فیس بک پر ایک پوسٹ نے دامنِ دل تھام لیا، کسی اور طرف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں۔۔۔۔'' ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اسیری کو 5000 دن ہو گئے‘‘۔ سیاست پر گفتگو تو ہوتی رہتی ہے، کیوں نہ آج عافیہ کو یاد کیا جائے۔
برطانیہ کی نو مسلم صحافی خاتون ایون ریڈلی کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ وہ پانچ سال چار ماہ سے لاپتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ''بازیابی‘‘ کا ذریعہ بن گئی تھی۔ وہ عالمی شہرت یافتہ برطانوی اخبار''سنڈے ایکسپریس‘‘ کی چیف رپورٹر تھی جب طالبان کے افغانستان کا بچشم خود مشاہدہ کرنے کے لیے افغانستان پہنچی۔ اس کے پاس افغانستان کا ویزہ نہیں تھا۔ اس نے افغان خاتون کا بھیس بدلا لیکن واپسی پر پاک افغان بارڈر پر پکڑی گئی۔ 11 روزہ حراست میں اسے طالبان کی طرف سے جو عزت و احترام ملا، اس سے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اس کی سوچ کو نیا رخ ملا۔ برطانیہ واپس جا کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئی۔ وہ اب حجاب کا اہتمام کرنے والی ایک باعمل مسلمان خاتون ہے۔
کچھ عرصہ قبل ''Enemy Combatant‘‘ کے نام سے ایک کتاب ریڈلی کی نظر سے گزری۔ فروری 2002ء میں اسلام آباد سے گرفتار کیا جانے والا معظم بیگ تقریباً ایک سال بگرام میں امریکیوں کے '' زیر تفتیش‘‘ رہا۔ بعد میں اسے گوانتا ناموبے منتقل کر دیا گیا۔ کوئی بھی جرم ثابت نہ ہونے پر اسے 2005 ء میں رہا کر دیاگیا۔ Enemy Combatant بگرام اور گوانتا ناموبے میں گزرے ہوئے انہی دنوں کی روداد ہے۔
بگرام جیل میں اسے کسی خاتون کی ایسی درد ناک چیخیں سنائی دیتیں جو ہزاروں میل دور گوانتا ناموبے میں بھی اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ 2005 ء میں بگرام سے چار عرب قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے ''العربیہ ‘‘ سے انٹرویو میں امریکیوں کے زیر تفتیش ایک خاتون قیدی کا ذکر بھی کیا جس کی چیخیں جیل کی چاردیواری میں یوں گونجتیں کہ سننے والے رات بھر سو نہ پاتے۔کابل میں ایک افغان تاجر بھی بگرام میں زیرِ تفتیش ایک خاتون کی موجودگی کی شہادت دیتا جس کا دوست یہاں قیدیوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرتا تھا۔
ریڈلی کے صحافیانہ تجسس نے اسے اس خاتون کی سٹوری Probe کرنے پر مجبورکیا، جسے '' قیدی 650 ‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنے ذرائع سے جو رپورٹ مرتب کی، اس کے مطابق بگرام کے انویسٹی گیشن سیل میں اس خاتون پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھاکہ جیل کا عملہ خاتون کو مسلسل تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ اسے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا جہاں پردے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہ صورتحال کسی خاتون، خصوصاً ایک باپردہ اور باعمل مسلمان خاتون کے لیے کتنے گہرے ذہنی صدمے کا باعث ہوگی؟
جولائی2008 ء میں ریڈلی نے اس المیہ کو بے نقاب کرنے کے لیے اسلام آباد کا انتخاب کیا۔کیا بگرام انویسٹی گیشن سیل کی ''قیدی650 ‘‘کراچی کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھی؟ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لیے یہ ایک بڑی خبر تھی۔کالم نویسوں نے کالم لکھے۔ یہ اخبارات کے اداریوں کا موضوع بھی بنی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی انگڑائی لی۔ عافیہ کی بھولی بسری کہانی پھر یاد آگئی تھی۔
2 مارچ 1972ء کوکراچی میں آنکھ کھولنے والی عافیہ نے جامعہ کراچی سے مائیکرو بیالوجی میں ماسٹرزکرنے کے بعد امریکہ کا رخ کیا، جہاں اس کا ایک بھائی اور بہن پہلے سے مقیم تھے۔ اس نے بوسٹن میں میسی چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) سے مائیکرو بیالوجی میں ڈاکٹریٹ کی۔کلاس فیلوز کے بقول وہ سکارف پہننے والی نسبتاً کم گو لڑکی تھی۔ نصابی کتب کے علاوہ اسلامی لٹریچر بھی اس کے زیرِ مطالعہ رہتا۔ نائن الیون کے بعد بھی اس کا پاکستان آنا جانا رہا۔ 2003 ء کے اوائل میں وہ پاکستان میں تھی۔ 30 مارچ کو وہ اسلام آباد میں مقیم اپنے انکل کے ہاں جانے کے لیے روانہ ہوئی۔ تینوں بیٹے بھی اس کے ہمراہ تھے۔۔۔ سات سال، پانچ سال اور چھ ماہ کے۔ وہ ٹیکسی میں ریلوے اسٹیشن جا رہی تھی۔ راستے میں اس پر کیا بیتی ؟..... یہ کہانی کراچی کے ایک ہونہارکرائم رپورٹر نجیب احمد نے ڈھونڈ نکالی:
نجیب پر اعتماد کرنے والے ایک پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا: ''نائن الیون کے بعد امریکی ایف بی آئی کی ایک ٹیم کراچی آئی تھی۔ اس کے ساتھ کراچی پولیس کی ٹیم بھی کام کر رہی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ گلشنِ اقبال میں القاعدہ کا ایک اہم رکن ہے، بہت بڑا دہشتگرد جسے ہر حال میں گرفتار کرنا ہے۔ ہم گلشن اقبال میں ایف بی آئی کی ٹیم کے ہمراہ تھے کہ ایک ٹیکسی آتی دکھائی دی۔ ہم نے اس میں موجود سکارف پہنے ہوئے خاتون کو زبردستی اتارا اور ایف بی آئی کی گاڑی میں بٹھا دیا۔ بچوں کو دوسری گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ غصے میں بڑبڑاتے ہوئے ایف بی آئی کی ایک خاتون انجینئر نے عافیہ صدیقی کے چہرے پر دو تھپڑ مارے اورگاڑیاں وہاں سے چلی گئیں۔
تب اس پاکستانی پولیس افسر کو پچھتاوے نے آ لیا: ''ہمیں بتایا گیا تھا کہ کوئی القاعدہ کا دہشت گرد ہے، لیکن وہ تو معصوم سی خاتون تھی۔ اگر ڈاکٹر عافیہ نے کچھ کیا تھا تو اس کے معصوم اور بے گناہ بچوں نے توکوئی جرم نہیں کیا تھا۔ ان معصوموں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔ میں اندر سے ٹوٹتا جا رہا ہوں کہ میں بھی اس ظلم میں شامل تھا‘‘۔
چند روز بعد ایک شخص موٹر سائیکل پر عافیہ کے گھر آیا۔ سرخ ہیلمٹ کے ساتھ چمڑے کی جیکٹ پہنے ہوئے اس شخص نے عافیہ کی والدہ سے قدرے درشتی سے کہا: ''تمہاری بیٹی اپنے بچوں سمیت محفوظ ہے، ان کی شکلیں دوبارہ دیکھنا چاہتی ہو تو زبان بند رکھو۔ کچھ دنوں بعد وہ واپس آ جائے گی‘‘۔ فیصل صالح حیات وزیر داخلہ تھے۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی گرفتاری کی تصدیق کی۔ ان کا ''مشورہ‘‘ بھی یہی تھاکہ عافیہ کے گھر والے اسے مسئلہ نہ بنائیں، وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور جلد بچوں سمیت لوٹ آئے گی۔ 2004 ء میں ایف بی آئی کی مطلوبہ فہرست پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام بھی آگیا۔
سوا پانچ سال بعد عافیہ ''بازیاب‘‘ ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی کہانی نیا موڑ مڑ گئی۔ امریکیوں نے عافیہ کی گرفتاری کا اعتراف کر لیا لیکن وہ اس کا آغاز17 جولائی2007 ء سے کرتے۔ ان کے بقول اسے افغانستان کے صوبہ غزنی میں گورنر ہائوس کے قریب افغان پولیس نے مشتبہ حالت میں گرفتارکیا۔ اس سے برآمد ہونے والی اشیا میں بم بنانے کے طریقوں پر مشتمل کچھ دستاویزات اور نیویارک سمیت بعض اہم امریکی مقامات کے نقشے بھی تھے اور بوتلوں میں دھماکہ خیز مواد بھی۔ اگلے روز امریکی فوجی اور ایف بی آئی ایجنٹ پولیس اسٹیشن آئے۔ وہ دوسرے فلور پر میٹنگ روم میں پہنچے۔ وہ پردے کے پیچھے عافیہ کی موجودگی سے بے خبر تھے۔امریکی وارنٹ آفیسر نے پردے کے پاس زمین پر اپنی رائفل رکھ دی۔ میٹنگ ابھی شروع ہوئی تھی کہ امریکن کیپٹن نے پردے کے پیچھے آواز سنی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو امریکی افسرکی رائفل عافیہ کے ہاتھ میں تھی اور اس نے براہ راست کیپٹن کو نشانہ بنالیا تھا۔ ترجمان نے جو عافیہ کے قریب تھا، اس سے رائفل چھیننے کی کوشش کی۔اس دوران عافیہ دو فائر کرنے میں کامیاب ہوگئی، لیکن فائر خطا گئے۔ وارنٹ آفیسر نے 9 ایم ایم کے پسٹل سے عافیہ پر دو فائر کیے جن میں سے ایک اسے لگا۔ زخمی ہونے کے باوجود عافیہ امریکیوں سے بچنے کی جدوجہد کرتی رہی۔ وہ انگریزی میں چیخ رہی تھی: ''میں تمام امریکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہتی ہوں‘‘۔
عافیہ کو نیویارک پہنچا دیا گیا۔ اس پر دو الزامات تھے۔ ایک یہ کہ اس نے امریکی افسروں اور اہلکاروں کو قتل کرنے کی کوشش کی اور دوسرا اس نے امریکی افسروں اور اہلکاروں پر حملہ کیا۔ ان میں سے ہر جرم کی سزا زیادہ سے زیادہ 20 سال قید تھی لیکن عافیہ کو86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ فوزیہ صدیقی کے بقول ٹیلی فون کالز اور ایس ایم ایس پر مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں، زندگی عزیز ہے تو زبان بند رکھو اور عافیہ کے کیس کی پیروی نہ کرو۔
اور اب پرویز مشرف کی کتاب ''ان دی لائن آف فائر‘‘ کے 23 ویں باب ''Manhunt‘‘سے چند سطور۔ صفحہ 237 کی ان سطور کو بیک کور کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا: ''نائن الیون کے فوراً بعد جب القاعدہ کے کئی ارکان افغانستان سے بھاگ کر پاکستان میں آ گئے تھے، ہم نے ان کے ساتھ''بلی اور چوہے‘‘ کے کئی کھیل کھیلے۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ اسامہ بن لادن، تادم تحریر مفرور ہے، لیکن ہم نے کئی دوسروں کو گرفتارکیا۔ ان میں بعض کا دنیا کو علم ہے اور بعض کا نہیں۔ ہم نے 672 پکڑے اور ان میں سے 369کو امریکیوں کے حوالے کیا اور اس کے عوض کئی ملین ڈالر انعام میں پائے۔ ڈکٹیٹر امریکہ میں تھا جب اخبار نویسوں نے اس سے استفسار کیا کہ یہ رقم کس کس کھاتے میں جمع ہوئی۔ اس نے حیرت کا اظہار کیا: ''کیا کتاب میں یہ بات بھی موجود ہے؟‘‘ کتاب کے اردو ترجمے (سب سے پہلے پاکستان) میں یہ بات حذف کر دی گئی تھی۔
وضاحت : گزشتہ جمہور نامہ ''وہی کالعدم جماعتوںکا معاملہ ‘‘ کے حوالے سے فرخ سہیل گوئندی نے یا دلایا کہ ڈاکٹر مبشر حسن اور خود انہوں نے پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد جوائن کی تھی، تب غنویٰ بھٹو پارٹی کی سربراہ تھیں ۔جہاں تک رائو رشید اور اسحق خاکوانی کا تعلق ہے، وہ پیپلز پارٹی ( شہید بھٹو)کے ابتدائی لوگوں میں تھے۔ تب ''الذوالفقار‘‘ ختم ہو چکی تھی اور مرتضیٰ پیپلز پارٹی (شہید بھٹو ) بنا کر قومی دھارے میں شامل ہو گیا تھا۔