے بعد یہاں سے لوٹے گئے مال کے ساتھ ایران لے جائے گئے تھے۔19ویں صدی کے اوائل میں جب یہ ہیرا پنجاب پہنچا‘ اس کو ایک ممتاز اور افضل ہیرا سمجھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
غیرتراشیدہ کوہ نور کے درمیان میں پیلے داغ تھے جو اس کے وسط تک موجود تھے۔ ان میں ایک دھبہ بڑا تھا اور روشنی کو منعکس نہیں کرتا تھا۔اسی وجہ سے ملکہ وکٹوریا کے شوہر پرنس البرٹ کوہ نور کو دوبارہ تراشنے کے حق میں تھے۔کوہ نور دنیا کا سب سے بڑا ہیرا نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دنیا کا 90واں بڑا ہیرا ہے۔دراصل جو سیاح اسے ٹاور آف لندن میں دیکھتے ہیں، وہ اکثر اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کتنا چھوٹا سا ہے؟ خاص طور پر جب وہ اس کا موازنہ قریب ہی نمائش کے لئے رکھے گئے دو بڑے کلینن ہیروں سے کرتے ہیں۔
یہ جاننا ناممکن ہے کہ کوہ نور کی دریافت کب اور کہاں ہوئی؟ اسی وجہ سے یہ ایک پراسرار پتھر ہے۔کچھ یہ بھی خیال کرتے ہیں کوہ نور دراصل شیامنتک پتھر ہے ،جس کا ذکر ہندوؤں کے بھگوان کرشنا سے متعلق مذہبی کتاب بھگوت پران میں ملتا ہے۔تھیو میٹکاف کی رپورٹ کے مطابق یہی روایت ہے کہ ''یہ ہیرا کرشنا کی زندگی کے دور میں ہی نکالا گیا تھا۔‘‘لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں یہ ہیرا کان سے نہیں نکالا گیا تھا بلکہ شاید جنوبی انڈیا میں خشک دریائی سطح سے نکالا گیا تھا۔ انڈین ہیرے کانوں سے نہیں نکلتے بلکہ دریائی زمین سے ملتے ہیں۔
ہندو اور سکھ ہیروں کو دوسرے جواہرات سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے جبکہ مغل اور ایرانی بڑے، غیرتراشیدہ اور چمکتے پتھروں کو ترجیح دیتے تھے۔بلاشبہ کوہ نور کا شمار مغلوں کے اس پیش قیمت خزانے میں ہوتا تھا جس میں بہترین اور غیرمعمولی جواہرات موجود تھے۔ لیکن اس خزانے میں بیشتر قیمتی پتھر ہیرے نہیں تھے۔ مغل بدخشان کے سرخ سپینل اور برما کے سرخ یاقوتوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔یہاں تک کہ مغل بادشاہ ہمایوں نے بابر کے ایک ہیرے کو ایرانی بادشاہ شاہ طہماسپ کو جلاوطنی کے دوران تحفے میں دے دیا تھا۔ یہ خیال بھی ہے کہ یہی کوہ نور تھا۔بابر کا یہ ہیرا دوبارہ دکن پہنچا لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ دوبارہ کب اور کیسے مغلوں کے پاس پہنچا؟
معروف قصہ ہے کہ نادر شاہ نے مغل بادشاہ کو اس کے ہیرے سے محروم کرنے پر اکسایا، جو اس نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا۔لیکن محمد شاہ کے پاس یہ واحد قیمتی پتھر نہیں تھا جسے اپنی پگڑی میں چھپا کر رکھتے اور جسے نادر شاہ چالاکی سے پگڑی تبدیل کر کے حاصل کر لیتے۔ایرانی مورخ ماروی کے مشاہدے کے مطابق، بادشاہ قیمتی پتھر اپنی پگڑی میںنہیں چھپا سکتا تھا کیونکہ اس وقت وہ انتہائی دلکش اور قیمتی شاہی تخت کاحصہ تھا، جسے شاہ جہان کا مور تخت کہا جاتا تھا۔وہ اپنے ذاتی مشاہدے کے بارے میں لکھتے ہیں ،کوہ نور اس غیر معمولی تخت کی چھت پر ایک مور کے سر پر نصب تھا۔
فرانس کے جواہر کے تاجر اور مسافر یاں پیتستے ٹوورنیئر کو مغل بادشاہ اورنگزیب نے اپنے ذاتی جواہرات دیکھنے کی اجازت دی تھی اور ان کے مطابق پتھر تراش ہوٹینسیو بورگیو نے ایک بڑے ہیرے کو جلا دیا تھا نتیجتاًاس کا سائز کم ہو گیا۔لیکن انہوںنے اس ہیرے کی شناخت مغل اعظم ہیرے کے طور پر کی تھی، جو ہیروں کے تاجر میر جملا نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کو تحفے میں دیا تھا۔ دورجدید کے ماہرین کو یقین ہے کہ مغل اعظم ہیرا دراصل اولوف ہے، جو اس وقت کریملن میں روسی ملکہ کیتھرین کی عصائے شاہی پر نصب ہے۔مغلوں کے دیگر ہیروں کے بارے میں تقریباً سبھی بھول چکے ہیں اور تاریخی حوالوں میں تمام ہندوستانی غیرمعمولی ہیروں کا ذکر کوہ نور سمجھ کر ہی کیا جاتا ہے۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved