تحریر : وجاہت سعید خان تاریخ اشاعت     11-12-2016

میں جنید جمشید کا انٹرویو کیوں نہیں کرنا چاہتا تھا؟

تین ہفتے اور نصف درجن پروگرام قبل، میرے ایگزیکٹو پروڈیوسر اور میرے درمیان ایک بحث ہوئی تھی۔ اس کا موضوع جنید جمشید تھے۔ میرا ایگزیکٹو پروڈیوسر چاہتا تھا کہ میں اپنے پروگرام ''محاذ ‘‘ کی ایک قسط جنید جمشید کے ساتھ ریکارڈ کروں، لیکن میں اس تجویز کے خلاف تھا؛ چنانچہ ہمارے درمیان دلائل کا تبادلہ طول پکڑتا گیا۔ 
اس بحث میں جنید جمشید کی ہر حوالے سے ایک منفی تصویر ابھرتی تھی... سیکولر مزاج مقبول ِعام پوپ سنگر سے تبدیل ہوتا ہوا ایک باریش مذہبی شخص۔ فیشن کی دنیا کا ایک بڑا نام، جو جدت پسند عورتوں کے بھڑکیلے انداز کو پسند نہیں کرتا۔ سر پر ٹوپی پہنے، طمانیت بھرا چہرہ لیے ایک تبلیغی، جو سوچتا تھا کہ وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے، کسی کے بارے میں بھی بات کر سکتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ شخص ایک قابل احترام مذہبی شخصیت ہے یا سیاسی لیڈر یا کرتہ ڈیزائنر۔ سچ پوچھیں تو اس بحث میں اس کا ایک انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والے شخص کا تاثر ابھرتا، جسے اپنے جیسی سوچ رکھنے والے افراد سے پریشانی کا سامنا تھا۔
یقینا ایسے بیانیے کی موجودگی میں، میں ریکارڈنگ کے حق میں نہیں تھا۔ 
لیکن میں غلطی پر تھا۔
ایک اور بات، میں جنید جمشید سے واقف نہیں تھا۔ اگرچہ پاکستان میں مشہور شخصیات کا گروہ بہت محدود سا ہے، لیکن مجھے اُس سے ملنے کا اتفاق نہ ہو سکا۔ ہاں، میں نے اُسے ٹی وی پر تبلیغ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کی نئی پرفیوم کا اشتہار نظر سے گزرا۔ ہاں، میں نے اس کی مذہب پسندی کے بارے میں کہانیاں سنی تھیں، کچھ حقیقی، کچھ تخلیقی۔ لیکن میر ی اُس سے ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔ 
گزشتہ رات جب میں اس پہاڑ پر چڑھ رہا تھا‘ جہاں اس کا طیارہ گرا تھا، تو مجھے احساس ہوا کہ میں غلطی پر تھا۔ وہ نہیں تھا، وہ تو جا چکا تھا، مہیب شعلوں کی زد میں آکر، دیگر سینتالیس افراد کی طرح، وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جا چکا تھا۔ اور میں وہاں کھڑا تھا۔ مجھے اُس پر غصہ آنے لگا۔ میں اُس سے ناراض تھا کہ وہ کئی سال پہلے مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ شخص جس کی دو عشروں سے مجھے تلاش تھی۔ لیکن جس گھڑی میں اُس سے ملنے کی پوزیشن میں تھا، وہ چلا گیا۔ جس وقت میں اس قابل تھا کہ فون اٹھائوں اور اُسے کال کروں اور اُس سے وقت مانگوں، لیکن میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا‘ موجودہ جنید جمشید وہ نہیں تھا جس کی تلاش میں‘ میں تھا۔ 
مجھے کسی اور شخص کی تلاش تھی۔
گم شدہ جنید وہ لڑکا تھا‘ جس کے بارے میں، میں نے پہلی مرتبہ اُس وقت سنا جب میں چھٹی کلاس کی اختتامی ٹرم پر ہونے والے ڈرامے کے بعد گھر آیا تھا۔ میں سکول کے ڈرامے میں اداکاری کر رہا تھا، میر ے والدین دیکھ رہے تھے۔ میرے احباب نے جنید کی کیسٹ خریدی، جو ہم نے گاڑی میں لگائی اور گھر آتے ہوئے سنا۔ جو کچھ ہم نے سنا، وہ اتنا مسحورکن تھا کہ ہم وارفتگی کے عالم میں گھر آنے کی بجائے طارق روڈ ڈنر کرنے پہنچ گئے۔ ہم نے گاڑی کے ڈیک کی آواز بلند کر دی۔ وہاں موجود افراد اور کچھ بھکاری اس تفریح سے محظوظ ہوئے۔ چرغہ ریستوران کے ویٹرز نے بھی جنید کی آواز پسند کی؛ چنانچہ ہم نے اپنی گاڑی میں ہی بیٹھ کر کھانا کھانے اور ساتھ وائٹل سائنز کے مسحور کن گانے سننے کو ترجیح دی۔ گھر جانے سے پہلے میں نے دو اور کیسٹ خریدیں، ایک گھر کے سٹیریو کے لیے اور دوسری گاڑی میں سننے کے لیے۔ 
یہ تھا وہ شخص جسے میں درحقیقت ملنا چاہتا تھا۔ دراز قامت، سمارٹ، تین دن کی بڑھی ہوئی شیو، اور آنکھیں ایسی کہ دل میں اتر جائیں، وطن کی محبت کا پیغام اہلِ وطن کے دلوں کی دھڑکن میں سمونے والا، اور جس نے مجھے والہانہ انداز میں اپنے مڈل سکول کی انتہائی خوبصورت دوست کے سامنے ''گورے رنگ کا زمانہ‘‘ کی سیٹی پر دھن بجانے پر مجبور کر دیا، اور جس کا ''سمجھانا‘‘ میرے چند ایک متفرق ٹیپس میں موجود رہا... اور جس کے بینڈ نے جب ایک کولا کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا، وہ معاہدہ جس نے مجھے میوزک انڈسٹری کا اُس وقت بھی نقاد بنا دیا جب مجھے میوزک کی الف ب کا بھی علم نہ تھا۔ درحقیقت وہ جنید جمشید ''موجودہ باریش جنید جمشید‘‘ کے ہاتھوں مدتوں پہلے جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اُس سے ناراض تھا۔ 
مگر میں ایک مرتبہ پھر غلطی پر تھا۔
جب میں نے دیکھا کہ وہ اُس کے جسد کو، یا جسے وہ اُس کا جسد سمجھے تھے، لے گئے ہیں تو میں اُس پہاڑی، جو گزشتہ رات آگ سے دہک اٹھی تھی، پر بیٹھا سوچتا رہا کہ جنید جمشید میں بہت سی خوبیاں تھیں، لیکن سب سے بڑھ کر وہ ایک دلیر انسان تھا۔ جنرل ضیا کے پاکستان میں وہ انتہائی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پوپ سٹار کے طور پر سامنے آیا، جو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی دل کی دھڑکن بن گیا۔ 90ء کے ہنگامہ خیز دور میں اہم میگزینوں میں اس کے فوٹو سپریڈ دکھائی دیے‘ جس میں وہ تاش کھیلتا نظر آیا‘ جبکہ سامنے میز پر نائن ایم ایم پستول اور گلاس رکھے ہوتے۔ وہ کمرشل اشتہارات کے معاہدے کرتا، لڑکیوں کے لیے جذباتی گانے گاتا، کرکٹ کھیلتا، مزید لڑکیاں، مزید بے وفائی، دولت کا ضیاع، خوبصورت حسینائیں، سرخ ہونٹ، دوست، سرکس اور گاڑیاں اور بائیکس، اور پھر معافی۔ پھر لڑائی۔ اس طرح جنید نے پاکستان کے اخلاقی پیمانے پر جوانی، محبت، عشق، غرور اور حب الوطنی کے واضح نشان لگا دیے۔ 
گاہے وہ منظر سے غائب ہوا، لیکن پھر زیادہ دلیر بن کر نمودار ہوا۔ 
نائن الیون کے بعد کا پاکستان مذہب اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کے سوال میں الجھ گیا تو جنید بھی بنیاد پرست بن کر ابھرا؛ تاہم جنید نے اسے بھی اپنے مطابق ڈھال لیا۔ وہ ذاکر نائیک کی طرح ''مذہب کا وکی پیڈیا‘‘ نہیں تھا، اور نہ ہی عامر لیاقت حسین کی طرح ٹی وی پر مجسم فرشتہ نما اداکاری۔ نہیں، وہ نعتیں پڑھتا، تلاوت کرتا، پروگراموں کی میزبانی کرتا، گفتگو میں حصہ لیتا، اور یقینا ساتھ ساتھ ڈیزائننگ اور تخلیقی کام بھی جاری تھے۔ وہ سفر کرتا، نت نئی چیزیں دریافت کرتا۔ اس کا کام عظیم تھا۔ وہی سانولیاں سلونیاں اور گوریاں‘ جن کے وہ جوانی میں گن گاتا تھا‘ آج مائیں‘ بہنیں‘ بیٹیاں بن کر اپنے بچوں‘ والدین‘ بھائیوں اور خاوندوں کے ساتھ ان کی نئی فین بن چکی تھیں۔ وہ دل پھینک جو حسن کے پیچھے گمراہ تھے‘ اب دین کی راہ میں اس کے پیچھے لگ گئے۔ اب یہ نئے پاکستان کا نیا باریش جنید تھا۔ اب یہ راک سٹار نہیں، پند و نصیحت کرنے والا جنید تھا۔ 
بات یہ ہے کہ جس وقت یہ نیا جنید ابھرا تو پاکستان بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ چند عشروں کی جنگ اور تاریخ نے اس کی بنیاد پرستی کی جڑوں کو گہرا کرتے ہوئے اسے جہادی جنون کی نرسری بنا دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جنید جمشید اس اسلامی ری پبلک میں ایک ایسا عکس بن کر ابھرا جس نے ضیا کی آمریت کے دور میں دلیری سے لبرل ازم دکھایا اور دہشت گردی کے دور میں تبلیغ کی۔ اُس نے دبائو کے سامنے نرمی کا مظاہرہ کرنا سیکھ لیا، لیکن پھر اُس کا اپنا طبقہ ہی اُس سے ناراض ہو گیا۔ گزشتہ شب، جب میں خاک و خون سے لتھڑی اور ایندھن کی آگ میں جلنے والی پہاڑی پر تھا تو مجھے امید تھی کہ شاید تلاش کرنے والے اصل جنید کو بھی ڈھونڈ نکالیں۔ مجھے امید تھی کہ وہ اس کے آئی پوڈ پر بوب ڈیلن، لیونارڈ کوہن، یا سٹیلی ڈین کو پائیں گے۔ وہاں اُنہیں زندگی کی امنگ ملے گی، یا ہو سکتا ہے رضا اسلان یا اُس کے بیک پیک میں رولنگ سٹون موجود ہو۔ لیکن نہیں، تلاش کار لاحاصل تھی۔ اُنہیں ایک معمر شخص کا بزنس کارڈ ملا جس پر فون نمبر، ویب سائٹس، فیس بک آئی ڈی، ای میل تھیں۔ مذہب اور کاروبار کا امتزاج۔ 
مجھے غصہ آ گیا۔ ڈھونڈنے والے اصل جنید کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
پھر اس وقت کوئی گنگنا اٹھا، 'دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘، اور میں سمجھ گیا۔ جنید میرا اور میرے جیسوں کا 'دل‘ تھا اور وہ 'جان‘ تھا ان لاکھوں‘ کروڑوں کی جو میرے جیسے نہیں تھے‘ جو بہت مختلف تھے لیکن پھر بھی اس سے اُن کا گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک سیکولر پاکستان کا دل اور ایک تبلیغی پاکستان کی جان تھا۔ یہ رہا ایک پاکستانی، دونوں قسم کے پاکستانیوں کے لیے۔ 
تو جنید جمشید صاحب اب دوسرے جہان میں ملیں گے‘ جہاں میں آپ کا انٹرویو کرنے کا منتظر رہوں گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved