آم
اسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے لیکن اس کی ملکہ نہیں ہوتی اور اسے صرف اپنی گٹھلی پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام والا محاورہ سراسر غلط ہے‘کوئی پرلے درجے کا بیوقوف ہی ہو گا‘ جو گٹھلیوں کے دام ادا کرے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آم کھانے سے غرض رکھنی چاہیے، پیڑ گننے سے نہیں، لیکن اگر کوئی پیڑ گننا چاہے اور اُس کے پاس وقت بھی ہو تو آپ کو کیا تکلیف ہے جو اسے روکنے لگ جائیں۔ یہ چوس کر پیا اور کاٹ کر کھایا جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں ایک لنگڑا آم ہوا کرتا تھا جو اب کہیں نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے اس کی ٹانگ ٹھیک ہو گئی ہے۔ آم عام طور سے چرا کر ہی کھایا جاتا ہے۔ منقول ہے کہ ایک لڑکا کسی کے باغ میں آم کے درخت پر چڑھا آم چرا رہا تھا کہ باغ کا مالک بھی آگیا اور لڑکے سے بولا:
''نیچے اترتے ہو یا تمہارے والد کو بلاؤں‘‘
'' انہیں بلانے کی ضرورت نہیں‘‘ لڑکا بولا
'' کیوں؟‘ مالک نے پوچھا۔
''اس لیے کہ وہ ساتھ والے پیڑ پر چڑھے ہوئے ہیں‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
انار
ہمارے وقت میں قاعدہ الف انار سے شروع ہوا کرتا تھا، اب ہو سکتا ہے الف سے ایٹم بم ہو۔ یک انار صد بیمار کا مطلب یہ ہے کہ انار کے دانے نکال کر سو مریضوں میںایک ایک دو دو تقسیم کر دیئے جائیں۔ ایک آتشبازی کا انار بھی ہوتا ہے جو مریضوں کو کھلانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نظیر اکبر آبادی کا شعر ہے:
یوں تو ہم کچھ بھی نہ تھے مثلِ انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا
اس کے بیج سے انار دانہ بنایا جاتا ہے، اور اگر انار آپ بیج سمیت کھا رہے ہوں تو بیک وقت انار بھی کھا رہے ہوں گے اور انار دانہ بھی‘ یعنی ٹو انِ وَن۔
انگور
یہ کھٹے بھی ہوتے ہیں اور میٹھے بھی۔ ان کا فرق معلوم کرنا ہو تو ایک لومڑی کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی۔ اسے انگوروں کی ایک بیل کے پاس چھوڑ دیں جس پر انگوروں کے گچھے لٹک رہے ہوں۔ گچھے چونکہ اونچے ہوںگے اس لیے لومڑی ان تک پہنچنے کے لیے اچھلے کودے گی اور چھلانگیں لگائے گی۔ سواگر لومڑی کسی گچھے تک پہنچ جائے تو سمجھ لیں کہ انگور میٹھے ہیں‘ ورنہ وہ کھٹے ہوں گے۔ شراب کو دُخترِ انگور یا دُخت انگور کہا جاتا ہے حالانکہ ہر نری حماقت ہے۔کیونکہ انگور کا بیٹا یا بیٹی کیونکر ہوسکتے ہیں۔ ایک چھوٹا انگور ہوتا ہے اور ایک بڑا۔ ایک شعر دیکھئے:
جھجکتے اور شرماتے وہ اس کا بوسۂ اول
لرزنا اور پھر منہ میں بڑے انگور کا گھلنا
یہ خشک ہوجائے تو کشمش کہلاتا ہے۔ یہ انگور اڈہ سے آتاہے۔ ایک انگور زخم پر بھی آتاہے لیکن یہ کھانے کے کام نہیں آتا۔ سفید، سبز، کالا اور گلابی ہر رنگ میں دستیاب ہے۔ چمن سے انگور اور چرس درآمد کیے جاتے ہیں۔
بیر
یہ غریب نواز پھل ہے اور اس کا پیڑ بیری کہلاتاہے۔ گھروں میںبھی اگایا جاتا ہے لیکن اس کا فائدہ اس لیے نہیںہے کہ بیر آپ کی قسمت میں نہیں ہوتے۔ شکیب جلالی کا یہ شعر بیری کے بارے میں ہی ہے۔ ؎
آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
پھل جو اس پیڑ کے تھے سب پسِ دیوار گرے
اس کی کئی قسمیں ہیں جن میںگل گھوٹو بیر سب سے نمایاں ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص ایک اندھے کے ہمراہ کہیںجارہا تھا۔ راستے میں انہیں نظر آیا کہ ایک شخص چھابڑی میں بیر لگائے بیٹھا ہے۔ انہوں نے اس سے بیر خریدے اور کھانے کے لیے ایک جگہ بیٹھ گئے تو اندھے نے کہا کہ دیکھو ایسا ایمانداری سے بیر کھانے ہیں اور ایک وقت میں ایک بیر منہ میں ڈالنا ہے۔ کھاتے کھاتے اندھا بولا:
''تم بے ایمانی کر رہے ہو، اور ایک وقت سے ایک سے زیادہ بیر منہ میں ڈال رہے ہو،،
''تم تو اندھے ہو، تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘اس شخص نے پوچھا، تو اندھا بولا، ''میں جو ایک وقت میںدو بیر منہ میں ڈال رہا ہوں تو تم یقیناً چار ڈال رہے ہوگے‘‘۔
مالٹا
مالٹا، سنگترہ، کنوں، موسمبی، چکوترا اور لیموں وغیرہ آپس میںقریبی رشتے دار ہیں اور ان کے ذائقے بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ ہمارے وقتوں میں اندر سے ایک تقریبا ًخالی سنگترہ ہوا کرتا تھا جو ہوائی سنگترہ کہلاتا تھا جواب نا پید ہے، شاید اس کی ہوا کسی نے نکال لی ہے۔ میٹھا بھی انہی کی ایک قسم ہے جو شرطیہ میٹھے ہوتے ہیں۔ سندھ کے علاقے میں مالٹے تول کر بھی بیچتے ہیں۔ ایک نستعلیق قسم کے بزرگ ایک سٹیشن پر گاڑی سے اترے جہاں پلیٹ فارم پر ایک شخص مالٹے بیچ رہاتھا۔ انہوںنے اس سے پوچھا:'' کیوں بھئی عدداً بیچ رہے ہو یا وزناً؟‘‘
'' نہیں جی، میں تو صرف مالٹے بیچ رہا ہوں!‘‘ اس نے جواب دیا
منہ کڑوا کرنا مقصودہوتو ایک عدد میٹھا کھالیںاور اس کے دس منٹ بعد مطلوبہ کڑواہٹ آپ مفت حاصل کرسکتے ہیں۔ ان پھلوں سے سکویش بنتے ہیں۔ بنتے نہیں بلکہ بنانا پڑتے ہے کیونکہ یہاں بنی بنائی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
امرود
یہ ہو میو پیتھک پھل ہے یعنی اس کے کھانے سے نہ نقصان ہوتا ہے نہ فائدہ۔ یہ سفید رنگ میں بھی دستیاب ہے اور سرخ میں بھی۔ سرخ والا انقلابی یعنی کمیونسٹ ہوتاہے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود
اگر آئے صلاح الدین محمود
لیکن وہ بھی اکیلے نہیں بلکہ محمد سلیم الرحمن اور ریاضی احمد چودھری کے ہمراہ آیا کرتے تھے۔
وہ دن جب یاد آتے ہیں کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
آج کا مطلع
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستہ بھول جاتا ہوں
جب اس کو یاد کرتا ہوں تو کتنا بھول جاتا ہوں